وزیراعظم عمران خان نے نواز شریف اور آصف علی زرداری کو دو ٹوک اور واضح پیغام دے دیا ہے کہ ملک و قوم کا لوٹا پیسا لوٹا دیں تو ان کی خلاصی ہوسکتی ہے۔وزیراعظم کی اس آفر کے بعد این آر او کے اشاروں کو مزید تقویت مل چکی ہے۔ جب دو پارٹیاں ایک دوسرے کو کچھ دینے کی پوزیشن میں ہوں تو ڈیل یا مفاہمت کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔اٹل اور دوٹوک فیصلے صرف اسی وقت کیے جاسکتے ہیں جب دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کو رسپانس کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں‘لیکن یہاں تو زیر احتساب اسیران اور ملزمان کے پاس مال مسروقہ کے علاوہ بھی دینے کو بہت کچھ ہے۔خوشی سے نہ سہی مجبوری سے ہی سہی‘جان بچی سو لاکھوں پائے کے مصداق کچھ لے دے کر جب جان چھوٹتی ہوتو جیل ایڈونچر کوئی کب تک جھیل سکتا ہے۔دوسری طرف حکومت کے پاس دینے کیلئے ریلیف پیکیج موجود ہے‘ جو وہ مطلوبہ ریکوری کے عوض دینے کو تیار ہوچکی ہے۔اسے رعایت ‘ڈھیل ‘ ریلیف یا ڈیل کوئی بھی نام دے دیں...تسلسل این آر او کا ہی ہوگا۔
وطن ِعزیز میں ملک و قوم کی دولت لوٹنے والے ہوں یا ریاست کے اداروں کو برباد کرنے والے‘ملکی وسائل کو بھنبھوڑنے والے ہوں یا دہری شہریت حاصل کرکے ارضِ پاک کو ثانوی درجہ دینے والے۔ قومی سلامتی کے تقاضوں کے منافی اور سکیورٹی رسک کا باعث بن کرغیر ملکی خواتین سے خفیہ شادیاں رچانے والوں کو جب اس ملک کے قوانین اور ضابطوں سے کوئی خطرہ نہیں تو پھر سیاستدانوں کو کچھ لے دے کر چھوڑ دینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں‘ایسی صورت میں حکومت ہر دو صورتوں میںبینی فیشری ہی رہتی ہے۔ اسیران سے ریکوری کی صورت میں بالواسطہ اعتراف جرم کا اشارہ ملتا ہے جب کہ قومی خزانے میں لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا کریڈٹ بھی حکومت کو ہی جاتا ہے۔دوسری طرف مخصوص مدت تک اسیر اور حریف کا سیاسی منظر نامے سے ‘پس منظر میںچلے جانا بھی حکومت کیلئے کھلا میدان میسر آنا اور یکسوئی کا باعث بن سکتا ہے۔اس طرح این آر او کے اور بھی فوائد ہیں‘ جن سے ملزمان کے ساتھ ساتھ حکومت بھی بھرپور استفادہ کرسکتی ہے۔
آیئے قارئین! ایک نظر ماضی کے چنداین آر اوز پر ڈالتے ہیں:12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو شریف برادران کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔جلد ہی پرویز مشرف کو ادراک ہوگیا کہ شریف برادران کی ملک میں موجودگی اوربیگم کلثوم نواز کی سیاسی جدوجہد ان کے ایجنڈے اور سکون کیلئے انتشار اور خطرے کا باعث ہے۔بالآخر ایک مخصوص مدت ترکِ سیاست اور چند جائیدادوں کی ریکوری کے عوض شریف فیملی کو سعودی عرب روانہ کرنا پڑا۔ادھر شریف فیملی ملک سے روانہ ہوئی ادھر پرویز مشرف کو یکسوئی نصیب ہوئی اوراسی کے نتیجے میں انہوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ ملک بھر میںبلاشرکت غیرے اپنے اقتدار کا سکہ چلایا۔جان بچی سو لاکھوں پائے کے فارمولہ پر عمل کرتے ہوئے شریف برادران نے جلاوطنی کو بہتر آپشن تصور کیا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اقتدار کی تڑپ اور طلب نے انہیں بے نظیر بھٹوسے میثاق جمہوریت پر آمادہ کیا۔وہ بھی اقتدار سے محرومی اور ہجر کے ایام گن گن کر گزار رہی تھیں۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوںکا ہی ایک ایک دھڑا پرویز مشرف کے ساتھ ملنے کے بعد اقتدار کے مزے لوٹ رہا تھا۔ بے نظیر اورنواز شریف کو یہ کیسے گوارا تھا کہ ان کی بی ٹیم پاکستان میں حکمران ہو اور خود جلاوطنی پر مجبور ہوں۔بوئے سلطانی کے ہاتھوں مجبور ان دونوں رہنماؤں کو احساس ہوا کہ ہماری باہمی لڑائی اور اختلافات تیسری پارٹی کیلئے غنیمت اور باعثِ راحت ہے‘ پھر وطن واپسی کیلئے حیلے بہانے‘ منتیں ترلے اور سمجھوتے ‘ بالآخر میثاقِ جمہوریت کے نام سے ایک سیاسی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف جمہوریت کی بحالی اور ڈکٹیٹر سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ایک ہوگئے۔
جنرل پرویز مشرف سے معاملات طے کر کے 2007ء کے عام انتخابات سے قبل پہلے مرحلے میں بے نظیر بھٹو پاکستان آگئیں اور انتہائی زور و شور سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا۔ قسمت کی ستم ظریفی کہ بے نظیر کی زندگی نے وفا نہ کی اور راولپنڈی میں ایک کامیاب انتخابی جلسے کے بعد واپسی کے سفر سے ہی ''سفر آخرت‘‘ پر روانہ کر دی گئیں۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف چھوٹے بھائی... بڑے بھائی بن گئے...پرتکلف ضیافتوں پر ایک دوسرے کو پکوان پیش کرنے اور پہلے آپ... پہلے آپ اور شیروشکر کا منظر دیکھ کر لگتا تھا کہ اب حکمران اپنے باہمی اختلافات ختم کر کے وطن عزیز کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن یہ خوش فہمی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔
جوں جوں آصف علی زرداری کی گرفت معاملات اور اقتدار پر بڑھتی گئی توں توں ان کے وعدے اور دعوے کمزور پڑتے گئے۔ بتدریج دونوں قائدین بھائی چارے سے نکل کر ایک بار پھر روایتی سیاسی حریف بن گئے اور پھر وہی ''مشقِ ستم‘‘ دہرائی گئی‘ جس کا نشانہ عوام ہر دور میں بنتے چلے آرہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں ہی اپنے متوقع قتل کے حوالے سے جن شخصیات پر خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا تھا ان میں سے ایک کو آصف علی زرداری نے گارڈ آف آنر دے کرایوانِ صدر سے رخصت کیا اور خود آگھسے‘ جبکہ (ق)لیگ کو ''قاتل لیگ‘‘ قرار دینے کے بعد چوہدری پرویز الٰہی کو ڈپٹی پرائم منسٹر بناکر نا صرف مفاہمت کا قلعہ سر کر لیا‘ بلکہ بے نظیر بھٹو کی لازوال قربانی کو بھی گٹھ جوڑ اور ملی بھگت کی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
اب ایک بار پھر ''ملکی مفاد‘‘ میں زرداری اور نوازشریف کو ریلیف پیکیج دیا جارہا ہے۔ خدا خیر کرے‘جلد یا بدیر ان کو کوئی این آر او کوئی ریلیف پیکیج بہر حال مل ہی جانا ہے۔ملک لوٹنے والوں سے وسائل اور ادارے برباد کرنے والو ں تک ‘دہری شہریت سے دہری زوجیت رکھنے والوں تک ہرکوئی قومی مجرم نہیں‘سب سے مفاہمت اور رعایت ہماری روایت رہی ہے ؛ اگر کوئی گرفت میں آ بھی گیا تو تما م قومی مجرمان اور ملزمان کو این آر او یا ریلیف پیکج مل ہی جاتا ہے۔ایک این آر او‘ایک ریلیف پیکیج اس ملک کی ادھ مری معیشت کو بھی ملنا چاہیے۔معیشت کی بحالی کیلئے سرمایہ کاروں کو محض روایتی ایس آر اوزسے چھٹکارا دلاکر قوانین اور ضابطوں میںتبدیلی کرنا ہوگی‘ تب کہیں جاکر آزاد‘ روشن اور فعال معیشت وجود میں آسکے گی۔
اگر حکومت معیشت کی بحالی‘ سرمایہ کاری اور اصلاحات میں واقعی سنجیدہ ہے تو مخلص ‘مثبت اور پریکٹیکل لوگوں پر مبنی ٹیم تشکیل دینا ہوگی‘جو ظاہری اور پوشیدہ سرمایہ کو تجوریوں اورالماریوں سے نکال کر اس ملک میں سرمایہ کاری تک لاسکے۔مطلوبہ نتائج کے حصول کیلئے ایک آزاد اور فعال معیشت کا پیکیج متعارف کروانا ہوگا‘جس کے تحت سرمایہ کاری کرنے والوں کو ایک مخصوص مدت تک کوئی سرکاری ادارہ تنگ نہیں کرے گا۔کسی سرمایہ کار سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ یہ سرمایہ کہاں سے لے کر آیا ہے اور اس کے سرمایہ اور سٹاک پر کسی قسم کا ٹیکس لاگو نہیں ہوگا؛ البتہ ریٹیل پر اسے پورا ٹیکس دینا ہوگا‘اسی طرح انڈسٹری میں ایڈوانس ٹیکس کی وصولی کی بجائے ریٹیل پر ٹیکس وصول کیا جائے تو بجلی اور گیس چوری کا خاتمہ باآسانی ہوسکتا ہے ‘کیونکہ صنعتکار کو معلوم ہے کہ یوٹیلیٹی بلز اس کی پیداوار کے مخبر ہیںاور حکومتی ادارے اس کی گیس اور بجلی کی کھپت سے اس کی پیداوار کا تخمینہ لگا کر ٹیکسیشن کرتے ہیں۔
صورتحال کی وضاحت کچھ اس طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ کسی ریستوران کے آڈٹ اور ٹیکسیشن کیلئے کچن میںدودھ کی گڑویاں‘ مصالحوں اور چینی کے چمچے گننے کی بجائے ریٹیل سیل پرفوکس کیا جائے تو آسان اور بہتر نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔انتظامی فیصلوں کو اقتصادی اصلاحات قرار دینے والے محض کھوبوں میں زور لگارہے ہیں۔آخر میں ایک خبر...کہیں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے کی باتیں ہورہی ہیں‘تو کہیں پنجاب پولیس کی وردی ایک بار پھر سے تبدیل کی جاری ہے...کہیں بیان بدلے جارہے ہیں تو کہیں رجحان بدلے جارہے ہیں۔ ترجیحات بتدریج تبدیل ہورہی ہیں...ناگوار...گوارا ہوتے نظر آرہے ہیں۔آنے والے دنوں میں کافی کچھ بدلنے کو ہے۔وزیرا عظم کو صوبائی وزیر صنعت ا سلم اقبال کی کارکردگی اوروزیراعلیٰ کے ترجمان شہبازکی ''پرواز‘‘ بھا گئی ہے ۔