تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     01-04-2019

سُرخیاں‘ متن اور بلال اسعد

عوام کو کچھ عرصہ مہنگائی برداشت کرنا پڑے گی: مشیر تجارت
وزیراعظم عمران خان کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے کہا ہے کہ ''عوام کو کچھ عرصہ مہنگائی برداشت کرنا پڑے گی‘‘ اور یہ کچھ عرصہ کچھ مہینے نہیں‘ بلکہ کچھ سال بھی ہو سکتا ہے‘ جس کے بعد عوام کو اس کی عادت پڑ جائے گی اور یہ مسئلہ نہایت خوش اسلوبی سے حل ہو جائے گا؛ حتیٰ کہ دیگر مسائل بھی انشاء اللہ اسی طرح حل ہوتے رہیں گے‘ کیونکہ ہمارے پاس مسائل کے حل کا بس یہی ایک طریقہ ہے‘ جسے ہم تیر بہدف سمجھتے ہیں‘ اس لیے عوام کو چاہیے کہ مہنگائی کے ساتھ جتنی جلد ہم آہنگ ہونے کی کوشش کریں گے‘ مثبت نتائج بھی اسی رفتار سے حل ہوتے جائیں گے اور مہنگائی ایک قصہ ٔ پارینہ ہو کر رہ جائے گی اور ہماری تاریخ کا ایک درخشاں باب ثابت ہوگی ‘جبکہ زندہ قومیں اپنی تاریخ خود مرتب کیا کرتی ہیں ۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
زرداری سے کہا: بلاول کو میری شاگردی میں دے دیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''زرداری سے کہا ہے کہ بلاول کو میری شاگردی میں دے دیں‘‘ تاکہ میں اُسے سکھا سکوں کہ مطالبات و مسائل کس طرح حل کروائے جاتے ہیں‘ یعنی حکومت کے خلاف ایک بیان دے کر اُس کے مثبت نتائج کا انتظار کرنا چاہیے‘ بجائے اس کے کہ تابڑ توڑ بیانات دیتے جائیں اور سارا کام ہی خراب کر لیا جائے‘ مثلاً :اب ٹرین مارچ کیا ہے ‘تو دیکھنا چاہیے کہ حکومت اس کا کیا اثر لیتی ہے اور اس کے ساتھ فی الحال ٹرین کے لانگ مارچ کی فی الحال دھمکی ہی کافی ہے‘ جس کے بعد ایک معقول عرصہ تک خاموش رہنا لازمی ہے‘ جبکہ حکومت کی چیخیں نکلوانے کی بجائے اس بات کا یقین حاصل کریں کہ یہ کہیں آپ کی اپنی تو نہیں؟ جس کیلئے ضروری ہے کہ تقریر کرتے وقت چیخنے چلانے سے پرہیز کریں کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان کرپشن کے خاتمہ ‘احتساب کرنے میں سنجیدہ نہیں: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عمران خان کرپشن کے خاتمہ اور احتساب کرنے میں سنجیدہ نہیں‘‘ کہ احتساب کے نام پر ہماری طرح اُن کا بھی ہاسا نکل جاتا ہے ‘ورنہ اگر وہ سنجیدہ ہیں تو جیلوں سے بی کلاس وغیرہ ختم کرائیں تو والد صاحب اور انکل نواز شریف تیر کی طرح سیدھے ہو جائیں ‘جب انہیں عام قیدیوں کے ساتھ بیرکوں میں رہنا پڑے اور جیل کی دال پینی پڑے‘ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو کم از کم والد صاحب جیل کو اپنا دوسرا گھر ہرگز قرار نہ دیتے‘ اس کے علاوہ اگر حکومت تھوڑی سی بھی عقلمندی سے کام لیں‘ تو لوٹا ہوا مال نکلوانے کیلئے پنجاب پولیس کا ایک اے ایس آئی ہی کافی تھا‘ اس لیے اگر یہی صورت حال رہی تو یہ آخری دم تک جیل میں رہنا قبول کر لیں گے‘ ایک دمڑی بھی واپس نہیں کریں گے ؛چنانچہ حکومت کو اگر اب بھی عقل آ جائے تو اس کے لیے کہیں بہتر ہے‘ ورنہ خاطر جمع رکھے‘ ایک پیسہ بھی وصول نہ ہوگا۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
آج سے ملین مارچ‘ قوم کو تنہا نہیں چھوڑیں گے: غفور حیدری
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ ''آج سے ملین مارچ‘ قوم کو تنہا نہیں چھوڑیں گے‘‘ اگرچہ قوم تنہا‘ یعنی ہمارے بغیر کافی آرام سے ہے‘ لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حکومت ہمارے رہنما مولانا فضل الرحمن کی بات ہی نہ سنے اور قوم ایک خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہے‘ اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ قوم کو تنہا‘ بلکہ کہیں کا نہ چھوڑا جائے‘ کیونکہ حکومت؛ اگر کراچی کیلئے 162ارب کا پیکیج دے سکتی ہے تو ایک شخص کی کفالت کیوں نہیں کر سکتی‘ جبکہ وہ اسمبلی سے بھی باہر اور بالکل بے زبان ہو کر رہ گئے ہیں‘ کبھی وہ بیچارے اے پی سی بلانے کی دھمکی دیتے ہیں‘ تو کبھی ملین مارچ کی‘ جو اب واقعی ہونے جا رہا ہے اور اس وقت تک انشاء اللہ جاری رہے گا‘ جب تک کہ حکومت اپنا روّیہ تبدیل نہیں کرتی‘ جبکہ بلاول نے تو دو دو ہزار کا چکمہ دے کر ٹرین مارچ کی سواریاں اکٹھی کی تھیں اور بعد میں انہیں دو دو سو پر ہی ٹرخا دیا گیا‘ ہمارے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
یاد اک آئنہ ہے
یہ بلال اسعد کا پہلا مجموعۂ غزل ہے‘ جسے اردو سخن پاکستان نے چھاپا اور اس کی قیمت 300 روپے رکھی ہے‘ انتساب اپنے والدین کی بے پایاں محبتوں کے نام ہے۔ پس سرورق تحریر انجم سلیمی کی ہے‘ جبکہ ابتدائی تحریر ارشد نعیم کے قلم سے ہے اور دیباچہ شاعر کا بقلم خود ہے۔ انجم سلیمی کے مطابق؛ بہت کم شعراء کی اس فہرست میں بلال اسعد کے نام کا اضافہ قطعاً اضافی نہیں لگ رہا۔ کچھ منتخب شعر دیکھیے:
میں اپنی خاک گراتا رہا سمندر میں
اور ایک دشت بناتا رہا سمندر میں
بجھ گئی ریت بھی وحشت بھی اُٹھا لی گئی ہے
دشت سے دشت کی حیرت بھی اُٹھا لی گئی ہے
کچھ اس لیے بھی قافلہ منزل سے دُور ہے
اس پر ابھی غبارِ سفر کھل نہیں رہا
ایک بستی میں قید ہوں اسعدؔ
ایک جنگل پکارتا ہے مجھے
مجھ میں رہتا تھا کوئی اور بھی میرے جیسا
تیرے آنے سے وہ قربت بھی اُٹھا لی گئی ہے
جیسے کوئی ستارہ ستارے کو توڑ دے
کرتا ہے خواب خواب کو مسمار خواب میں
کسی اگلی نشست میں اس خوبصورت شاعر سے آپ کی مزید ملاقات کرائی جائے گی! انشاء اللہ!
آج کا مقطع
جو حلقہ زن ہوں زمانوں سے اپنے گرد‘ ظفرؔ
یہ میں نہیں ہوں‘ مرا چار سو دھڑکتا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved