تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-04-2019

تعویذ چاہیے، تعویذ!

جو کچھ دکھائی دے رہا ہے‘ اُس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ امریکی قیادت کے اعصاب پر چین انتہائی پریشان کن حد تک سوار ہوچکا ہے۔ کرنا تو اور بھی بہت کچھ ہے‘ مگر اس وقت کرنے کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور چین کو contain کیا جائے‘ آگے بڑھنے سے روکا جائے۔ امریکی پالیسی میکرز اس معاملے میں اپنے اعصاب پر غیر معمولی دباؤ محسوس کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ چین کی پیش قدمی روکنے کا جنون امریکیوں کے سر سے اتارنے کے لیے کہیں سے کوئی تعویذ لانا پڑے گا...! 
چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے نے واشنگٹن میں ارباب بست و کشاد کی نیندیں اڑادی ہیں۔ امریکی و یورپی تجزیہ کاروں اور لکھاریوں نے منہ اور قلم کی توپوں کا رخ چین کی طرف کردیا ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ چین کے حوالے سے بدگمانیوں کا پہاڑ کھڑا کردیا جائے۔ چھوٹے ممالک کو خاصے منظم طریقے سے ڈرایا‘ بہلایا اور پُھسلایا جارہا ہے۔ یہ نکتہ زیادہ زور دے کر بیان کیا جارہا ہے کہ چینی قیادت سرمایہ کاری کی آڑ میں چھوٹے اور پس ماندہ ممالک کو قرضوں کے جال میں پھانس رہی ہے۔ چین نے پاکستان‘ سری لنکا اور متعدد افریقی ممالک میں بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کرنے سے متعلق منصوبے شروع کیے ہیں۔ پاکستان میں گوادر پورٹ کے علاوہ سری لنکا میں چین نے ہمبنٹوٹا پورٹ تعمیر کرکے 99 سال کی لیز پر لی ہے۔ یہ سب کچھ مغربی مبصرین کو شدید ذہنی خلجان میں مبتلا کرنے کے لیے کافی ہے۔ 
امریکا نے چین کے خلاف بیک وقت دو محاذ کھول لیے ہیں۔ ایک طرف تو ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو شکوک و شبہات کی نذر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور دوسری طرف کالعدم تنظیم کے سربراہ مسعود اظہر کو بلیک لسٹ کرنے کے لیے نئی قرارداد کا مسودہ سلامتی کونسل میں جمع کراکے بھارت کو پیغام دیا جارہا ہے کہ وہ چین کے خلاف ڈٹا رہے‘ اُس کا ساتھ دیا جاتا رہے گا۔ 
چینی قیادت نے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے ذریعے ملک کو ایشیائی‘ افریقی اور یورپی ممالک سے جوڑنے ہی کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ تینوں بڑے خطوں کو بھی ایک دوسرے سے جوڑنے پر توجہ دی ہے۔ یہ بات امریکا اور یورپ کے لیے زیادہ باعثِ تشویش ہے ‘کیونکہ ایسا ہوجانے کی صورت میں دونوں کی دکان داری ٹھپ اور چودھراہٹ ٹُھس ہوکر رہ جائے گی۔ 
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایک بار پھر ون بیلٹ ون روڈ کا رونا روتے ہوئے کہا ہے کہ چین ملکوں ملکوں بندر گاہیں تعمیر کرتا پھر رہا ہے‘ تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بحری تجارت کو فروغ دینا چاہتا ہے‘ بلکہ متعلقہ ممالک کے لیے سلامتی کے سنگین مسائل پیدا کرنا مقصود ہے۔ چین کے عمل دخل سے اِن ممالک کی سلامتی لازمی طور پر خطرے میں پڑے گی۔ واشنگٹن کے نیشنل ریویو انسٹی ٹیوٹ کی 2019 ء آئیڈیاز سمِٹ میں میزبان رِچ لاؤری سے گفتگو کرتے ہوئے مائیک پومپیو نے یہ بھی کہا کہ جو کچھ چین کر رہا ہے اُس سے امریکا اور اُس کے دوستوں اور اتحادیوں کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ہم دنیا میں کہیں بھی چین سے مقابلہ کرنے کو تیار ہیں ‘مگر جو کچھ بھی ہو‘ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہو(!) امریکی وزیر خارجہ نے اچھی خاصی بڑی آڈینس کے سامنے اس بات کا رونا بھی رویا کہ چین نے بنیادی ڈھانچا مضبوط کرنے کے حوالے سے جو منصوبے شروع کیے ہیں‘ اُن سے متعلقہ ممالک کو معاشی طور پر قابلِ ذکر فوائد حاصل نہ ہوسکیں گے۔ مزید یہ کہ ایشیا اور بالخصوص جنوب مشرقی ایشیا کی ریاستوں کو اس خطرے کا احساس ہوچلا ہے اور امریکی محکمہ خارجہ بھی اس بات کو یقینی بنائے گا کہ چین کے عزائم سے لاحق خطرات کے حوالے سے کوئی بے خبر نہ رہے! یہ سب کچھ ایک ایسے وقت کہا جارہا ہے کہ جب چین (اگلے ماہ) دوسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے انعقاد کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ اس بار ممالک اور مندوبین کی تعداد زیادہ ہوگی۔ پہلا بیلٹ اینڈ روڈ فورم 2017ء میں منعقد ہوا تھا ‘جس کا بھارت نے سی پیک کے حوالے سے پیش رفت کی بنیاد پر بائیکاٹ کیا تھا۔ نئی دہلی کا شِکوہ یہ ہے کہ سی پیک میں بعض منصوبے آزاد کشمیر سے بھی ہوکر گزرتے ہیں ‘جو متنازع علاقہ ہے۔ 
پاک اقتصادی راہداری (سی پیک) بھی ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا حصہ ہے۔ تین ہزار کلو میٹر پر محیط یہ راہداری پاکستان اور چین کو ریل‘ روڈ‘ پائپ لائنز اور فائبر آپٹک کیبل نیٹ ورک کے ذریعے جوڑے گی۔ چین نے مغرب کا یہ پروپیگنڈا مسترد کردیا ہے کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ چھوٹے اور غریب ممالک کو قرضوں کے جال میں پھانسنے کے لیے ہے۔ چین کا استدلال ہے کہ بہت سے ممالک کو اس منصوبے کی مدد سے معیشت مستحکم کرنے اور ترقی کی راہ ہموار کرنے میں مدد ملے گی۔ 
چین کے حوالے سے امریکا اور یورپ کا پریشانی سے دوچار ہونا حیرت انگیز نہیں۔ سوال دکان داری کے ٹھپ ہوجانے ہی کا تو ہے۔ ترقی یافتہ دنیا سے ہٹ کر بھی چین سے الرجک ہونے والے خطے ہیں۔ اِن میں بھارت اور اُس کے حاشیہ بردار نمایاں ہیں۔ بھارتی قیادت کو خوب اندازہ ہے کہ ون بیلٹ ون روڈ کے بیشتر منصوبوں کی وقت پر اور احسن طریقے سے تکمیل کی صورت میں محض جنوب مشرقی ایشیا نہیں‘ بلکہ جنوبی ایشیا کی معاشی‘ معاشرتی اور تکوینی ہیئت بھی تبدیل ہوجائے گی۔ ایسے میں بھارت کے لیے علاقائی سطح پر لیوریج برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوگا۔ امریکا اور یورپ اُس کی معاونت کے لیے موجود ہیں‘ مگر اُن کی طرف سے دستِ تعاون دراز کرنے کی بہرحال ایک حد ہے۔ انہیں سب سے زیادہ تو اپنے آنگن کی فکر لاحق ہوگی۔ اُس سے فرصت ملے گی تو کسی اور کی طرف دیکھیں گے۔ خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ بہت حد تک بھارت کے خلاف جارہا ہے۔ چین‘ پاکستان‘ ترکی‘ ملائیشیا اور روس کے ایک دوسرے کے نزدیک آنے کی صورت میں ایک ایسا اتحاد ابھر رہا ہے‘ جو عالمی سیاست و سفارت پر بھی غیر معمولی حد تک اثر انداز ہوگا۔ جو کچھ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں ہو رہا ہے‘ اُسے محض علاقائی نوعیت کی تبدیلی سمجھنا فاش غلطی کے مترادف ہوگا ‘کیونکہ اس تبدیلی سے عالمی سطح پر بہت کچھ تبدیل ہوسکتا ہے۔ 
کم و بیش سو سال سے امریکا اور یورپ (کبھی اپنے اپنے طور پر اور کبھی مل کر) عالمی نظام چلاتے آئے ہیں۔ سابق سوویت یونین کی موجودگی میں دونوں کے مقابل تکوینی‘ سفارتی اور معاشی گہرائی موجود تھی۔ یہ گویا ڈیٹرنٹ تھا‘ جو امریکا اور یورپ کو یکسر بے لگام ہونے سے روکتا تھا۔ اس ڈیٹرنٹ کے نہ ہونے سے یورپ تو خیر ضبط ِ نفس کی منزل میں رہا ہے‘ مگر امریکا نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ''بسیار خوری‘‘ کے باعث شدید ''بدہضمی‘‘ کا شکار ہے۔ امریکا عالمی نظام کو تنہا چلانے کی پوزیشن میں نہیں رہا ‘کیونکہ وہ عسکری و معاشی اعتبار سے over-stretched ہے۔ ایسے میں یک قطبی نظام برقرار رکھنے کی خاطر چین یا روس کا راستہ روکنے کی کوشش کو محض حماقت سے تعبیر کیا جائے گا۔ امریکا حقائق کو اچھی طرح جانتے ہوئے بھی تسلیم کرکے عقلِ سلیم کا مظاہرہ کرنے سے گریزاں ہے۔ اب کہیں سے کوئی تعویذ ملے تو شاید کچھ کارگر ہو! چین میں طاقت پیدا ہوچکی ہے اور اگر اُسے اِس طاقت کے اظہار سے روکا جائے گا‘ تو معاملات کے خراب کا عمل تیز تر ہوجائے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved