بعض اوقات بچپن کی کوئی یاد کسی تاریخی حوالے سے مل جاتی ہے اور یوں وہ تاریخی حوالہ ہماری ذاتی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی تعلق میرا قلعہ روات سے ہے۔ روات کا یہ قلعہ راولپنڈی سے شمال کی جانب 16 کلو میٹر پر واقع ہے۔ اب تو روات ایک تاریخی تجارتی مرکز بن چکا ہے۔ دائیں بائیں دکانوں کا ایک جمگھٹا ہے اور قلعہ ان کے پیچھے چھپ کر رہ گیا ہے‘ لیکن میں جس زمانے کا ذکر کر رہا ہوں‘ روات میں اکا دکا دکانیں ہوا کرتی تھیں؛ البتہ دور دور تک پھیلے کھیت تھے جو سردیوں میں سرسوں کے زرد پھولوں سے لد جاتے تھے۔ میری والدہ کا گائوں روات سے 8 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا‘ جب کہ والد صاحب کا گائوں 28کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ یوں روات ہمارے بچپن کی زندگیوں کا ایک اہم حوالہ تھا۔ روات کے نام کی بھی دلچسپ کہانی ہے۔ کہتے ہیں‘ اس کا نام ربات ہوتا تھا۔ عربی میں 'ربات‘ سرائے کو کہتے ہیں ۔ وقت کے ساتھ بدلتے بدلتے اس کا نام روات ہو گیا۔ اس زمانے میں ہمارے گائوں سے صرف ایک بس راولپنڈی شہر آتی تھی۔ صبح کے وقت اور سہ پہر کے وقت۔ یوں گائوں کی سڑک باقی اوقات میں سنسان رہتی۔ گائوں سے راولپنڈی آتے ہوئے بس روات رکتی جہاں مختلف اشیاء بیچنے والے بس کی کھڑکیوں کے پاس آ کر آواز لگاتے‘ لیکن ہمارا پسندیدہ کھانا نان پکوڑے ہوتے۔ ایک نان پر پکوڑے اور ان پر چٹنی۔ بس کی کھڑکیوں کے کُھلے شیشوں سے ہمیں باہر کا منظر صاف نظر آتا تھا۔ ہمارے دائیں طرف ایک سرائے نظر آتی تھی اور بائیں ہاتھ دیو ہیکل قلعہ کی عمارت۔ اب کارواں سرائے تو باقی نہیں رہی؛ البتہ قلعے کی شکستہ عمارت اب بھی موجود ہے۔ قلعہ کی عمارت کے بارے میں ہم بچوں کے ذہنوں میں اکثر یہ سوال ابھرتے‘ یہ کس کا قلعہ تھا؟ کب بنایا گیا ؟ اب یہاں کون رہتا ہے؟ ان سوالات کے جوابات بہت بعد میں پتہ چلے‘ جب میرے والد صاحب مجھے پہلی بار یہ قلعہ دکھانے کے لیے لائے۔ قلعے کی تعمیر کے بارے میں بہت سی روایات ہیں‘ لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ پہلے ایک کارواں سرائے تھی‘ جہاں مختلف کارواں پڑائو ڈالتے تھے۔ اس کے اندر بنے ہوئے کمروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں مسافروں کے رات بسر کرنے کا انتظام تھا۔ کچھ مؤرخین کا خیال ہے کہ یہ کارواں سرائے کی عمارت محمود غزنوی کے دور میں بنی اور کچھ اس کے طرز تعمیر کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ یہ سلاطین دہلی کے دور میں تعمیر کی گئی۔ یہ کارواں سرائے قلعے میں کیسے تبدیل ہو گئی‘ اس کے لئے ہمیں مغلوں کے دور میں جانا ہو گا۔ 1526ء میں بابر نے سلطنتِ مغلیہ کی بنیاد رکھی۔ بابر کا عہد صرف پانچ سال کا تھا۔ ان میں سے چار سالوں میں اس نے چار بڑی جنگیں لڑیں‘ لیکن عنان اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھی۔ اسی زمانے میں ایک افغان سپہ سالار فرید خان‘ جو بعد میں شیر شاہ سوری کے نام سے مشہور ہوا‘ بابر کے زیر نگیں سربراہ تھا۔
بابر کے بعد ہمایوں کا دور آیا تو اسے شروع میں ہی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا‘ اور شیر شاہ سوری نے پہلے 1539ء اور پھر 1540ء میں اسے شکست دی‘ اور ہمایوںکو ہندوستان سے چلے جانے پر مجبور کر دیا۔ اقتدار نہ ہو تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ عمر بھر وفا کا دم بھرنے والے ہوا کا رخ بدلتے ہی نظریں پھیر لیتے ہیں۔ ہمایوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ بہت سے دوستوں نے شیر شاہ سوری کی دربار میں پناہ لی۔
یہاں ہمایوں کو شکست دینے کے بعد شیر شاہ کی نگاہیںگکھڑوں کے علاقے کی جانب نگراں تھیں۔ اسے معلوم تھا سلطان سارنگ اپنی ہٹ کا پکا ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ روہتاس کے مقام پر ایک اونچے ٹیلے پر قلعہ تعمیر کیا جائے۔ اس قلعے کی تعمیرکا ایک مقصد گکھڑوں کے علاقے پر کڑی نظر رکھنا تھا۔ سلطان سارنگ شیر شاہ سوری کی فوج کی نقل و حرکت سے بے خبر نہیں تھا۔ روات کے قلعے میں اس سرزمیں کے دفاع کے لئے تیاریاں جاری تھیں۔ روات کا یہ قلعہ عام قلعوں کی نسبت چھوٹا اور ایک مربع شکل میں تعمیر کیا گیا۔ قلعے کی فصیلوں پر کمان دار دشمن کی فوج کی حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ روات قلعے سے روہتاس قلعے کا درمیانی فاصلہ تقریباً 50 میل کا ہو گا۔ لیکن پوٹھوہار گکھڑ قبیلے کا سردار سلطان سارنگ خان کسی اور مٹی کا بنا ہوا تھا۔ وہ روات اور اس کے ارد گرد پھیلے ہوئے علاقوں میں گکھڑوں کا سردار تھا‘ اور پنجابی قبائل کی تاریخ میں گکھڑوں کا تذکرہ ایک بہادر اور جری قبیلے کے طور پر کیا جاتا ہے۔ سلطان سارنگ خان نے اپنے قبیلے کے لوگوں سے مشورہ کیا تو سب نے بیک زبان ہو کر کہا: ہم مغلوں کے ساتھ تھے اور مغلوں کے ساتھ رہیں گے۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ شیر شاہ سوری کا لشکر مغلوں کے لشکر کو شکست دے چکا تھا‘ اور گکھڑ کی فوج شیر شاہ کے لشکر کے مقابلے میں تعداد میں بہت کم تھی‘ لیکن سلطان سارنگ خان نے مصلحت کوشی کے بجائے شیر شاہ سوری کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
اور پھر ایک دن دور سے اڑتے غبار نے اطلاع دی کہ دشمن کا لشکر آ رہا ہے۔ سلطان سا رنگ کے جانباز سپاہیوں نے بے جگری سے شیر شاہ کے لشکر کا مقابلہ کیا۔ سلطان سا رنگ اپنے بیٹوں کے ہمراہ داد شجاعت دے رہا تھا۔ اس کے سولہ بیٹے ایک ایک کر کے اپنی مٹی پر قربان ہوتے گئے۔ آخر سلطان سارنگ کو شیر شاہ کے لشکر نے زخمی حالت میں گرفتار کر لیا اور اس پر تشدد کی انتہا کر دی گئی۔ زندہ حالت میں اس کی کھال کھینچ کر اس کے جسم سے علیحدہ کر دی گئی۔ یوں سارنگ خان کو مغلوں سے عہدِ وفا کی پاس داری کی سزا دی گئی۔ اب بھی اگر آپ کا روات سے گزر ہو اور آپ قلعہ روات جائیں تو وہاں پر خستہ عمارتوں کے ساتھ کچھ قبریں بھی دیکھنے کو ملیں گی۔ انہیں قبروں میں ایک قبر سلطان سا رنگ کی ہے‘ جو اپنے سولہ بیٹوں کے ساتھ اس قلعے کی سر زمین میں ابدی نیند سو رہا ہے۔
آج میں ایک طویل عرصے کے بعد اس قلعے میں آیا ہوں۔ شام کا وقت ہے۔ قلعے کی شکستہ دیواروں سے دھوپ اتر رہی ہے۔ کوئی خاموشی سی خاموشی ہے۔ میں قلعے کے صدر دروازے کی دہلیز پر بیٹھ جاتا ہوں۔ مجھے وہ دن یاد آ رہا ہے جب میں اپنے والد کی انگلی پکڑ کر اس قلعے میں داخل ہوا تھا۔ اس وقت قلعے کی عمارت کتنی بڑی بڑی لگ رہی تھی۔ ایک خاص طرح کی ہیبت تھی جو فضائوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ قلعے کے صحن کے وسط میں بڑی بڑی قبروں کو دیکھ کر میں سہم گیا تھا۔ تب اور آج میں جیسے صدیوں کا فاصلہ حائل ہو گیا ہو۔ میر ے والد کا شفیق چہرہ میری نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے‘ جنہیں ہم سے بچھڑے ایک زمانہ ہو گیا ہے‘ جنہوں نے مجھے پہلی بار اس قلعے سے آشنا کرایا تھا۔ قلعے کی دہلیز سے کچھ فاصلے پر جرنیلی سڑک پر بسوں کا وہ اڈہ ہے‘ جہاں بچپن میں ہماری بس رکتی تھی‘ اور جہاں گاڑی کی کھڑکی سے ہم دائیں جانب روات قلعے کی دیو ہیکل عمارت کو دیکھا کرتے تھے۔ قلعے کی عمارت کو دیکھ کر کیسے کیسے سوال ہمارے ننھے ذہنوں میں بیدار ہوتے تھے۔ یہ کس کا قلعہ تھا؟ کب بنایا گیا؟ اب یہاں کون رہتا ہے؟ قلعے کے صدر دروازے کی ٹوٹی ہوئی دہلیز پر بیٹھ کر میں سوچتا ہوں‘ کیسے بعض اوقات بچپن کی کوئی یاد کسی تاریخی حوالے سے مل جاتی ہے اور یوں وہ تاریخی حوالہ ہماری ذاتی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔
روات کے نام کی بھی دلچسپ کہانی ہے۔ کہتے ہیں‘ اس کا نام ربات ہوتا تھا۔ عربی میں 'ربات‘ سرائے کو کہتے ہیں ۔ وقت کے ساتھ بدلتے بدلتے اس کا نام روات ہو گیا۔ اس زمانے میں ہمارے گائوں سے صرف ایک بس راولپنڈی شہر آتی تھی۔ صبح کے وقت اور سہ پہر کے وقت۔ یوں گائوں کی سڑک باقی اوقات میں سنسان رہتی۔