امریکہ سے پاکستانی لڑکی صحافیوں سے انٹرویو کرنے کے سلسلے میں مجھ سے بھی ملنے آئی۔ پوچھا‘ آپ صحافت میں کیا وراثت چھوڑنا چاہتے ہیں۔ میرا جواب تھا: میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ جب دنیا میں نہ رہوں تو بچے میرا نام سن کر شرمندہ نہ ہوں۔ وہ میرا جواب سن کر ششدر رہ گئی۔ بہت پہلے اندازہ ہو گیا تھا کہ صحافت میں رہتے ہوئے اپنے اوپر بہت سی چیزیں حرام کرنا پڑتی ہیں۔ لیکن اب اکیس صحافیوں کے ساتھ وزیراعظم کے دورۂ برطانیہ پر اٹھنے والے بارہ لاکھ روپے کے اخراجات کو سیکرٹ فنڈ کا حصہ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ کچھ بھی کر لو‘ یہ کام اتنا آسان نہیں۔ میرے دوست ابصار عالم اور حامد میر بھی جنہوں نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر رکھی ہے‘ وزیراعظم کے ساتھ بیرون ملک جاتے رہے ہیں اور یقینا ان کے اخراجات بھی اسی سیکرٹ فنڈ سے ادا ہوئے ہوں گے۔ فی صحافی خرچہ ستاون ہزار روپے بنتا ہے جس میں ٹکٹ‘ دو تین دن کا قیام اور خوردونوش شامل ہے۔ میں نے اسی سال اپنی محنت کی کمائی پر گیارہ لاکھ روپے انکم ٹیکس دیا لیکن الزام ہے ستاون ہزار روپے کا!! ایک سال لندن میں تعلیم حاصل کی اور 2007ء کے بعد ہر سال بچوں کے ساتھ اپنے خرچ پر ایک مہینہ وہاں قیام کرتا ہوں۔ خدا جانے وزیراعظم کا سرکاری دورہ جس کا بجٹ باقاعدہ منظور ہوتا ہے وہ کیسے سیکرٹ فنڈ ہو گیا۔ میں نے اس دورے میں بھی لندن میں مقیم اپنے دوستوں کے گھر راتیں گزاریں تاکہ وہ گلہ نہ کریں کہ معمول کے مطابق ہمارے ہاں نہیں ٹھہرا۔ 2007ء میں لندن کالج نے دو سال کے ورک پرمٹ کی پیشکش کی۔ چار ہزار پائونڈ تنخواہ کے عوض تین سال رپورٹنگ کرنے کے لیے کہا۔ بیوی چلائیں کہ رُک جائو‘ بچوں کا مستقل بن جائے گا۔ میں نے کہا اللہ پر بھروسہ کرو جہاں اٹھارہ کروڑ انسانوں کا مستقبل ہے وہیں ہمارے بچوں کا ہوگا۔ پاکستان لوٹ کر ڈیڑھ لاکھ روپے ماہوار پر ملازمت شروع کی۔ مفاد اٹھانے کا پہلا بڑا امتحان اس وقت پیش آیا جب 2008ء میں ایک ملک کے دورے کے دوران ایک قیمتی گھڑی تحفے میں ملی۔ یہ گھڑی لے کر سیکرٹری کابینہ رئوف چودھری (آج کل ممبر پبلک سروس کمشن پنجاب) کے پاس گیا۔ وہ بولے قانون کے تحت کچھ ادائیگی کر کے آپ اسے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ مارکیٹ سے قیمت ایک لاکھ بیس ہزار روپے لگی۔ کہا گیا پندرہ ہزار روپے ادا کر کے آپ یہ گھڑی رکھ سکتے ہیں۔ میں نے انکار کیا تو رئوف چودھری حیران ہوئے‘ کہا ملک کا قانون اجازت دیتا ہے۔ میں نے کہا‘ کچھ دن پہلے ہی میں نے جنرل پرویز مشرف اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کو ملنے والے تحائف کی خبر دی تھی کہ وہ تحائف توشہ خانے میں جمع کرانے کے بجائے اپنے ساتھ لے گئے۔ ایک وفاقی وزیر نے بھی اسی طرح کی گھڑی رکھ لی تھی اور میں نے اس پر خبر دی تھی۔ اب دل نہیں مانتا کہ میں بھی پندرہ ہزار ادا کر کے ایک لاکھ سے زائد مالیت کی چیز حاصل کر لوں۔ جب انگریزی اخبار میں کام کرتا تھا‘ وزرات اطلاعات نے اخبار کے مالک سے میری شکایت کی کہ یہ دعوت قبول نہیں کرتا۔ میں نے جواب دیا یہ خبریں رُکواتے ہیں۔ مالک کا جواب خوبصورت تھا کہ سب سے ملیں لیکن خبر وہ دیں جو آپ درست سمجھتے ہیں۔ اب سیکرٹ فنڈ کی فہرست دیکھی تو پتہ چلا کہ اگر کسی صحافی کو وزیراعظم اور وزیراطلاعات نے کھانے پر بلالیا تو اُس کی ادائیگی بھی سیکرٹ فنڈ سے کی گئی۔ کیا آئندہ کسی سے نہ ملا جائے؟ صحافی کو آسمان سے اتری ہوئی مخلوق سمجھ لیا گیا ہے۔ اُسے وہ سہولت بھی نہیں مل سکتی جو دوسرے شہریوں کو ملتی ہے۔ برطانیہ ہر سال تین سے چار پاکستانی صحافیوں کو لندن میں ماسٹرز کرنے کے لیے سکالرشپ دیتا ہے۔ اسلام آباد کے متعدد صحافی اس سکالرشپ پر ماسٹر کر چکے ہیں۔ پاکستانی وزراتِ اطلاعات تین صحافیوں کو پڑھنے کے لیے باہر بھیجے تو ایسے ایسے الزامات لگیں گے کہ خدا کی پناہ۔ ہائر ایجوکیشن کمشن کے سکالر شپ پر کوئی بھی طالب علم باہر جا سکتا ہے لیکن ایک صحافی الزامات کے بغیر اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ 2004ء میں آٹھ سو پاکستانی صحافیوں نے اسلام آباد کے نئے سیکٹر میں پلاٹ خریدنے کے لیے حکومت پاکستان کو درخواست دی۔ سخت جانچ پڑتال کے بعد 172 صحافیوں کو پلاٹ دینے کی منظور ملی۔ میرے سمیت پندرہ صحافیوں کے نام وزیراعظم شوکت عزیز نے کاٹ دیے کہ یہ حکومت کے خلاف لکھتے ہیں ۔ نواز لیگ کے سینیٹر ظفرعلی شاہ کو وکیل کیا اور ہائی کورٹ میں دو سال کیس لڑا اور جیتا ۔ پچیس لاکھ روپے پلاٹ کی قیمت ادا کی۔ پندرہ لاکھ روپے مزید ترقیاتی اخراجات کی مد میں ادا کرنے ہیں۔ شاید یہ سیکٹر مزید دس سال تک ڈویلپ نہیں ہوگا لیکن آج تک پلاٹ لینے کے طعنے ملتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں مفت میں لیا ہوگا۔ دس ہزار پلاٹوں میں سے ہزاروں عام شہریوں اور سرکاری ملازمین نے لیے۔ ہم صحافیوں نے چالیس چالیس لاکھ روپے ادا کیے‘ پھر بھی الزامات عائد ہوتے ہیں۔ میرے تین بھانجوں نے ماسٹرز کیا ہوا ہے۔ (ایک پی ایچ ڈی بھی ہے)۔ بہنیں ناراض ہیں کہ تمہیں گود میں اٹھا کر بڑا کیا اور تم ہمارے بچوں کو نوکری تک نہیں دلوا سکے۔ ان کے نزدیک یہ بہت آسان کام ہے۔ میں ٹی وی شو میں اپنے ساتھ بیٹھے وزیر کو کہہ دوں تو نوکری مل جائے گی۔ ایک بھانجے نے پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل میں درخواست دی اور ریفرنس میں میرا نام لکھ دیا۔ چیئرمین ڈاکٹر ظفر الطاف میرے ذاتی دوست ہیں ۔ میں نے اُس سے کہا جائو درخواست واپس لے لو کیونکہ ڈاکٹر صاحب میرا نام پڑھ کر انکار نہیں کریں گے۔ میں نہیں چاہتا کہ اُن سے اپنی دوستی کی قیمت وصول کروں۔ میرا بڑا بھائی کافی عرصہ بے روزگار رہا‘ اُس کے لیے بھی کسی سے نہ کہا۔ کبھی بات نہ کرتا‘ لیکن مجبوراً کرنی پڑ رہی ہے۔ میرے بھائی ڈاکٹر نعیم کلاسرا نے والدین کی موت کے بعد ہمیں پالا پوسا۔ وہ آخری بار میرے پاس اسلام آباد آئے تو کہنے لگے بہاولپور میڈیکل کالونی میں ایک گھر خالی ہوا ہے، پنجاب حکومت میں کچھ تمہارے دوست ہیں، کسی سے کہہ کر وہ الاٹ کرا دو۔ ان کا اشارا سینیٹر پرویز رشید کی طرف تھا۔ مجھے چپ دیکھ کر کہا چلوچھوڑو یار‘ میں سمجھتا ہوں۔ بولے‘ چلو گائوں کی بھکاری عورت کے بیٹے نے بی اے کیا ہے، اسے نوکری لے دو۔ یہ ہمارا فرض بھی بنتا ہے۔ وہ بوڑھی عورت ہمارے لیے ایک رول ماڈل ہے۔ اُسے مرنے نہیںدینا چاہیے۔اسی رات ان کی زندگی کی آخری خواہش بھی پوری نہ کرپایا تو اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ پیارے بھائی کو ایمبولینس میں ڈال کر گائوں دفن کر آیا ۔ 2011ء میں ایک انگریزی اخبار کو چھوڑا تو تین ماہ بیروزگار رہا۔ راتوں کو نیند نہ آتی کہ گھر کیسے چلائوں گا ۔ اس وقت کے سیکرٹری اطلاعات تیمور عظمت جن سے ذاتی جان پہچان بھی نہ تھی کا شکرگزار ہوں کہ وہ واحد شخص تھے جن کا فون آیا کہ پی ٹی وی میں نوکری حاضر ہے۔ میں نے شکریہ ادا کیا کہ ساری عمر اعتراض ہوگا کہ سرکاری نوکری کر لی تھی ۔ کیا غریب اور مرحوم صحافیوں کی بیوائوں اور بچوں کو پانچ ہزار روپے دینا، وزیراعظم اور وزیر سے ملاقات کے لیے دوسرے شہروں سے کسی کو بلوانا اور ان کی رہائش کا انتظام کرنا، کھانا کھلانا، چائے پلانا اور وزیراعظم کے بیرون ملک سرکاری دورں کے اخراجات کو سیکرٹ فنڈ کا حصہ قرار دے کر ان سب کے نام عدالتوں میں پیش کرنا اور ویب سائٹ پر ڈالنا درست اقدام ہے؟ کیا حکومت اور بیوروکریسی صحافیوں کو ذلیل کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں ڈھونڈ سکتی؟ سوچتا ہوں‘ میں خود غرض ہوں کہ محض اس رومانس میں زندہ ہوں کہ میرے بچے کبھی میرے نام پر شرمندہ نہ ہوں گے۔ اس کے لیے میں اپنے پیاروں کو ناراض کررہا ہوں لیکن پھر بھی…! گوتم بدھ یاد آتا ہے۔ وہ شہزادوں کو کشکول دے کر بھیک مانگنے کے لیے بھیجتا تھا تاکہ ان کی انا اور خواہشات کچلی جائیں ! گوتم جیسا فقیر ہی سمجھ سکتا تھا کہ انسان کی سب سے بڑی دشمن اس کی خواہشات ہیں! اس فانی زندگی میں اچھا بننے کے رومانس میں زندہ رہنا مجھے بھی اس طرح کی کوئی ادھوری انسانی خواہش لگتی ہے جواس جنم میںتو پوری نہیں ہو سکی۔ کوئی نیا جنم ملا توپھر کوشش کر کے دیکھیں گے یا برگد کے صدیوں پرانے درخت کے نیچے آنکھیں موندے، نروان کی تلاش میں سرگرداں بوڑھے گوتم سے اپنی انا اور اچھا بننے کی خواہش کچلنے کے لیے کشکول مانگ کر بستی بستی نگر نگر بھیک مانگیں گے !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved