ہمارے روایتی سیاسی کلچر کے بر عکس پہلی بار ملک میں ایسی حقیقی اور سنجیدہ پولرائزیشن ابھر رہی ہے جو طاقت کے موجودہ توازن کو بدل سکتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قومی سیاست غیر مربوط واقعات کی مدد سے طاقت کے محور سے نکل کے تقسیمِ اختیارات کے کسی نئے بندوبست کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اگر ہمارے ارباب بست و کشاد نے تھوڑی سی دیانت اور ذرا سی کسر نفسی سے کام لیا تو ہم وہ مطلوب ادارہ جاتی توازن پا لیں گے جو سیاسی انتشار میں الجھی مملکت کو سلامتی کے راستہ پہ لے جائے گا؛ تاہم یہ بات تو تقریباً واضح ہے کہ حکومتی زعما اس ذہنی لچک سے عاری ہیں جو متضاد سیاسی قوتوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر کے ملک کو معاشی، سیاسی اور انتظامی استحکام کی طرف لے جا سکتی تھی۔ حکومتی انتظامیہ متواتر جارحانہ طرز عمل کی ذریعے بڑی اپوزیشن جماعتوں سمیت مذہبی و علاقائی گروہوں سے فاصلے بڑھا کے خود ہی سیاسی عدم استحکام کو مہمیز دینے میں مصروف ہے۔ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے نتیجہ میں بنیادی پیداواری یونٹس، بجلی، پٹرول، گیس اور پانی کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ کے بعد مہنگائی کی ہولناک لہروں نے غریب اور متوسط طبقے کی کمر توڑ ڈالی ہے۔ احتسابی عمل کی غیر ضروری فعالیت نے سول بیوروکریسی کو خوفزدہ کر کے ملک کی انتظامی مشینری کو کم و بیش مفلوج بنا دیا ہے۔ نظامِ عدل میں اصلاحات کا علم اٹھا کے وکلا تنظیمیں بھی میدان میں اترنے والی ہیں‘ اور ملک کے اعصابی نظام کی حیثیت رکھنے والا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا مالی مشکلات اور اظہار رائے کی محدود ہوتی آزادیوں کی وجہ سے دبائو کا شکار ہے۔ پہلی بار مذہبی جماعتیں ملک کے مرکزی سیاسی دھارے سے جدا ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ 73ء کے آئین میں چند بنیادی تبدیلیوں کے خدشے کو جواز بنا کے سیاسی جماعتوں اور علاقائی گروپوں نے فیصلہ کن لڑائی کے لئے صف بندی شروع کر دی ہے۔ ان کی جدوجہد کا مقصد بظاہر آئینی حقوق کا حصول ہو گا‘ لیکن اس کشمکش کا پہلا شکار حکومت، دوسرا مملکت بنے گی۔ اگرچہ ہمیں سیاسی خرابیوں اور جمہوری بد نظمیوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہی جدلیات دراصل ایک قسم کے سیاسی توازن اور وسیع تر اتفاق رائے پہ منتج ہو سکتی ہے۔ ہیگل نے کہا تھا ''کشمکشِ ضدین ہی سے ایک پیچیدہ تر کلیت پیدا ہوتی ہے‘‘۔ لیکن حالات کے اس بہتے دھارے کو ریگولیٹ کرنے کے لئے جس قسم کی پختہ کار حکومت اور دانا و بینا لیڈر شپ کی ضرورت تھی‘ وہ نظر نہیں آتی۔ اس امر میں اب کوئی شک باقی نہیں رہا کہ ریاست کی قوت قاہرہ کے ذریعے اس قوم کو متحد رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔ مملکت کی مختلف اکائیوں کو ہم آہنگ رکھنے کی خاطر تمام سٹیک ہولڈرز کو اجتماعی بقا کے مرکزی نقطہ پہ متفق ہونا پڑے گا۔ اگر طاقت کے بے دریغ استعمال کے ذریعے کاروبار مملکت چلانے کی کوشش جاری رہی تو بالآخر معاشرہ ٹوٹ جائے گا۔ اگرچہ بظاہر ہماری اجتماعی حیات پہ طاقت کے مراکز کا غلبہ نا قابل تسخیر دکھائی دیتا ہے‘ لیکن یہی غیر محدود تسلط ہی دراصل غالب قوتوں کی کمزوری کی غماضی کر رہا ہے۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ ریاستی طاقت کا تصرف جب ایک خاص حد سے آگے بڑھ جائے تو وہ بتدریج اپنی اثر پذیری کھونے لگتا ہے۔ سپائی نوزا نے درست کہا تھا ''مملکت کو شہری کے ذہن پہ جتنا کم اختیار ہو گا، دونوں کے حق میں مفید ہو گا، مملکت کا اقتدار اجسام و افعال سے بڑھ کر انسانوں کے افکار و ارواح تک جا پہنچے تو نشوونما ختم اور معاشرہ برباد ہو جاتا ہے‘‘۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ پولیس سمیت ریاست کے تمام ادارے سماجی زندگی کے ہر زاویے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس سے معاشرے کے مختلف طبقات کا رد عمل جارحانہ ہوتا جا رہا ہے، جس کی جھلک ہمیں بیوروکریسی کی امور ریاست سے غیرا علانیہ لا تعلقی کی صورت میں نظر آتی ہے۔ ابھی چند دن قبل پشاور میں ایک قومی ادارے کے سربراہ کو جس نوع کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا‘ اس نے احتسابی عمل کے مضمرات کو زیادہ نمایاں کر دیا ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ پچھلی دو دہائیوں سے بغیر کسی قسم کے قواعد و ضوابط کے کام کیا جا رہا ہے، اور خاصے اختیارات کے حامل ادارے کے موجودہ قوانین عدل و انصاف کے فطری اصولوں کے منافی اور ملکی آئین میں درج قانونی طریقہ کار سے متصادم ہیں۔ ان سوالات کا کوئی واضح جواب نہ دیا جا سکا۔
معروف آئینی نظام کے ذریعے سویلین بالا دستی کی سوچ نے نواز لیگ کی لیڈرشپ کے ذہن میں جگہ بنائی تھی۔ وہی تصور اب دیگر سیاسی جماعتوں اور پریشر گروپوں کے قلب و ذہن کو بھی گرمانے لگا ہے۔ یہ امر نہایت اہم ہے کہ بے رحم قانونی عمل کے ذریعے اقتدار سے جبری بے دخلی اور فوج داری مقدمات کی لا متناہی زنجیروں میں جکڑے جانے کے باوجود خوف و ترغیب کا کوئی حربہ نواز شریف کی سوچ میں دراڑ نہیں ڈال سکا، بلکہ دبائو ڈالنے کی تمام تدبیریں ان کی سوچ اور بیانیہ کو زیادہ پُر شکوہ بنانے کا وسیلہ بن گئیں۔ نواز شریف ہی کے مزاحمتی کردار سے متاتر ہو کے بلاول بھٹو زرداری بھی مزاحمت کی اسی راہ کا انتخاب کرنے پہ مجبور ہوئے جس میں اگرچہ مصائب زیادہ ہیں‘ لیکن ملکی اور عالمی رائے عامہ اسی طرز سیاست کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ بلوچستان میں شورش کے بعد آئینی دائروں میں سماجی و سیاسی آزادیوں کے حصول کی خواہش پشتون علاقوں میں بھی اضطراب بڑھا رہی ہے، جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ پچھلے چالیس سالوں میں ملک کے اقتدار اعلیٰ پہ لا محدود تصرف پانے والے جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے طویل مارشل لائی ادوار میں ہمارے سماج کا مجموعی سیاسی شعور بڑھتا رہا‘ اور ان عام لوگوں کے اذہان میں بھی بتدریج آئین و قانون کی بالا دستی کا تصور راسخ ہوتا گیا، جو سیاست کو مکر و فریب کا کھیل، سیاست دانوں کو خائن، موقعہ پرست، فریبی اور دھوکہ باز سمجھتے تھے۔ آمریت کے بڑھتے ہوئے بحرانوں نے ہمارے قدامت پسند معاشرے کے ہر طبقے کو یہ احساس دلایا کہ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود یہی کمزور سیاست دان اور پراگندہ سیاسی جماعتیں ہی عوام کے حق حکمرانی کا ٹول اور معاشرے کی اجتماعی سیاسی قوت کا مظہر ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں اور آئینی ادارے نہیں رہیں گے تو شہری اپنے بنیادی حقوق اور سیاسی آزادیوں کو برتنے کے آلات کھو بیٹھیں گے، اس لئے لوگ مثالیت پسندی کی رومانس سے نکل کے عملیت پسندی کی سوچ کی طرف بڑھنے لگے۔ ارسطو نے کہا تھا ''سیاست انسان تخلیق نہیں کرتی بلکہ جیسے ہیں انہی سے کام لیتی ہے‘‘۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی سیاسی جدوجہد کو کرپشن کی کمائی بچانے اور حصول اقتدار کی طلب کے طعنوں کے ذریعے کنفیوژ کیا جا سکتا ہے، سندھ میں ایم کیو ایم، پختون خوا میں پی ٹی ایم اور بلوچستان کی علاقائی جماعتوں کی مزاحمت کو بھی ہم مرکز گریز طاقتوں کی شوریدگی سے تعبیر کر سکتے ہیں‘ لیکن ملک بھر کے وکلا کے نمائندہ ادارے پاکستان بار کونسل کی طرف سے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ججز کے خلاف شکایات سننے والے عالی مقام ادارے سپریم جوڈیشل کونسل کے ضوابط کو موثر بنانے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جسٹس شوکت صدیقی کی سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے برطرفی کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے اور آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت ہائی اور سپریم کورٹ کو حاصل از خود نوٹس کے اختیار کی نئی تشریح کا مطالبہ عدالتی فعالیت کو کند بنا کے اسے نظریہ ضرورت کی ڈاکٹرائن سے جدا کر سکتا ہے، جس سے طاقت کا توازن بدل جائے گا۔