تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     02-04-2019

سفرِ معراج اور جنت میں داخلہ

رسولِ رحمتؐ کو اللہ تعالیٰ نے معراج کا اعزاز بخشا۔ آپؐ نے سفرِ معراج کے پورے حالات حدیث میں بیان فرمائے ہیں۔ اس سلسلے میں ساتوں آسمانوں اور وہاں پیش آمدہ حالات بیان کرنے کے بعد آپؐ نے فرمایا: جبریلؑ مجھے لے کر جنت میں داخل ہوگئے‘ میں نے ایک نوجوان لڑکی دیکھی‘ جو بہت ہی خوب صورت تھی۔ میں نے اس سے پوچھا: تو کس کیلئے ہے؟ اس نے کہا: زید بن حارثہؓ کے لیے۔ فَبَشَّرَبِہَا رَسُولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَیْدَبْنَ حَارِثَۃَ۔ معراج سے واپسی پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہؓ کو اس کی خوش خبری دی۔ 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کے مناظر اپنے صحابہؓ کے سامنے پیش کیے۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ میں جنت میں داخل ہوگیا ہوں تو وہاں اپنی صحابیہ رمیصاء زوجۂ ابوطلحہ کو دیکھا۔ حضرت رمیصاؓ انصاری صحابیہ تھیں‘ ان کی کنیت اُم سلیم ہے اور وہ اسی نام سے زیادہ ترپہچانی جاتی ہیں (ان کو نسیبہ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا) یہ حضرت انس بن مالکؓ کی والدہ ہیں۔ ان کے پہلے خاوند مالک بن نضر حالت کفر میں فوت ہوگئے۔ بعد میں یہ مشہور صحابی حضرت ابوطلحہ انصاریؓ کے نکاح میں آئیں۔ ان دونوں میاں بیوی اور ان کی اولاد کے بہت زیادہ کارنامے ہیں۔ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ صحابیہ انصاریہ ہیں‘ جبکہ معراج ہجرت سے قبل واقع ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہجرت سے قبل مدینہ کے جومردوخواتین آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے‘ ان میں حضرت اُم سلیم شامل ہیں‘ نیز آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے واقعات مدینہ منورہ میں بھی کئی مرتبہ بیان کیے۔ یہ ممکن ہے کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابیہ کو معراج کے موقع پر جنت میں دیکھا ہو اور بعد میں جب انہیں مدینہ میں دیکھا تو پہچان لیا کہ انہی کو آپ نے جنت میں پایا تھا۔ 
الغرض نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کے جو حالات بیان فرمائے ہیں‘ نہایت دل نشین اور انتہائی پرکشش ہیں۔ آخر کیوں نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ خود ارشاد فرماتا ہے:
وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْد۰ ہٰذَا مَا تُوْعَدُوْنََ لِکُلِّ أَوَّابٍ حَفِیْظٍ۰ مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَآئَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبٍ۰ ادْخُلُوْہَا بِسَلَامٍ ذٰلِکَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ۰ لَھُمْ مَّا یَشَآؤُوْنََ فِیْہَا وَلَدَیْنَا مَزِیْدٌ ۰ (قٓ۵۰:۳۱-۳۵)
اور جنت متقین کے قریب لے آئی جائے گی‘ کچھ بھی دور نہ ہوگی۔ ارشاد ہوگا: یہ ہے وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا‘ ہر اس شخص کے لیے جو بہت رجوع کرنے والا اور بڑی نگہداشت کرنے والا تھا‘ جو بے دیکھے رحمن سے ڈرتا تھا‘ اور جو دل گرویدہ لیے ہوئے آیا ہے۔ داخل ہوجاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ۔ وہ دن حیات ابدی کا دن ہوگا۔ وہاں ان کے لیے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے اور ہمارے پاس اس سے زیادہ بھی بہت کچھ ان کے لیے ہے۔ 
واقعہ معراج کے تذکرے میں جن صحابہ کرامؓ کے نام آئے ہیں‘ ان کی قسمت کے کیا کہنے! آپؐ نے مزید فرمایا: پھر جنت میں مجھے پاؤں کی آہٹ سنائی دی۔ میں نے کہا: یہ کون ہے؟ جبریلؑ نے کہا: یہ بلالؓ ہے۔ پھر میں نے ایک خوب صورت محل دیکھا جس کے صحن میں ایک خوب صورت لڑکی وضو کررہی تھی۔ میں نے پوچھا: یہ محل کس کا ہے؟ جبریلؑ نے جواب دیا کہ یہ عمربن خطابؓ کا محل ہے۔ میں نے ارادہ کیا کہ اس خوب صورت محل کو اندر جا کر دیکھوں‘ لیکن اے عمرؓ! مجھے خیال ہوا کہ تم غیرت کرنے والے آدمی ہو۔ اس لیے میں نے اپنا ارادہ ترک کردیا۔ سیدنا عمرؓ نے جب زبانِ رسالت مآبؐ سے یہ سنا تو بے ساختہ رو پڑے اور عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان! بھلا میں آپ کے بارے میں بھی کسی غیرت کا اظہار کرسکتا ہوں؟ (صحیح بخاری‘ حدیث ۳۶۷۹‘ صحیح مسلم‘ حدیث۲۳۹۴)
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کی روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریلؑ جب بھی مجھے ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف لے کے جاتے تو ہر آسمان پر اجازت مانگتے اور جب فرشتے پوچھتے کہ آپ کے ساتھ کون ہے؟ تو ہر مرتبہ جواب دیتے: محمدصلی اللہ علیہ وسلم! اس پر فرشتے پوچھتے کہ کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ تو وہ جواب دیتے: ہاں۔ اس پر فرشتے کہتے: ''اللہ تعالیٰ اس عظیم دوست اور بھائی کو زندہ رکھے۔‘‘ یہاں تک کہ ہم ساتویں آسمان پر پہنچ گئے‘ پھر آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپؐ اپنے رب کے پاس حاضر ہوئے۔ اس موقع پر اللہ رب العزت نے آپؐ پر ہر دن میں پچاس نمازیں فرض کیں۔ معراج کے عظیم الشان سفر کا عظیم المرتبت ہدیہ نماز ہے۔ نماز ہی کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی معراج قرار دیا ہے۔ جیسا کہ امام سیوطی نے شرح ابن ماجہ میں لکھا ہے۔ اس معراج سے محروم رہنے والوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ وہ کس قدر بدقسمت اور کورذوق ہیں! اللہ تعالیٰ ہر کلمہ گو کو نماز کی اہمیت اور اس کی ادائی کی سعادت نصیب فرمائے۔ نماز مومن کی معراج بھی ہے اور نبی رحمتؐ کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا قرار بھی! یہ اللہ سے ملاقات بھی ہے اور مناجات بھی!
آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب میں اللہ سے ملاقات کے بعد واپس پلٹا تو موسیٰ بن عمرانؓ کے پاس سے گزرا اور اے میرے امتیو! وہ آپ کے بہت ہی اچھے دوست ہیں۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ پر کتنی نمازیں فرض ہوئی ہیں؟ میں نے کہا: ہر روز پچاس نمازیں۔ انہوں نے فرمایا: آپ کی امت کے لیے پچاس نمازیں بہت بھاری ہوں گی اور آپ کی امت اس کی سکت نہیں لا سکے گی۔ پس اپنے رب کی طرف واپس جائیے اور درخواست کیجیے کہ آپؐ اور آپؐ کی امت پر نمازوں میں تخفیف کی جائے۔ پس ‘میں اپنے رب کے پاس واپس گیا اور حضورِ حق میں اپنی درخواست پیش کی۔ رب کریم نے میری درخواست پر دس نمازوں کی کمی کردی‘ پھر میں موسیٰؑ کے پاس سے گزرا تو انہوں نے وہی سوال کیا‘ میں نے جواب دیا کہ دس نمازوں کی چھوٹ مل گئی ہے۔ موسیٰؑ نے پھر کہا: یہ (چالیس نمازیں بھی) بہت مشقت طلب ہیں‘ آپ پھر جائیے۔ میں واپس گیا تو دس نمازیں اور معاف ہوگئیں۔ ہر مرتبہ جب واپسی پر موسیٰؑ سے ملاقات ہوتی تو وہ مشورہ دیتے کہ مزید کمی کیلئے رب العزت سے درخواست کروں۔ یہاں تک کہ میری درخواستوں کے نتیجے میں دن رات میں صرف پانچ نمازیں فرض قرار پائیں۔ 
اب بھی میں موسیٰؑ کے پاس آیا تو انہوں نے کہا: پھر اپنے رب کے پاس جائیے‘ مگر میں نے کہا: مجھے شرم آتی ہے کہ بار بار تخفیف کا سوال کرتا رہوں۔ پس اب میں سوال نہیں کروں گا۔ پھر فرمایا: فمن ادّاہن منکم ایمانا بہن‘ واحتسابا لہن‘ کان لہ اجر خمسین صلاۃ (مکتوبۃ) یعنی اے اہلِ ایمان! تم میں سے جس کسی نے ان پانچ نمازوں کو ایمان واخلاص کے ساتھ اور ثواب اور رضائے الٰہی کی نیت سے ادا کیا‘ اسے پچاس فرض نمازوں کا ثواب ملا کرے گا۔ (سیرۃ ابن ہشام‘ القسم الاول‘ ص۴۰۳-۴۰۸)۔ 
قرآن پاک میں سورۃالنجم میں بھی معراج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ سورت مکی ہے اور اس کا زمانہ نزول مکہ کا ابتدائی دور ہے‘ تاہم جیسا کہ دیگر بہت سے مقامات پر مختلف اوقات میں نازل ہونے والی آیات کو اللہ کے حکم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ترتیب دیا ‘ یہ آیات بھی اس سورت میں شامل ہیں‘ مگر ان کے مضمون کو دیکھتے ہوئے اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ یہ معراج کے بعد نازل ہوئی ہوں اور اللہ کے حکم سے اس سورت میں شامل کی گئی ہوں۔ 
وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً أُخْرٰی۰ عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی۰ عِنْدَہَا جَنَّۃُ الْمَأْوٰی۰ إِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشٰی۰ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی۰ لَقَدْ رَأٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی۰ (النجم۵۳:۱۳-۱۸)
اور ایک مرتبہ پھر اس نے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اسے (جبریلؑ کو) اترتے دیکھا جہاں پاس ہی جنت الماویٰ ہے۔ اس وقت سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ کہ چھا رہا تھا۔ (آپؐ کی) نگاہ نہ چندھیائی نہ حد سے متجاوز ہوئی اور اس نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ 
امام ابن کثیر‘ امام قرطبی اور دیگر اہم مفسرینِ قرآن نے سورۃ النجم کی تفسیر میں آیات بالا کے بارے میں بیان فرمایا ہے کہ یہ معراج کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ وہ عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت ابوہریرہؓ کی ایک روایت بحوالہ صحیح مسلم نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ سلم کو معراج کے موقع پر تین خاص چیزیں عطا فرمائی گئیں۔ آپؐ نے فرمایا: اعطی الصلوات الخمس‘ واعطی خواتیم سورۃ البقرۃ‘ وغفر لمن لا یشرک باللہ شیئا من امتہ المقحمات۔ معراج کے موقع پر آپؐ کو پانچ نمازیں‘ سورۃالبقرہ کی آخری آیات اور یہ خوش خبری دی گئی کہ آپ کی امت کا ہرشخص جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو‘ مغفرت سے (بالآخر) ہمکنار ہوجائے گا۔ (تفسیرابن کثیر‘ ج۶‘ مطبع دارالاندلس‘ ص۴۵۲‘ الجامع الاحکام القرآن‘ للقرطبی‘ ج۱۷‘ ص۹۳-۹۴‘ انتشارات ناصر خسرو‘ طہران)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved