تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     03-04-2019

کراچی کے میمن کے ساتھ ایک شام …(2)

اقبال دیوان نے ادھر ادھر نظریں گھمائیں تو انہیں کہیں بھی پرانی کتابوں کی وہ دکانیں نظر نہ آئیں‘ جن کی امید پر وہ مجھے یہاں لے آئے تھے۔ وہ کافی عرصے سے کہہ رہے تھے: اگر پرانی کتابیں چاہئیں تو ڈاکٹر ظفر الطاف کی طرح کراچی آنا ہو گا۔ میں تو ڈاکٹر احتشام قریشی کے ساتھ بالٹی مور اور لاس ویگاس تک کی پرانی کتابوں کی دکانیں کھنگال چکا تھا۔ اکبر چوہدری کے ساتھ واشنگٹن میں پرانی کتابوں کی دکانوں پر تین گھنٹے لگا کر جو کتابیں ڈھونڈی تھیں‘ وہ بھی ایک نایاب سرمایہ تھا۔ لندن میں صفدر عباس بھائی میرے لیے یہ ڈیوٹی دیتے ہیں۔ 
لیکن کراچی کی پرانی کتابوں کا جنون سر پر سوار تھا‘ لہٰذا اب میں اقبال دیوان کے ساتھ اس مارکیٹ میں کھڑا تھا۔ اقبال دیوان کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کریں۔ ہر طرف سامان بھرا ہوا تھا۔ دو نمبر مال کہہ لیں یا پھر سستا‘ جو عام لوگ افورڈ کر سکتے ہیں۔ میں سمجھ رہا تھا‘ اقبال دیوان سوچ رہے ہوں گے کہ رئوف کو کتابوں کی اس مارکیٹ کا لالچ دے رکھا تھا اور اب وہ دکانیں ہی غائب ہیں۔ اقبال دیوان مجھے تسلی دینے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ایک بندہ ان کے قریب آیا۔ اس نے اقبال دیوان کو پہچان لیا تھا۔ سلام کے بعد دیوان نے ان دکانوں کی طرف سوالیہ اشارہ کیا۔ اس بندے نے بتایا کہ جو بوڑھے تاجر یہاں کتابوں کی دکانیں چلاتے تھے وہ فوت ہو چکے ہیں‘ ان کے ورثا کو کتابیں بیچنے میں دلچسپی نہیں تھی‘ ایک ایک کرکے سب دکانیں ختم ہوگئیں اور ان کی جگہ ریڑھیوں نے لے لی۔ اقبال دیوان نے میری طرف دیکھا اور سر جھکا کر آگے چل پڑے۔ مشکل سے راستہ بناتے، موٹر سائیکلوں سے ٹکراتے دونوں چلتے رہے۔ اقبال دیوان کے چہرے پر پھیلی اداسی سے لگ رہا تھا کہ ان کا ایک تعلق آج ختم ہو گیا ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر ظفر الطاف کے بعد وہ یہاں چار سال سے نہیں آئے تھے لیکن انہیں ایک امید تھی کہ ایک مارکیٹ ایسی ہے جہاں پرانی کتابیں ملتی ہیں اور جو انہوں نے بڑی مشکلوں سے گرائے جانے سے بچائی تھی تاکہ کراچی اور پاکستان کے لوگوں کا لٹریری دیوالیہ پن نہ ہو۔ میں بھی خاموش رہا۔ مجھے پتہ تھا کہ وہ اس وقت خود سے لڑ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اس معاشرے کو کیا ہو گیا ہے‘ کتابوں کی دکانیں بھی برداشت نہیں ہوتیں۔ 
انہیں میری کمزوری کا علم تھا۔ بولے: رئوف میاں کیا خیال ہے پہلے آپ کو یہاں کی مشہور نہاری کھلائی جائے اور پھر آپ کو قاضی عبدالستار اور ابوالفضل صدیقی کی کتابیں ڈھونڈ کر دی جائیں۔ میں خوش ہو گیا اور کہا: دیوان جی ایک بات بتائوں‘ میں نے پاکستان میں کسی دکان کا معیار چیک کرنا ہو تو وہاں جا کر ابوالفضل صدیقی اور قاضی عبدالستار کی کتابوں کا پوچھتا ہوں۔ اگر مالک کہے‘ موجود ہیں‘ تو پھر میں اس دکان میں دو تین گھنٹے گزار سکتا ہوں کیونکہ مجھے علم ہے کہ وہاں سے اچھی کتابیں مل سکتی ہیں اور مالک باذوق بندہ ہے۔ اگر بیرون ملک جائوں تو وہاں پرانی کتابوں کی دکانوں سے عظیم فرانسیسی کہانی کار بالزاک کا پوچھتا ہوں۔ کوئی اگر کہے کہ کون بالزاک تو پھر میں اس دکان کے اندر قدم نہیں رکھتا۔ میرے دوست ڈاکٹر احتشام قریشی نے تو لاس ویگاس میں بالزاک کا وہ ناول تک ڈھونڈ نکالا تھا جو شاید انیس سو چودہ میں ترجمہ ہوا تھا۔ ہم دونوں نے اس دکان میں تین گھنٹے گزارے تھے اور بہت پرانی اور خوبصورت کتابیں تلاش کی تھیں۔ 
کتابوں کی ایک دکان سے ابوالفضل صدیقی کے ناولز اور شارٹ سٹوریز مل گئیں۔ مجھے یاد آیا‘ اردو ادب کے ان دو بڑے ناموں سے تعارف شکیل عادل زادہ کے سب رنگ سے ہوا تھا۔ قاضی عبدالستار کی کہانی بادل آج تک نہیں بھولی۔ بادل ایک پالتو ہاتھی کا نام تھا۔ ایک دن جب اس گھر میں لڑکی کا رشتہ ہونے لگا تو لڑکے والوں نے فرمائش کر دی انہیں جہیز میں بادل بھی دیا جائے۔ اس پر زمیندار نے ایک جملہ کہا تھا: بادل تو میرا بیٹا ہے اور بیٹے جہیز میں نہیں دیے جاتے۔ کراچی کی سارہ حسین نے جو منٹو اور غالب کی زندگی پر لکھا گیا ناول ''دوزخ نامہ‘‘ مجھے تحفے میں دیا‘ وہ اپنی جگہ ایک الگ کالم مانگتا ہے۔ 
اقبال دیوان مختلف گلیوں سے پھراتے ایک تنگ سی گلی میں لے گئے۔ وہ اردو بازار تھا۔ وہاں آخر ایک چھوٹی سی پرانی دکان مل ہی گئی جس کے اندر میں گھس گیا اور چند کتابیں اپنی مرضی کی مل ہی گئیں۔ وہاں برادرز کرامازوف مل گیا۔ لندن سے 1927ء میں چھپنے والا پرانا ایڈیشن ملا۔ برادرز کرامازوف دوستووسکی کے ان ناولز میں سے ہے‘ جسے وار اینڈ پیس، Les Miserable کے ساتھ پڑھا جانا چاہیے۔ گاڈ فادر کے مصنف ماریو پزو نے لکھا تھا: اگر برادرز کرامازوف نہ پڑھتا تو کبھی ادیب نہ بنتا۔ چار سال قبل امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کا نیویارک ٹائمز کے بک سیکشن میں انٹرویو پڑھا تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا: زندگی میں کون سی ایسی کتابیں ہیں جنہیں وہ دوبارہ پڑھنا چاہتی ہیں تو مسز کلنٹن نے جواب دیا تھا؛ صرف دو کتابیں ایسی ہیں جو وہ دوبارہ پڑھنا چاہتی ہیں۔ ایک بائبل اور دوسرا دوستووسکی کا ناول برادرز کرامازوف۔ اسی دکان سے برطانوی وزیر اعظم چرچل کی 1949 میں چھپنے والی Their finest hour مل گئی۔
شام کو سمندر کے کنارے پر بنے ایک ریسٹورنٹ میں ہم خاصی دیر سے باتیں کر رہے تھے۔ تیز ہوا ہمارے چہرے سے ٹکرا رہی تھی۔ ایک خوبصورت ماحول اور وہی پرانی گپ شپ۔ اقبال دیوان مختصر لیکن گہری بات کرتے ہیں۔ ان کی باتوں میں بہت ذہانت ٹپکتی ہے۔ وہ گفتگو میں الفاظ ضائع کرنے کے ہرگز قائل نہیں۔ میمن ہیں لہٰذا لفظ بھی ضائع نہیں کرتے۔ ڈی ایم جی افسر ہونے کے ناتے طویل عرصہ سروس کی اور واسطہ مختلف لوگوں سے روزانہ پڑتا رہا‘ لہٰذا ان کی مردم شناسی عروج پر ہے۔ کسی کو بھی ایک فقرے میں سمو دیں گے۔ کتابوں کے مطالعے نے انہیں بہت شارپ کر دیا ہے۔
مجھے یاد آیا کہ ڈاکٹر ظفرالطاف کے حلقہ احباب میں اقبال دیوان واحد تھے جو ان کے مزاج کے خلاف ذاتی بات کہہ دیتے تھے۔ ایک دفعہ ایک ایسی بات کہہ دی تھی جس پر ڈاکٹر صاحب ان سے ناراض ہوگئے تھے‘ لیکن دیوان اپنی بات پر قائم رہا۔ اپنا بوریا بستر اٹھایا اور چلے گئے۔ کچھ عرصے بعد ڈاکٹر صاحب کو احساس ہوا کہ انہوں نے غلط کیا تھا‘ فون کرکے معذرت کی۔ 
میں نے کہا: دیوان جی یاد ہے‘ میری آپ سے پہلی ملاقات کب ہوئی تھی؟ انہوں نے میری طرف دیکھا تو میں نے کہا: دو ہزار دو جولائی میں جب میں کراچی آیا تھا تو ڈاکٹر ظفر الطاف نے آپ کو فون کیا تھا کہ رئوف کو شہر میں بور نہ ہونے دینا‘ تو آپ ایک شام مجھے میرے ہوٹل سے لے کر کسی دوست افضل حسین رضوی صاحب کے ہاں لے گئے تھے۔ وہ ابھی وی سی آر کے دن تھے اور وہاں رچرڈ گیر کی فلم Unfaithful دکھائی تھی۔ میں بہت حیران ہوا تھا کیونکہ اداکار جو بول رہے تھے وہ سکرین پر انگریزی میں لکھا ہوا آرہا تھا۔ وہ پہلی فلم تھی‘ جو سب ٹائیٹلز کے ساتھ دیکھی تھی اور اس کا اپنا مزہ آیا تھا۔
دیوان جی بولے: کمال ہے سترہ برس پہلے کی وہ رات آپ کو یاد ہے۔ میں نے کہا: میزبان رضوی صاحب بھی کمال کے بندے تھے۔ کیا شاندار مہمان نوازی کی تھی۔ کہنے لگے: کبھی لاہور جائیں تو ان سے ملیں وہ آج کل لاہور ہوتے ہیں۔ میں نے کہا؛ ویسے آپ کے دوست رضوی صاحب کرتے کیا تھے؟ اقبال دیوان نے قہقہہ لگایا اور بولے: جو کچھ کرتے تھے ان کے بزرگ کرتے تھے، رضوی صاحب تو بس عیاشی کرتے تھے۔ 
جب رات گئے اقبال دیوان مجھے ہوٹل چھوڑنے آئے تو میں نے کہا: آپ اسلام آباد شفٹ نہیں ہو سکتے؟ ڈاکٹر ظفر الطاف کے بعد وہ شہر خالی لگتا ہے۔ آپ آ جائیں۔ شہر دوبارہ زندہ ہو جائے گا۔ ویک اینڈ پر شامیں اکٹھے گزاریں گے۔ دو دن سے آپ کے ساتھ ہوں ایک لمحہ بھی بور نہیں ہوا۔ پرانے دوستوں اور گزرے وقت کو یاد کرکے ہم دونوں اداس ہوئے تو ان گنت قہقہے بھی لگائے۔ میں نے کہا: بارہ کالمز میں نے بھی لکھے تھے ڈاکٹر ظفرالطاف پر لیکن جو سویرا کے شمارے میں آپ نے ان کا خاکہ لکھا تھا وہ اپنی جگہ شاہکار تھا۔ میرے بارہ کالمز مل کر بھی آپ کے اس ایک خوبصورت خاکہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ 
اقبال دیوان اداس ہو کر گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگ گئے جبکہ میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوٹل کی سیڑھیاں چڑھ گیا۔ اقبال دیوان کی وجہ سے مجھے کراچی پہلی بار اچھا لگا تھا۔ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved