تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     03-04-2019

سب کی جنگ، سب کے خلاف

ہر معاشرہ کثیر جہتی کیفیات رکھتا ہے، کچھ غالب، کچھ دھیمی، اور کچھ نوکیلی۔ کیفیات جامد نہیں، حالات کے مطابق تغیر پذیر ہوتی ہیں۔ ملک کے معروضی حالات، سیاسی فضا اور سماجی مکالمہ ان پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر گہرے اور دیرپا اثرات رکھنے والے عوامل کی فہرست مرتب کی جائے تو ان میں سرِ فہرست اربابِ اقتدار کا رویہ، سوچ، مفادات اور اندازِ سیاست ہوتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سب ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ برداشت نام کو نہیں، صبر چھو کر بھی نہیں گزرا۔ عوامی تائید اور جمہوری اکثریت کو تسلیم کرنے کی روایت سے ناآشنا۔ خود جیتیں تو عوامی حمایت کا جشن، مخالف جیتے تو ہیرا پھیری، اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اور جعلی مینڈیٹ جیسے سنگین الزامات۔ 
موجودہ صف بندی ہماری سیاسی کشیدگی سے بھرپور تاریخ کا تسلسل ہے۔ ویسے تو اس کشیدگی کا آغاز ملک کے قیام کے پہلے عشرے میں ہی ہو گیا تھا، مگر اس میں سنگینی ''ایوب ہٹائو تحریک‘‘ کے دوران دیکھنے میں آئی۔ باوجود اس کے کہ اس وقت مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے تمام حصوں میں موجود سیاسی جماعتیں کئی اہم امور پر متفق تھیں، پرامن انتقالِ اقتدار کے بنیادی سوال پر یکجا نہ ہو سکیں۔ اس کے لیے ایوب خان سے مذاکرات کرنے کی ضرورت تھی۔ نوابزادہ نصراﷲ خان نے بسیار کوشش کی، کچھ جماعتیں اُن کی ہمنوا بنیں، لیکن عوامی مقبولیت کے پیشِ نظر ذوالفقار علی بھٹو نے مذاکرات کی میز پر آنے سے انکار کر دیا۔ ترپ کا پتا اُنہی کے پاس تھا۔ سیاسی بصیرت اور دانش مندی کا تقاضا یہ تھا کہ بھٹو اور دیگر رہنما مسئلے کا سیاسی حل نکالتے، لیکن بھٹو کو علیحدہ رہ کر سیاسی جدوجہد کرنے میں اپنا مفاد دکھائی دیتا تھا۔ 
1970ء کے انتخابات کے بعد جو صورتحال بنی، اس کا حال سب کو معلوم ہے۔ کئی بیانیے ابھی تک غالب ہیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ بھٹو صاحب نے عوامی لیگ کی اکثریت کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ سازشوں، ذاتی مفاد پرستی اور اقتدار کی ہوس کے علاوہ سیاسی، لسانی اور علاقائی قطبیت نے ایسا پیچیدہ ماحول پیدا کر دیا کہ حالات کو سنبھالنا کسی کے بس کی بات نہ رہی۔ باقی تاریخ ہے۔
مشرقی پاکستان کے المیے کے بعد بننے والے نئے پاکستان کے معمار ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ یقینا وہ ایک ولولہ انگیز رہنما، اور پاکستان کے ہر کونے میں مقبول تھے۔ کوئی اور سیاسی رہنما اُن کے قد کاٹھ کا نہ تھا۔ اُن کے جلسوں میں لاکھوں لوگ شریک ہوتے۔ اُن کی بات سنی جاتی، اُن کی بات میں اثر ہوتا۔ غریب آدمی کو توقیر اور اعتماد دیتے ہوئے وہ پاکستان کی تاریخ میں ایک بہت بڑا سیاسی انقلاب لے کر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ پسے ہوئے پاکستانی پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستہ رہے اور بھٹو صاحب کے نام نہاد سیاسی جانشین ابھی تک اسی سیاسی سرمایہ کاری اور جدوجہد کا پھل کھا رہے ہیں۔ کم از کم اندرون سندھ کی حد تک یہ بات اب بھی درست ہے۔ دیگر صوبوں میں پارٹی کا حال سب کو معلوم ہے۔
بات ذرا لمبی ہو گئی۔ مگر اس ٹکرائو اور تصادم، جو پاکستانی سیاست کا خاصہ بن چکا، کی ابتدا بھٹو صاحب کے دور میں ہی ہوئی تھی۔ سحر انگیز شخصیت کے مالک بھٹو اپنی پارٹی کے اندر اور باہر سیاسی مخالفین کے ساتھ جابرانہ، ہتک آمیز برتائو کرتے۔ صنعت کو قومیانے کی پالیسی نے معیشت کمزور کر دی، تو اُن کے اقتدار کی بنیاد بھی کمزور ہونے لگی۔ پھر اُنھوں نے بھی وہی کچھ کیا جو زوال پذیر حکمران کرتے چلے آئے ہیں۔ مخالفین کو ریاستی طاقت سے دبانا چاہا۔ ایک وقت آیا جب اُنہیں خود پر، اور حاصل عوامی مقبولیت پر یقین نہ رہا، اور ملکی تاریخ کی سب سے بڑی منظم انتخابی دھاندلی کا الزام سینے پر سجا لیا۔ 
بھٹو صاحب کی شخصیت کے کئی پہلو تھے۔ بہت اعلیٰ بھی اور بہت کمزور بھی۔ جمہوری انداز، لیکن شخصی حکومت کی خواہش۔ آمرانہ مزاج، لیکن غریب آدمی کے ساتھ۔ لیکن یہ اُن کا بے لچک رویہ تھا جس نے مخالف سیاسی جماعتوں کو ایک صف میں کھڑا کر دیا۔ نو سیاسی جماعتوں پر مشتمل جمہوری اتحاد نظریاتی، لسانی اور فکری اختلافات سے ماورا تھا۔ ان کی ایک نکتے پر یکسوئی تھی۔ بھٹو صاحب کو اقتدار سے کیسے الگ کیا جائے۔ وہ انتخابات دوبارہ کرانے پر مان تو گئے، لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ پھر اتحاد کا مطالبہ یہ تھا کہ وہ حکومت سے علیحدہ ہو جائیں۔ سات سال کی کشمکش، اور نئے پاکستان کا حال پرانے پاکستان سے بھی بد تر نکلا۔ یہ ہماری تاریخ میں دوسرا موقع تھا جب سیاسی رہنما میز پر بیٹھ کر بات کر لیتے تو شاید آج پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔ احتجاجی مظاہرے، مارشل لا کا نفاذ، بھٹو صاحب کا قتل، اور فوجی حکومت کا طویل اقتدار۔ اس نے پاکستانی معاشرے پر گہرے زخم لگائے۔ 
ہمارا قومی المیہ دراصل ہماری قیادت کا المیہ ہے۔ بقول اصغر خان مرحوم، ہم نے تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ اس کے بعد ہمارے سیاسی سٹیج پر پیپلز پارٹی اور اس کی مخالف سیاسی جماعت کے درمیان تیس سال تک تصادم کا سلسلہ چلتا رہا۔ یہ تصادم اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے میدان میں اتارے ہوئے نواز شریف اور عوامی تائید و حمایت کی دعویدار محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان تھا۔ درمیان میں جنرل مشرف نے دو تہائی اکثریت رکھنے والی پی ایم ایل (ن) کی حکومت کو چلتا کر دیا۔ اس وقت کسی سیاسی جماعت کو مذمت کی توفیق نہ ہوئی۔ کسی کے منہ سے افسوس کی آواز تک نہ نکلی‘ بلکہ جشن منا کر، مٹھائیاں تقسیم کرکے اپنے ''جمہوریت پسند‘‘ ہونے کا ثبوت دیا گیا۔ اس فوجی مداخلت نے پاکستان کے ریاستی ڈھانچے اور سیاسی صف بندی کو بہت متاثر کیا۔ 
ہماری سیاسی قیادت ابھی تک اسی دلدل میںدھنسی ہے۔ وہی ٹکرائو کی سیاست، وہی محدود سوچ اور بے حسی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ کردار تبدیل ہو گئے ہیں، صفیں بدلی ہیں، دل البتہ وہی ہیں۔ تاریخی طور پر یہ سب ایک وسیع تر منظر نامے کا حصہ ہے۔ اس کے اندر کئی رنگ، بنتے بگڑتے کردار، سیاسی چالبازیاں اور مخالفت اور حمایت کے بدلتے مورچے ہیں۔
جمہوری مزاج اگر ہو تو مخالفت ذات یا کردار کی نہیں، اصولوں پر ہوتی ہے۔ پالیسیوں، قومی ترجیحات پر مسائل کی نوعیت اور اُن کے حل پر ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں سیاسی کشیدگی کا محور ان میں سے کچھ نہیں۔ یہاں دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کسی حد تک جانے کی رسم عام ہے۔ پاکستان تحریک ِانصاف ایک مقبول سیاسی جماعت کے طور پر ابھری۔ گزشتہ 70 سال کے دوران یہ دوسری جماعت ہے جو ایک رہنما کی قیادت میں ملکی سیاست پر غالب آئی ہے۔ گزشتہ چالیس سال سے عوامی حمایت کی سند رکھنے والی پیپلز پارٹی سمٹ چکی، پی ایم ایل (ن) وسطی پنجاب تک محدود ہے، مذہبی جماعتیں اقتدار کے کیک کا ٹکڑا حاصل کرتی رہی ہیں، لیکن اُنہیں پش اپ کی ضرورت رہتی ہے۔ 
پاکستان کا سیاسی ماحول گزشتہ دو انتخابات کے دوران کافی تبدیل ہوا ہے۔ موجودہ سیاسی حرکیات روایتی سیاسی خاندانوں کو راس نہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی مقبولیت برقرا رہے۔ کوئی اور جماعت یا رہنما ان کا حریف نہیں۔ اس وقت ملک کو مسابقت کی نہیں، اصلاحات کی ضرورت ہے۔ خدشہ ہے کہ تحریکِ انصاف خواہ مخواہ مسابقت کے میدان میں اتر کر اپنی توانائیاں ضائع کرنے کے موڈ میں ہے۔ دوسری جماعتوں کو بھی خوف ہے کہ تحریک انصاف اصلاحات اور معاشی و اقتصادی بحالی کیلئے مشکل فیصلے کرنے میں کامیاب نہ ہو جائے۔ وہ چاہتی ہیں‘ ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ اُن کی ماضی کی بدعنوانی اور بدانتظامی کے داغ دھل جائیں؛ چنانچہ ضروری ہے کہ حکومت کو مہلت نہ دی جائے۔ 
مولانا فضل الرحمان اور زرداری ایک صفحے پر ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کا ٹرین مارچ سندھ کے چند شہروں تک محدود رہ کر تمام ہو چکا۔ وہ پانی کی گہرائی میں اترنے سے کتراتے ہیں۔ مولانا دس لاکھ لوگ اسلام آباد لانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ معلوم نہیں وہ ایسا کر پائیں گے یا نہیں، لیکن دھمکی آمیز لہجے میں احتساب سے خائف دیگر جماعتوں اور اُن کے رہنمائوں کی تائید شامل ہے۔ تاریخ خود کو دہرانے جا رہی ہے۔ عمران خان، سیاسی اداروں اور ریاست کیلئے یہ ایک بڑا امتحان ہے۔ کیا اس ماحول میں سیاسی افہام و تفہیم کی امید کی جا سکتی ہے؟ کیا ملکی ترقی کو ذاتی مفاد اور انا پر ترجیح دینے کی امید کی جائے؟ کیا ہم واقعی 70 اور 90 کی دہائیوں سے آگے آ چکے ہیں؟ کیا یہ بحران کسی طور ٹالا جا سکتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved