تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     03-04-2019

بحر ہند کی متلاطم امواج

بحر ہند دنیا کا تیسرا بڑا سمندر ہے لیکن محلِ وقوع کے لحاظ سے سب سے اہم ہے۔ یہ سمندر انڈیا کے ساحلوں سے لے کر بر اعظم افریقہ اور انڈونیشیا بلکہ آسٹریلیا تک پھیلا ہوا ہے۔ دنیا میں تیل کی اسی فیصد ترسیل بحر ہند کے ذریعے ہوتی ہے۔ باب المندب اور آبنائے ہومز کے اہم پوائنٹ اسی سمندر میں واقع ہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے ساحلوں سے متصل بحیرہ عرب بھی انڈین اوشن کا حصہ ہے۔ دنیا کا چالیس فیصد تیل روزانہ آبنائے ہرمزسے گزرتا ہے۔ یہ وہ تنگ آبی گزرگاہ ہے جس کے ایک جانب ایران اور دوسری طرف سلطنت آف عمان ہے۔ یہ اہم علاقہ پاکستان سے بھی زیادہ دور نہیں۔
بحر ہند میں بلا شرکت غیرے انڈیا کی برتری بھارت کا پرانا خواب ہے جو پنڈت نہرو نے اپنی تحریروں میں متعدد بار بیان کیا ہے۔ اسی خواب کی تعبیر کے لئے انڈیا نے IOR-ARC کی تنظیم بنائی۔ یہ علاقائی تعاون کے لئے اُن تمام ممالک کی تنظیم ہے جن کے ساحل بحر ہند کے پانیوں سے منسلک ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان اس تنظیم کا ممبر نہیں حالانکہ ہمارا آٹھ سو کلو میٹر ساحل اس سمندر کو لگتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس تنظیم کا اصل مقصد بحر ہند کے پورے علاقے میں انڈیا کی چوہدراہٹ جمانا ہے۔
1973ء میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی تو عربوں نے امریکہ‘ کینیڈا‘ ہالینڈ‘ برطانیہ اور جاپان کو تیل کی ترسیل بند کر دی۔ یہ ملک سب کے سب اسرائیل کے حمایتی تھے۔ جنگ سے پہلے تیل کے ایک بیرل کی قیمت تین ڈالر تھی جو اس بلاکیڈ کے بعد بارہ ڈالر ہو گئی۔ مغربی دنیا کو احساس ہوا کہ تیل کی ترسیل کے لئے خلیجی ممالک بے حد اہم ہیں اور تجارت کے لئے بحر ہند سب سے اہم سمندر ہے۔ انہیں اس بات کا بھی شدت سے ادراک ہوا کہ آبنائے ہرمز اور باب المندب کو ہر صورت میں کھلا رکھنا اشد ضروری ہے۔ چنانچہ ڈیگو گارشیا کے جزیرے پر امریکہ نے بہت بڑا عسکری اڈہ بنایا۔
ڈیگو گارشیا بحر ہند میں واقع تیس مربع کلو میٹر کا ایک جزیرہ ہے جو 1968 تک برطانیہ کی ملکیت تھا۔ برطانیہ سے یہ جزیرہ امریکہ نے لیز پر لیا۔ ابھی حال ہی میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (ICJ) نے فیصلہ دیا ہے کہ ڈیگو گارشیا دراصل موریشئس کے پاس ہونا چاہئے لیکن اس فیصلے کی نوعیت سفارش یا تجویز والی ہے یعنی یہ یو این چارٹر کے باب ہفتم (Chapter 7) کے تحت نہیں آتا۔
1973ء میں ڈیگو گارشیا میں امریکی عسکری اڈے کا قیام انڈیا کو ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔ انڈیا کی بحر ہند میں بلا شرکت غیرے برتری کا خواب چکنا چور ہو رہا تھا‘ لیکن اُسے با دل نخواستہ اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا۔ ساتھ ہی انڈیا نے بلیو واٹر نیوی بنانا شروع کر دی یعنی دور دراز پانیوں میں ترنگا لہرانے کا شوق جاری رہا۔ اور اب تو صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔ 2016ء کے لاجسٹک معاہدے کے مطابق انڈیا اور امریکہ ایک دوسرے کو عسکری لاجسٹک سپورٹ دینے کے پابند ہیں‘ یعنی اب انڈین نیول اور ہوائی جہاز ڈیگو گارشیا میں مرمت اور تیل لینے کی غرض سے جا سکتے ہیں۔ آج انڈیا اور امریکہ شیر و شکر ہیں کہ دونوں کا مقصد چین کی طاقت اور اثر و رسوخ کو محدود کرنا ہے‘ اس لئے سمندروں میں چین کا محاصرہ ضروری ہے۔
آپ کو یاد ہو گا کہ تقریباً 2010ء کے آس پاس امریکہ نے دو بڑے اہم سٹریٹیجک فیصلے کئے تھے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ امریکہ اب اپنی زیادہ توجہ مڈل ایسٹ اور ایشیا کی بجائے بحرالکاہل پر مرکوز کرے گا۔ یاد رہے کہ South China Sea اسی سمندر کا حصہ ہے اور چین کی بحری تجارت بھی اسی راستے سے ہوتی ہے۔ دوسرا فیصلہ اُس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کا انڈیا میں بیان تھا کہ ہندوستان کو اب بحرالکاہل کے علاقے میں بھی مرکزی رول ادا کرنا چاہئے۔ میں نے تب ایک انگریزی روزنامہ میں کالم لکھا کہ علاقائی لیڈر خود اپنی طاقت سے بنتے ہیں‘ انہیں سپر پاورز اپوائنٹ نہیں کرتیں۔ ساتھ ہی میں نے 1970ء کی دہائی کے ایران کی مثال دی تھی جسے امریکہ نے خلیج کے پولیس مین کا رول دیا تھا‘ لیکن وہ رول عارضی ثابت ہوا۔
جب امریکہ نے ایشیا اور مڈل ایسٹ سے توجہ بحرالکاہل کی جانب شفٹ کرنے کا فیصلہ کیا تو انڈیا اور چین دونوں پاور کے اس خلا کو پُر کرنے کا سوچنے لگے۔ انڈیا اور چائنا دونوں تجارت کے اعتبار سے اہم ممالک ہیں لہٰذا بحر ہند دونوں کے لئے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ 2014ء میں ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) کے عالمی منصوبے کا آغاز ہوا۔ چینی صدر شی جن پنگ اس وژن کے خالق ہیں۔ اس منصوبے کا اولین مقصد بحری اور برّی راستوں سے چین کی انٹرنیشنل تجارت کا فروغ ہے۔ پاکستان کے ساتھ سی پیک کا پراجیکٹ اسی گرینڈ منصوبے کا حصّہ ہے۔ ویسے تو سارے کا سارا سی پیک انڈیا کی نظروں میں کھٹکتا ہے‘ لیکن سب سے سخن گسترانہ بات گوادر کی بندرگاہ ہے‘ جو جلد ہی بحر ہند کی اہم ترین بندر گاہوں میں شمار ہو گی۔ اس غزل کا جواب انڈیا نے سلطنتِ عمان میں دقم کی بندرگاہ کے بارے میں پچھلے سال ہونے والے ایک معاہدے کی صورت میں دیا۔ انڈیا کو ایک انجانا خوف ہے کہ گوادر مستقبل میں چائنا کا نیول بیس بن سکتا ہے۔
ادھر چائنا نے برما‘ بنگلہ دیش، مالدیپ اور سری لنکا میں OBOR کے تحت ترقیاتی منصوبے شروع کئے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ نے بھی دقم اور صلالہ میں نیول سہولتیں حاصل کر لی ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ ایران کی طرف سے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی پیش بندی ہے کیونکہ دقم اور صلالہ دونوں ہرمز سے خاصی دور ہیں۔ میرے مطابق امریکہ اور انڈین دونوں دقم میں بیٹھ کر چینی جہازوں کی نقل و حرکت دیکھیں گے۔
انڈیا نے مڈغاسکر اور موریشئس میں راڈار لگائے ہوئے ہیں تو چین نے 2017ء میں جبوتی میں عسکری اڈہ بنا لیا تھا۔ ہمارے ہاں اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ انڈیا نے دقم میں عسکری اڈہ بنا لیا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ دقم کی بندرگاہ میں انڈیا اور امریکہ نے مرمت وغیرہ کی سہولتیں حاصل کی ہیں۔ ان دونوں ممالک کے جہازوں سے وہاں ترجیحی سلوک ضرور ہو گا‘ لیکن ان سہولتوں کو عسکری بیس یا اڈہ فی الحال نہیں کہا جا سکتا۔
سلطنتِ عمان کے فرمانروا سلطان قابوس بہت زیرک انسان ہیں۔ ان کی خارجہ پالیسی کے تین اہم ستون رہے ہیں۔ اول‘ دنیا کے طاقت ور ترین ممالک مثلاً امریکہ سے ہمیشہ بنا کر رکھنا۔ دوئم‘ ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات اور ہمسایوں میں خاص طور پر انڈیا اور ایران کے ساتھ اچھے تعلقات۔ تیسرے‘ دیگر ممالک کے تنازعات میں مکمل غیر جانبداری۔ جب انڈیا کو دقم میں بحری سہولتیں ملیں تو مجھے زیادہ حیرانی نہیں ہوئی؛ البتہ ایران کے خلاف امریکہ کو سہولتیں دینا خلاف توقع تھا۔ سلطان قابوس کی صحت چند سالوں سے خاصی خراب ہے اور کوئی ولی عہد بھی نہیں۔ اسی وجہ سے وہاں فیصلہ سازی کا پہلے والا معیار نظر نہیں آتا۔
مالدیپ میں پچھلے سال سیاسی بحران برپا ہوا تو صدر یامین عبداللہ قیوم نے چین سے مدد مانگی جبکہ اپوزیشن لیڈر اور سابق صدر محمد نشید نے انڈیا سے رجوع کیا۔ چائنا نے اپنا بحری بیڑہ مالدیپ کی جانب روانہ کر دیا تب جا کر معاملات طے ہوئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مستقبل میں بحر ہند میں انڈیا اور چین کے مابین مسابقت بڑھے گی اور ان حالات میں خطے سے امریکہ کا مکمل انخلا بھی نا ممکن لگتا ہے۔ بحر ہند کی امواج آنے والے ماہ و سال میں بھی متلاطم رہیں گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved