وزیر اعظم عمران خان یہ حقیقت نظر انداز کرتے چلے جا رہے ہیں کہ وہ کسی انقلاب کے نتیجے میں برسر اقتدار نہیں آئے بلکہ ایک جمہوری عمل سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ وہ پاکستان کے سب سے مقبول رہنما سہی مگر واحد رہنما ہرگز نہیں۔ وہ یہ بھی بھول رہے ہیں کہ انہیں عام انتخابات میں صرف بتیس فیصد ووٹ اور ان کے مخالفین کو اڑسٹھ فیصد ووٹ ملے تھے۔ ان کی مقبولیت اپنی جگہ لیکن ان کی پارلیمانی طاقت اتنی بھی نہیں کہ تنہا اپنی پارٹی کی حمایت سے کوئی قانون ہی منظور کرا سکیں یا اپنی حکومت ہی برقرار رکھ سکیں۔ وہ ایک ایسی حکومت کے سربراہ ہیں جس میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو ان کے خلاف الیکشن جیت کر اسمبلیوں تک پہنچے ہیں۔ یہ عالمگیر اصول ہے کہ جمہوری حکومتیں اپنے کام نکالنے کے لیے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلتی ہیں‘ لیکن ہمارے وزیر اعظم نہ صرف اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے سے گریزاں ہیں بلکہ اسے بھڑکانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ سیاست میں مخالفین کی چٹکیاں لیتے رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہوتا مگر ہر وقت حالتِ جنگ میں رہنا کسی بھی صورت قابل تعریف نہیں۔ زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ کسی حکمت عملی کا نتیجہ نہیں بلکہ صرف اور صرف وزیر اعظم کی شخصی انا اور خود پسندی کا شاخسانہ ہے۔ وہ زمینی حقائق سمجھنے کے لیے تیار ہیں نہ ہمدردوں کے مشورے انہیں قابل عمل معلوم ہوتے ہیں۔ وہ یہ نکتہ بھی فراموش کیے دے رہے ہیں کہ ملک چلانے کی ذمہ داری ان کی ہے، ان کے سیاسی حریفوں کی نہیں۔ گزشتہ سات ماہ کے دوران ان کا طرزِ عمل دیکھ کر تو اب ان کے خیر خواہ بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ کیا عمران خان اس رویّے کے ساتھ پاکستان میں واقعی کوئی مثبت تبدیلی لا سکیں گے یا انیس سو نوے کی دہائی میں ہونے والی قابلِ نفرت سیاست کو ایک بار پھر سکۂ رائج الوقت بنا کر رخصت ہو جائیں گے۔
وزیر اعظم کی خود پسندی کا سب سے بڑا نقصان دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پہنچ رہا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا معاملہ ہو یا دہشت گردوں کو سزا دینے کے لیے فوجی عدالتوں کی توسیع کا ایشو، وزیر اعظم اور ان کے آتش بدہن وزرا نے سیاسی درجہ حرارت اتنا بڑھا دیا ہے کہ اپوزیشن کی جماعتوں کے سامنے سوائے رد عمل کے کوئی راستہ ہی نہیں رہ گیا۔ نیب اگر پیپلز پارٹی کو پکڑے تو تحریک انصاف کا حکمران جتھہ جھومر ڈالتا ہوا میدان میں آ جاتا ہے اور فتح کے نعرے ہانکتے ہوئے یہ بھول جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے بغیر سینیٹ سے کوئی قانون منظور ہی نہیں ہو سکتا۔ مسلم لیگ ن جب احتساب کے شکنجے میں آتی ہے تو ساری تحریک انصاف نو عمر باراتیوں کی طرح بھنگڑے ڈالنے لگتی ہے۔ ان جھومروں اور بھنگڑوں کا جواب پھر پارلیمنٹ میں ملتا ہے‘ جہاں قائد ایوان ہو کر بھی عمران خان صاحب کا بیٹھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس ماحول میں دہشت گردی کے خلاف فوجی عدالتوں کے لیے ضروری دستوری ترمیم کی توقع تو دور کی بات ڈھنگ سے اسمبلی کی کارروائی بھی نہیں چل سکتی۔ تحریک انصاف کی ان حرکتوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اسد قیصر، شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، جہانگیر ترین اور شفقت محمود جیسے سینئر رہنما بھی مؤثر نہیں رہے۔ پہلے پہل اپوزیشن ان کی بات سن لیتی تھی لیکن اب یہ لوگ بھی اس پوزیشن میں نہیں رہے کہ اپوزیشن کے ساتھ کم از کم قانون سازی کی حد تک ہی اشتراکِ عمل کا کوئی راستہ نکال سکیں۔
الیکشن کمیشن کی تشکیل نو بھی ایسا معاملہ ہے جس کے لیے آئین میں درج طریق کار کے مطابق وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف میں مشاورت ضروری ہے۔ وزیر اعظم نے مشاورت کے لیے پہلے تو شاہ محمود قریشی کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ شہباز شریف سے رابطہ کریں۔ ابھی یہ رابطہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ وزیر اعظم کے حکم پر ان کے پرنسپل سیکرٹری نے شہباز شریف کو خط لکھ کر مشاورت کی رسم پوری کرنے کی کوشش کی۔ دستوری و سیاسی طریق کار سے ہٹ کر سرکاری افسروں کو اس کام میں ملوث کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وزیر اعظم قائد حزب اختلاف کو بے توقیر کر رہے ہیں۔ اس کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہباز شریف نے بھی اپنے سیکرٹری سے خط لکھوا کر یہ طریقۂ مشاورت ماننے سے انکار کر دیا۔ یوں الیکشن کمیشن کی تشکیل کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا۔
اسی طرح معاشیات کے میدان میں پہلے تو غیر ضروری ماتم نے بہت کچھ تباہ کر دیا، اس کے بعد احتساب کے عمل کو سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرنے سے بربادی ہوئی اور اب ماہرین کی جگہ 'پسندیدہ ماہرین‘ کو لگانے سے ہو رہی ہے۔ پسندیدہ ماہرین باتوں کے تو دھنی ہیں مگر کام سے بے خبر ثابت ہوئے ہیں۔ اپنے اٹھائے ہوئے سیاسی طوفان میں اب یہ بھی نہیں کر پا رہے کہ ڈھنگ کے آدمی ہی تلاش کر لیں۔
ان کے بہی خواہ انہیں بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہوں نے عوام و خواص کے سامنے الیکشن سے پہلے جو منصوبے پیش کیے تھے‘ ان پر عمل کر کے دکھانے کے لیے ملک میں سیاسی درجہ حرارت نیچے لانا ضروری ہے۔ انہوں نے اپنے گرد پسندیدہ افراد کا جو حلقہ قائم کر لیا ہے‘ وہ بھی ان کی مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔ اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگانے کی بے کار کوشش کے علاوہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان لڑائی کا منبع بھی وزیر اعظم کا یہی حلقہ ہے، جو ان تک کوئی صائب رائے نہیں پہنچنے دے رہا۔ اس حلقے میں بیٹھ کر انہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو چٹکیوں میں حل نہ ہو سکے۔ چٹکیاں بجاتے اس حلقے میں کسی بھی ایسے شخص کا داخلہ منع ہے جو تلخ حقیقتوں کی طرف وزیر اعظم کی توجہ چاہتا ہے۔ وزیر اعظم کے بعض خیر خواہ تو اس بات پر بھی دل مسوس کے رہ جاتے ہیں کہ یہ رویہ ان کی ذاتی زندگی کو بھی تلخ بناتا جا رہا ہے۔
خود پسندی اور اپنی انا کا اسیر ہو جانے کا یہ رویہ صرف عمران خان صاحب کا ہے نہ تنہا پاکستان کا مسئلہ ہے۔ دنیا بھر میں سیاستدان دراصل خود پسندی اور غیر معمولی انا کا شکار ہوتے ہیں۔ بلکہ یوں کہیے کہ غیر معمولی خود پسندی اور انا کے بغیر کسی سیاستدان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اپنی ذات کی نمو کی بے پناہ خواہش ہی کسی کو مجبور کرتی ہے کہ وہ حکمرانی کے خواب دیکھے اور ان کی تعبیر حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ بادشاہوں کی بات اور ہے لیکن جمہوری انداز میں حکمرانی کے لیے منتخب ہونے والے کو سب سے پہلے جو قربانی دینا پڑتی ہے وہ اس کی اپنی انا ہوتی ہے۔ اسے مخالفین کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے کہ اس کے خلاف کوئی اتحاد نہ بن پائے۔ اسے نہ چاہتے ہوئے ایسے لوگوں کو بھی عزت دینا ہوتی ہے جن سے وہ نفرت کرتا ہو۔ یہ سب کچھ کرنے کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ اسے اب ملک چلانا ہوتا ہے اور اس کام میں آنے والے ساری رکاوٹوں کا ادراک کرتے ہوئے خو ش اسلوبی سے انہیں دور کر لینا ہی حکمرانی کا پہلا تقاضا ہے۔ اپنی ذات کو اصول قرار دے لینے کا تصور سیاست میں نہیں ہوتا۔ عمران خان صاحب سے پہلے یہ کام ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔ وہ اپنے سیاسی حریفوں کی مخالفت میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ آج تک ان کا دور جبر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اپنی ذات کو اصول بنا لینے کی روش نواز شریف نے بھی اختیار کی تھی اور آخر کار انہیں جس حال سے گزرنا پڑا اس سے عمران خان بخوبی آگاہ ہیں لیکن ان کی غلطی بھی وہی ہے جو ان سے پہلے والوں کی تھی۔ ان کا رویّہ دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ ان سے پہلے والے کسی درندے کی کھوہ میں گئے تھے تو یہ بھی جائیں گے۔ اگر یہی چلن رہے تو ویسا ہی المیہ بن جائیں گے جیسا ان سے پہلے والے بن چکے ہیں۔