جب وقت کی چکری اُلٹی گھومتی ہے تو سلسلۂ واقعات کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ وقت کا یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ساحرؔ لدھیانوی نے کہا تھا ؎
آدمی کو چاہیے وقت سے ڈر کر رہے
کون جانے کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج
وقت کی چکری کا اُلٹا چلنا قیامت ڈھانے پر تُل جاتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے‘ تو بالکل سامنے کی چیز بھی دکھائی دیتی ہے‘ نہ سمجھ میں آتی ہے۔ اس وقت بھارت کا کچھ ایسا ہی وقت چل رہا ہے۔ معاملات کی نوعیت ہی کچھ سے کچھ ہوئی جارہی ہے۔ کوئی لاکھ کوشش کرکے دیکھ لے‘ عام سے اقدامات بھی مطلوب نتائج دینے سے انکار کی روش پر گامزن ہیں۔
26 فروری کو جو کچھ ہوا تھا‘ اُس کے جواب میں پاکستان نے کچھ ایسا کیا کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ بالا کوٹ پر حملے کو دفاعی حکمتِ عملی کے حوالے سے برتری قرار دینے کا ڈھول پیٹا جارہا تھا کہ پاکستان نے دو طیارے گراتے ہوئے ایک ونگ کمانڈر کو پکڑ کر بینڈ بجادیا۔ جنگ کا بِگل بجانے کی تیاری کرنے والوں نے آن کی آن میں خود کو سُونگھ لیا‘ ہونٹوں پر چُپ کی مہر لگالی۔ ہونٹوں پر چُپ کی مہر تو لگنی ہی تھی‘ کیونکہ پاک فضائیہ نے بھرپور ٹھپّہ لگادیا تھا!
ونگ کمانڈر ابھینندن کے معاملے نے بھارت کو سَر جھکانے پر مجبور کردیا۔ میڈیا کے نقارے بھی خاموش ہوگئے۔ میڈیا کی پیالی میں اٹھایا جانے والا جنگی جنون کا طوفان بھی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا‘ مگر کچھ گھامڑ ایسے تھے ‘جو اُتاری جانے والی شلوار کو پگڑی بنانے پر تُل گئے! ابھینندن کی گرفتاری نے بھارتی فوج‘ سیاسی قیادت اور میڈیا تینوں پر بیک وقت خاصا ٹھنڈا پانی ڈال دیا۔ مودی سرکار کی تو خیر بولتی بند ہوگئی۔ بھارتی فوج اور بالخصوص فضائیہ کے لیے بھی یہ مکمل ہزیمت کی گھڑی تھی ‘اِس لیے منہ میں گھنگھنیاں ڈال لینے پر اکتفا کیا گیا۔ انتہا یہ ہے کہ بھارتی فضائیہ کے سربراہ بھی پریس کانفرنس کے لیے ونگ کمانڈر ابھینندن کی گرفتاری و رہائی کے 6 دن بعد منظر عام پر آسکے۔ ابھینندن کے معاملے میں بھارت نے جو ذلّت محسوس کی ‘اُس کا گراف اِتنا بلند تھا کہ معاملات کو تیزی سے درست کرنے پر غیر معمولی محنت کی گئی‘ رابطوں کا بازار گرم کیا گیا۔ پاکستان پر بظاہر کئی اطراف سے دباؤ ڈالا گیا‘ تاکہ پڑوس میں ابھینندن کے قیام کا دورانیہ کم سے کم کیا جاسکے۔ بہت کچھ ہے‘ جو سرکاری سطح پر کبھی نہیں بتایا جاتا مگر ع
دیکھنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں
ابھینندن کو رہا کرنے کے معاملے میں پاکستان نے جو تیزی دکھائی‘ وہ صاف بتاتی ہے کہ بھارت نے پسِ پردہ اپنے گھوڑے کس حد تک دوڑائے ہوں گے‘ کتنے چینلز استعمال کیے ہوں گے اور پاکستان کو مختلف النوع دھمکیوں اور انتباہ کے ذریعے زیر دام لانے کی کتنی کوشش کی گئی ہوگی۔
خیر‘ لطیفہ یہ ہوا کہ ابھینندن کی رہائی کا بھی ''کریڈٹ‘‘ لیا گیا! بھارتی میڈیا نے شدید بے ضمیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھینندن کی محض دو دن میں واپسی بھارت کی بہت بڑی کامیابی ہے! جب کسی کے بُرے دن آتے ہیں تو کامیابی اور فتح کا معیار بھی بدل جاتا ہے۔ آج کل بھارت کے نصیب میں ایسی ہی ''فتوحات‘‘ لکھی ہوئی ہیں۔ مہا راج کرنا چاہتے ہیں کچھ اور ہو جاتا ہے کچھ۔ گویا ع
پاؤں رکھتا ہوں کہیں ... اور کہیں پڑتا ہے!
14 فروری کو پلوامہ حملے کے بعد بھارتی طیاروں نے 26 فروری بالا کوٹ پر چڑھائی کی اور بم برسائے۔ دعویٰ یہ کیا گیا کہ بہت بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ہیں ‘مگر بھارتی میڈیا پر ایک بھی ''باڈی‘‘ کی تصویر پیش نہ کی جاسکی۔ اس کے باوجود میڈیا پر فتح کا بھونپو بجایا جاتا رہا۔ حد یہ ہے کہ دو طیاروں کی تباہی اور ابھینندن کی گرفتاری و رہائی بھی بالا کوٹ حملے کا ذکر تفاخر کے ساتھ کرنے کی روش سے بھارتی میڈیا کو ہٹانے میں ناکام رہی۔ مودی سرکار نیم دِلانہ انداز سے بڑھکیں مارتی رہی ‘مگر ''کتنے آدمی تھے؟‘‘ کا جواب نہ دے سکی۔ میڈیا پر بہت سوں نے پوچھا اور لکھنے والوں نے لکھا کہ اگر بالا کوٹ میں لوگ مرے تھے تو ذرا بتاؤ تو سہی کتنے مرے تھے۔ اِس ایک سوال کے آگے مودی سرکار کی مَیّا مرگئی۔ کوئی مرا ہوتا تو کچھ بتاتے۔ ہاں‘ جہاں بم برسائے گئے تھے وہاں ایک کوّے کا ''جسدِ خاکی‘‘ ضرور دکھائی دیا‘ جس کا لوگوں نے دو دن تک پہلا اور آخری دیدار کیا!
اب بھارتی فضائیہ اور مودی سرکار دونوں کے لیے ایک بڑی روح فرسا خبر یہ ہے کہ دو طیاروں کی تباہی اور ابھینندن کی گرفتاری کے دن مقبوضہ کشمیر کے علاقے بڈگام میں ایک لڑاکا ہیلی کاپٹر کی تباہی اور اِس کے نتیجے میں 2 افسران سمیت 6 فوجیوں کی ہلاکت ''فرینڈلی فائر‘‘ کا انتہائی نامطلوب منطقی نتیجہ تھی!
کہتے ہیں جب کسی کا بُرا وقت چل رہا ہو تو اُسے کسی بھی چیز کو سوچ سمجھ کر چُھونا چاہیے‘ کیونکہ ایسے عالم میں سونے کو ہاتھ لگائیے تو اُس کے مٹی میں تبدیل ہوجانے کا احتمال ہوتا ہے۔ مودی سرکار اور بھارتی فوج دونوں پر کچھ ایسا ہی وقت آیا ہوا ہے اور فضائیہ پر تو جیسے قدرت نے وختا ڈالا ہوا ہے۔ اکنامک ٹائمز نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارتی فضائیہ کے لڑاکا طیارے پاکستانی جیٹس سے ڈاگ فائٹ کی تیاری کر رہے تھے‘ تب یعنی ہائی الرٹ جاری کردیئے جانے کے بعد ایک لڑاکا ہیلی کاپٹر خاصی کم رفتار سے نیچی پرواز کرتا ہوا سری نگر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ راڈار پر پورے علاقے کا جائزہ لینے والوں نے ہیلی کاپٹر کی نیچی اور کم رفتار والی پرواز کو دشمن کے کسی ڈرون کی پرواز سے تعبیر کیا اور اسرائیلی ساخت کا میزائل داغ دیا! بات کچھ یوں بھی ہے کہ ہیلی کاپٹر کا پائلٹ اپنے اور دشمن کے ایئر کرافٹس میں فرق بتانے والے سسٹم آئی ایف ایف کو آن کرنا بھول گیا تھا! جتنی دیر میں معاملہ واضح ہوتا‘ میزائل کام دکھا چکا تھا۔
بھارتی فضائیہ نے کہا ہے کہ اس معاملے میں جو بھی ذمہ دار نکلا‘ اُس کے خلاف سخت ترین کارروائی سے ذرا بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔ بھارتی حکومت نے اپنے ہی ہیلی کاپٹر کی تباہی کا معاملہ طشت از بام ہونے پر بھی چُپ سادھ لی ہے۔ چینلز بھی حیران ہیں کہ اپنے ہی ہیلی کاپٹر کی تباہی کا ''کریڈٹ‘‘ اپنی فضائیہ کو دیں یا نہ دیں! پاکستان نے تو خیر 27 فروری ہی کو کہہ دیا تھا کہ ہیلی کاپٹر کی تباہی سے پاکستانی لڑاکا طیاروں کے مشن کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
کیا اب بھی بھارت کے پالیسی میکرز ہوش کے ناخن نہیں لیں گے؟ اب تو یہ بھی ثابت ہوگیا کہ شدید بحرانی کیفیت میں جن کے ہاتھ پیر پُھول جاتے ہیں‘ اُن سے کسی بڑے اور فیصلہ کن کارنامے کی توقع رکھنا حماقت کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ یہ سمجھا جارہا تھا کہ بھارتی فوج کے بڑے حجم اور ہتھیاروں کی زیادہ تعداد کے بل پر روایتی جنگ میں پاکستان کو نیچا دکھانا بھارت کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوگا۔ اب معلوم ہوا کہ یہ بھی محض دیوانے کا خواب ہے۔ شدید بحرانی کیفیت میں جو فوج طے شدہ طریق کار پر بھی پوری سختی اور قطعیت کے ساتھ عمل نہ کرسکے‘ اُس سے کسی بڑے معرکے میں سُرخ رُو ہونے کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ ثابت ہوا کہ کوّا صرف بالا کوٹ میں نہیں مارا گیا۔ بڈگام میں بھی بھارتی فوج نے عملاً کوّا ہی مارا !