تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     05-04-2019

شکیل عادل زادہ کا شکوہ

وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ صبح اٹھا تو شکیل عادل زادہ صاحب کا میسج دیکھا۔ میسج شاید انہوں نے اقبال دیوان پر کالم پڑھ کر بھیجا تھا۔ انہوں نے مجھ پر زیادہ الفاظ ضائع کرنے مناسب نہیں سمجھے بس اتنا لکھ بھیجا ''ہم بھی پڑے تھے راہوں میں‘‘۔ اس میسج نے میرے اندر مجرمانہ احساسات پیدا کر دیے۔ وجہ یہ نہیں کہ شکیل عادل زادہ میرے ذہن میں نہ تھے یا میں بھول گیا تھا‘ دو تین دفعہ کراچی میں سوچا بھی کہ ان سے ملنا چاہیے۔ جب میرا نہاری کھانے کو دل چاہ رہا تھا اور اقبال دیوان تین چار آپشنز دے رہے تھے تو میرے ذہن میں چار برس پہلے کی وہ دوپہر بھی آئی جب شکیل عادل زادہ سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے کہا تھا کہ اگلی دفعہ کراچی آئیں گے تو شام ان کے پاس گزرے گی اور وہ نہاری کا بندوبست خود کریں گے۔ شکیل عادل زادہ کے ساتھ مشہور اینکر انیق احمد بھی تھے اور یہی طے پایا تھا کہ نہاری کا بندوبست گھر پر ہو گا۔
پھر کچھ ایسا ہوا کہ چار سال تک کراچی جانا ہی نہ ہوا۔ کسی نے کراچی بلایا نہ میرا دل چاہا۔ پچھلی دفعہ کراچی جا کر دل بہت خراب ہوا تھا‘ لہٰذا اس دفعہ بھی ذہن میں وہی تصویر تھی۔ آبادی اتنی بڑھ گئی ہے۔ ہر طرف شور شرابہ‘ بے ہنگم ٹریفک اور ہڑبونگ مچی ہوئی تھی۔ اس لیے جب بھی کراچی جانا ہوا تو ذہن میں یہی ہوتا کہ ایک رات گزارنی ہے اور واپسی کی دوڑ لگانی ہے۔ ایک دفعہ سوچا بھی کہ اقبال دیوان سے کہوں کہ شکیل عادل زادہ سے اپنا ایک پرانا وعدہ ہے وہ پورا کرتے ہیں۔ اس دوران سارہ حسین کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا: آپ ملے بغیر نہیں جا سکتے۔ سارہ حسین سے ملاقات ہوئی تو وہ میرے لیے منٹو اور غالب پر لکھا گیا خوبصورت ناول ''دوزخ نامہ‘‘ اور چند دیگر اہم کتابیں بھی ساتھ لے آئیں۔ اب بیٹھا بہانے سوچ رہا ہوں کہ شکیل عادل زادہ سے کیوں نہ ملا؟ کوئی خاص بہانہ ذہن میں نہیں آرہا۔ 
ایک ایسا بندہ جس سے تعارف دو تین دہائیاں پہلے گائوں میں ہوا تھا‘ جہاں سلیم بھائی لیہ شہر سے شام کو اخبارات کے ساتھ سسپنس‘ جاسوسی ڈائجسٹ لاتے تھے۔ سب رنگ کا طویل انتظار ہوتا تھا۔ جب میرا کروڑ سکول میں داخلہ ہوا تو میں بھی روزانہ لیہ آنے جانے لگ گیا۔ وہاں ایک نیوز ایجنسی پر سلیم بھائی کا کھاتہ چلتا تھا۔ میں آتے جاتے وہیں سے سپنس اور جاسوسی رسالہ لے جاتا۔ پھاٹک کے قریب واقع اس اکلوتی نیوز ایجنسی کے مالک نثار عادل کی بھی اپنی بات تھی۔ بظاہر وہ سخت لگتے تھے لیکن میرے ساتھ اچھا سلوک کرتے۔ جب میں دیکھتا کہ نئے ماہ کا رسالہ آ گیا ہے تو للچائی نظروں سے رسالے کو کافی دیر تک تکتا رہتا یا یونہی صفحات الٹتا رہتا۔ میرا ذہن اس شمارے میں پچھلی کہانیوں کے سنسنی خیز اختتام میں پھنسا ہوتا تھا‘ یہ کہ احمد اقبال کے قلم سے لکھے گئے شاہکار سلسلے شکاری‘ اقلیم علیم کا موت کے سوداگر‘ جبار توقیر کا گمراہ‘ شوکت صدیقی کا جانگلوس یا پھر محی الدین نواب کے دیوتا میں اب کیا نیا ہوگا؟ پچھلی قسط جس سنسنی خیزی پر ختم ہوئی تھی اس سے آگے کیا ہوا ہوگا؟ اس سے بڑھ کر انتظار سسپنسں اور سب رنگ کے سلسلے ''بازی گر‘‘ کا ہوتا تھا۔ استاد بٹھل اور بابر زمان کے معاملات کچھ ایسے تھے کہ ان کا تین سال تک انتظار کرنا قیامت کا سا انتظار تھا۔ بازی گر شکیل عادل زادہ لکھتے تھے۔ جب میں ان رسالوں کے سرورق دیکھ رہا ہوتا تو نثار عادل مجھے سخت نظروں سے دیکھتے اور پوچھتے: سلیم کے بھائی ہو؟ میں معصوم سا منہ بنا کر کہتا: جی۔ میری کوشش ہوتی‘ انہیں میری شکل پر ترس آئے اور وہ یہ رسالہ مجھے دے دیں۔ ایک آدھ دفعہ تو میں نے کہہ دیا کہ سلیم بھائی نے کہا تھا کہ سکول سے واپس جاتے ہوئے سسپنس یا جاسوسی لیتے جانا۔ وہ کچھ دیر مجھے مشکوک نظروں سے دیکھتے اور پھر رسالہ مجھے دے دیتے یا انکار کر دیتے۔ یہ ان کے موڈ پہ منحصر ہوتا۔ بس میں سارا راستہ پڑھتا جاتا تھا کیونکہ مجھے علم ہوتا تھا کہ شام تک بھائی نے آجانا ہے اور پھر وہ پڑھیں گے‘ پھر بہن پڑھے گی اور جب تک میری باری آئے گی اماں نے ڈنڈا اٹھا لینا ہے کہ سو جائو صبح سکول جانا ہے۔ اماں کو میرا رسالے پڑھنا اچھا نہ لگتا تھا۔ جب نثار عادل نہ ہوتے اور ان کے والد ایجنسی پر ہوتے‘ اس دن مجھے علم ہوتا تھا کہ آج میری دال نہیں گلنے والی۔ ایک دن میں نے ہمت کر کے کہہ ہی دیا: انکل یہ رسالہ مجھے دے دیں‘ میں سلیم کا بھائی ہوں۔ ان کو غصہ بڑھ گیا اور بولے: تم سکول پڑھتے ہو اور ابھی سے رسالے پڑھنے شروع کر دیے ہیں‘ آنے دو سلیم کو اس کو بھی ڈانٹتا ہوں کہ چھوٹے بھائی کو بھی اس کام پر لگا دیا ہے؛ تاہم نثار عادل کا ایک اور بھائی جسے سب پیار سے ''کاکا‘‘ کہتے تھے‘ مجھے اشارہ کرتا کہ تم تھوڑا سا سڑک پر آگے چلے جائو۔ وہ اپنے باپ کی نظروں سے چرا کر رسالہ اٹھا کر مجھے دیتا اور کہتا کہ اب دوڑ لگائو‘ اگر بابا جی نے دیکھ لیا تو دونوں کو پھینٹی لگے گی۔ کبھی کبھار جب نثار عادل کا موڈ خراب ہوتا اور وہ رسالہ دینے سے انکاری ہو جاتے پھر کاکا میرے کام آتا اور ''کاکا‘‘ کا اللہ بھلا کرے‘ اگلے پانچ سال تک وہ میرے کام آتا رہا‘ جب تک میں نے لیہ کالج سے گریجویشن نہیں کر لی۔ پھر سلیم بھائی نے نثار عادل اور ان کے والد صاحب سے کہہ دیا کہ اس کو رسالے دے دیا کریں‘ بل وہ دیا کریں گے۔ 
سب رنگ میں نے دیر سے پڑھنا شروع کیا تھا لیکن جب شروع کیا تو پھر اس میں غرق ہوتا چلا گیا۔ مجھے بے چینی شروع ہوتی گئی کہ میں نے بہت سی قسطیں مس کی ہوئی تھیں‘ خصوصاً بازی گر اور جانگلوس کی۔ اب مسئلہ پیدا ہو گیا کہ باقی قسطیں کیسے اور کہاں سے پڑھی جائیں؟ اب مجھے یاد نہیں کہ بازی گر کے وہ پہلے حصے میں نے کہاں سے خریدے‘ جنہیں مسلسل کئی دنوں تک پڑھ کر سب رنگ میں چھپنے والی قسطوں تک پہنچ گیا تھا۔ گائوں کی ان دوپہروں میں گھر کے برآمدے میں لیٹ کر سب رنگ‘ جاسوسی اور سب رنگ یا عمران ڈائجسٹ پڑھنے کا رومانس اب بھی سر پر سوار ہے۔ ابھی گائوں کے گھر جائوں تو وہاں برآمدے کو تکتا رہتا ہوں جہاں یہ سب رسالے گرمیوں کی دوپہر میں چارپائی پر لیٹ کر پڑھتا تھا۔ پھر جب بازی گر سے عشق شروع ہوا تو شکیل عادل زادہ سے بھی وہی عشق شروع ہو گیا۔ کبھی نہ سوچا تھا کہ ایک دن ان سے ملاقات بھی ہوگی۔ اور پھر کراچی میں ملاقات ہو گئی۔ انکساری سے بھرا ہوا خوبصورت انسان۔ مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ جو جتنا پڑھ لکھ جاتا ہے اتنی انکساری اور انسانیت سے بھر جاتا ہے۔ دھیمے لہجے میں گفتگو اور دوسرے کو احساس تک نہ ہو کہ انہوں نے زندگی میں کیا کیا بڑے کام کیے ہیں۔ رہی سہی کسر ہمارے دوست اور سابق وائس چانسلر علامہ اقبال یونیورسٹی شاہد صدیقی نے پوری کر دی۔ بلکہ یوں کہیے کہ شاہد صدیقی نے ہمارے تمام خواب پورے کیے جو گائوں میں دیکھتے تھے۔ انہوں نے نہ صرف ہماری ملاقاتیں شکیل عادل زادہ سے کرائیں بلکہ اوپن یونیورسٹی میں انہیں سامنے بٹھا کر ایک طویل انٹرویو بھی ریکارڈ کرایا۔
شکیل عادل زادہ اس نسل سے ہیں‘ جس نے پنجاب کے دیہاتیوں کی ہمارے جیسی پہلی نسلوں کو لٹریچر اور کہانی کی طرف متوجہ کیا‘ جن کے والدین کبھی سکول نہیں گئے تھے۔ کراچی کے ادیبوں‘ شاعروں اور رسالوں کا پنجاب میں شعور پھیلانے میں اہم کردار ہے۔ کراچی میں شکیل عادل زادہ‘ معراج رسول‘ اقبال پاریکھ اور محمود احمد مودی جیسے لوگ اور لکھاری نہ ہوتے تو پنجاب کے دیہاتوں میں ہم جیسے شکاری‘ موت کے سوداگر‘ گمراہ‘ دیوتا‘ غلام روحیں‘ انکا‘ اقابلا‘ جانگلوس یا بازیگر جیسی تحریروں سے محروم رہتے۔ اب انہی شکیل عادل زادہ کا ایک لائن میںگلہ پہنچا ہے‘ جس نے ایک تیز نوکیلے خنجر جیسا کام دکھایا ہے۔ وہی شکیل عادل زادہ جن کے استاد بٹھل اور بابر زمان کی کہانیوں کا گائوں کی تیز دوپہروں میں تین تین سال انتظار کرتے تھے۔ ہم انسان بھی کتنا جلدی رنگ بدل جاتے ہیں۔ یہ بے وفائی ہماری جبلت میں کیوں ہے؟ پہلی دفعہ احساس ہوا شاید میں بھی خود غرض ہوں۔ سنا تھا معشوق دھوکہ دیتے ہیں لیکن یہاں تو مجھ جیسا شکیل عادل زادہ کا ایک عاشق دن دیہاڑے انہیں دھوکہ دے آیا تھا۔ خود پر شدید غصہ ہے اور شرمندگی بھی! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved