میں یہ باتیں اس قدر یقین کے ساتھ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ مستند معلومات اور اطلاعات کی بنا پر قوی امکان ہے کہ پاکستانی سمندروں سے تیل کی صورت میں قدرت کے خزانے ایک نعمت اور انعام کے طور پر ہم سب پر نچھاور ہونے والے ہیں۔ پاکستان روز اول سے ہی اپنے مخصوص جغرافیائی محل وقوع کی بنا پر دنیا بھر میں ایشیا کے ایک اہم ملک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے زیر زمین اور سمندری حدود میں تیل کے ذخائر کی ممکنہ دریافت کی بازگشت نے سب کو اپنی جانب متوجہ کر لیا ہے۔ پاکستان میں اس سے پہلے جیسے ہی آئل ڈرلنگ کا کام شروع ہوتا تھا تو سندھ اور بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال اس قدر سنگین اور پُر خطر بنا دی جاتی تھی کہ مختلف جگہوں پر تیل کی تلاش کے لئے ڈرلنگ مشینوں پر کام کرنے والے ملکی اور غیر ملکی انجینئرز اور ماہرین کو مشکلات اور امن و امان کے بد ترین مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور وہ ان پروجیکٹس پر کام کی رفتار کم کرنے‘ کسی جگہ کام بند کرنے اور کچھ سائٹس پر سرگرمیاںادھوری چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ تیل کی تلاش کے لئے کراچی سے اندرون سندھ اور بلوچستان جانے والوں کو چھوٹے جہازوں کے ذریعے جس طرح سکیورٹی گارڈز کے ایک ہجوم کی نگرانی میں بھیجا اور لایا جاتا تھا‘ وہ تھکا دینے والا اور تکلیف دہ عمل کسی سے پوشیدہ نہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ تیل کی تلاش کا کام بند ہوتے ہی وہ کروڑوں ڈالر بھی نہ جانے کدھر ضائع ہو جاتے‘ جو اس مقصد کے لئے مختص کئے جاتے تھے۔ پاکستان اور خاص طور پر کراچی، اندرون سندھ اور بلوچستان کے چند مخصوص علاقوں میں دہشت گردی کسی خود رو پودے کی طرح نہیں اُگتی تھی بلکہ اس کے پیچھے ہمارے دشمن ملک کی ایجنسیاں‘ ان کے نام پر مختلف بھیس بدلے ہوئے ایجنٹ اور بھاری سرمایہ حرکت میں آتا رہتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ توانائی کے بحران کے شکار پاکستان میں تیل کی تلاش کے منصوبے ٹھپ ہوتے گئے اور کچھ بد بخت ایسے تھے‘ جو اس مقصد کے لئے رکھے گئے کروڑہا ڈالر شیرِ مادر سمجھ کر ہڑپ کرتے رہے۔
گز شتہ دو تین ماہ سے پاکستان کی سمندری حدود میں تیل کی تلاش کیلئے کام کرنے والی امریکی اور اطالوی کمپنیوں کے ساتھ منسلک کچھ مقامی انجینئرز اور چند دوسرے ذرائع کے علاوہ حکومتی ایوانوں سے بھی میڈیا میں یہ خبریں دی جا رہی تھیں کہ بہت جلد سمندر سے تیل نکلنے کی خوشخبری قوم کو سنائی دینے والی ہے۔ اس پر کچھ سیاسی طاقتیں مذاق اڑانا شروع ہو گئی ہیں۔ ایک لمحے کے لئے تصور کر لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پاکستانی قوم پر اپنا فضل و کرم کرتے ہوئے سمندر سے تیل نکلنے کی ان کاوشوں کو بارآور کر نے ہی والا ہے تو یہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ اس پورے خطے کے لئے ایک Game Changer ثابت ہو گا۔ توانائی کے اس ذریعے سے ریجن کے ممالک میں اقتصادی تعاون فروغ پائے گا۔ کچھ لوگ‘ جنہوں نے چنیوٹ میں لوہا نکال کر کروڑوں روپے کی لاگت سے وہاں ایک تقریب رونمائی کرتے ہوئے اپنے سیاسی مقاصد اور انتخابی جھوٹوں کا مینا بازار لگائے رکھا‘ تیل کی تلاش کی کامیابی کی اس خبر کا مذاق اڑانے میں سب سے آگے ہیں۔ وہ لوگ جو چنیوٹ میں دس سے زیادہ ممالک کے مندوبین کو سامنے بٹھا کر لوہے اور سونے کے ذخیرے ڈھونڈ نکالنے کے اعلانات کرتے رہے اور پھر دو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے پر بھی لوہا اور سونا تو کیا‘ وہاں سے سکریپ کا ایک ٹکڑا بھی نہ نکال سکے‘ وہی آج تیل کی تلاش کو ایک تماشہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر چنیوٹ سے لوہا یا سونا نکل آتا تو یہ کسی فرد واحد یا خاندان کی ملکیت نہیں ہونا تھا۔ اسی طرح اگر سمندر سے تیل نکل آتا ہے تو یہ کسی ایک کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا اثاثہ ہو گا۔ تیل نکلنے کی خوشخبری کسی ایک کے لئے نہیں‘ کسی خاص سیاسی جماعت اور گروہ کے لئے نہیں‘ اس ملک کی بیس کروڑ سے زائد آبادی کے ایک ایک فرد کے لئے ہو گی۔
بد قسمتی یہ ہے کہ ملک کے مخصوص سیاسی حلقے اور ان سے منسلک کچھ ادارے سمندر میں تیل کی تلاش کی ان کوششوں کو کچھ اور ہی رنگ دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ کہیں اس کوشش کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو کہیں ایسا لگ رہا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی طرح قوم کے لئے ایک اچھی امید کے رستوں کو ایک مرتبہ پھر کسی اور طریقے سے بند کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ایسے لوگوں کی معنی خیز باتیں عجیب قسم کے وسوسوں کو جنم دینے لگی ہیں۔ شاید کچھ گروہ اور سیاسی طاقتیں وہی کھیل دہرانا چاہتی ہیں‘ جو کالا باغ ڈیم جیسے پاکستان کی معیشت اور مستقبل کو بہتر بنانے والے منصوبوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئے کھیلے گئے۔ اس وقت بھی کچھ ایسی طاقتیں موجود ہیں جو حالات کو منفی انداز میں پیش کر رہی ہیں اور کراچی سمیت بلوچستان کے سمندری حصوں میں امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے ابہام پیدا کر رہی ہیں۔ گزشتہ ایک دو ماہ میں کراچی میں بڑھتی ہوئی ٹارگٹ کلنگ کی کارروائیوں کو اگر معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا تو پھر اسے سنبھالنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گا۔ کیا یہ بات قابل توجہ اور باعث تشویش نہیں کہ جب بھی پاکستان میں کوئی اہم شخصیت آنے والی ہوتی ہے‘ عالمی اہمیت و افادیت کا حامل کوئی بین الاقوامی ایونٹ ہونا ہوتا ہے یا پاکستان کے کسی قومی دن کی آمد آمد ہوتی ہے‘ لبرٹی چوک لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملے یا کراچی میں مفتی تقی عثمانی جیسی شخصیت کو نشانہ بنانے جیسا کوئی نہ کوئی واقعہ سٹیج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی لئے جیسے جیسے سمندر میں کی جانے والی ڈرلنگ اپنی کامیابی کی جانب بڑھ رہی ہے دشمن کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
تیل کی یہ تلاش اگر کامیاب ہوتی ہے تو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا کو ان ذخائر سے مستفید ہونے کا موقع ملے گا۔ پاکستان کے سمندروں سے تیل نکلنے سے جنوبی ایشیا کے ممالک کو اپنی معاشی مشکلات سے نکلنے میں مدد ملے گی۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہو گا جس کے نتیجے میں تیل سے متعلق مختلف ممالک کی کمپنیاں اور ادارے بھی پاکستان کا رخ کریں گے۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکے گا بلکہ اس سے مزید کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کی راہ ہموار ہو گی۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور غربت میں کمی کے اہداف پورے کرنے کی راہ ہموار ہو سکے گی۔
پاکستان کے سمندر سے تیل کی تلاش کے لئے امریکہ کی تیل سے متعلق بہت بڑی کمپنی EXXON MOBIL اور اٹلی کی مشہور زمانہ کمپنی ENI اپنی فنی مہارت اور تجربے کو بروئے کار لا رہی ہیں اور اپنی کوششوں کے کامیاب ہونے کے انتہائی قریب پہنچ چکی ہیں جس کی خوش خبری جلد ہی ملک و قوم کو ملنے والی ہے۔ امریکی کمپنی کی شمولیت سے امریکہ جیسی بڑی طاقت کو شکوہ نہیں رہے گا کہ اس سے بالا بالا اس کی متحارب طاقتوں کو اس پروجیکٹ سے فائدہ دیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب گوادر میں 20 ارب ڈالر کی لاگت سے آئل ریفائنری لگانے کے معاہدے پر دستخط کر چکا ہے۔ سعودی عرب کی اس قدر بھاری سرمایہ کاری کے بعد خلیجی ممالک بھی پاکستان میں توانائی سے متعلق اپنے پروجیکٹس پر سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہوئے توانائی کے حصول میں تعاون اور اس شعبے کی بہتری کیلئے تکنیکی معاونت فراہم کرنے کی پیش کش کریں گے‘ جو قبول کی جانی چاہئے۔ سعودی عرب کی آئل ریفائنری پاکستانی سمندری حدود سے ملنے والے خام پٹرولیم کو صاف کر کے قابل استعمال بنانے کے بھی کام آئے گی اور ہماری تیل و گیس کی درآمدات کا حجم بھی کم ہو جائے گا‘ جس کا فائدہ ہماری معیشت کو پہنچے گا اور ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر اطمینان بخش حد تک بہتر اور مستحکم ہو جائیں گے‘ جو ظاہر ہے کہ اس وقت نہیں ہیں اور اسی وجہ سے حکومت کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔