اربابِ اقتدار اور اُن کے ترجمان ہر دور میں اپنے مفادات کی حفاظت کا ہنر استعمال کرتے رہے ہیں۔ جب سے تاریخ کا عکس لفظوں اور عبارت کے سانچے میں ڈھلا ہے، یہ روایت ہے کہ حکمران طبقہ اپنا دفاع تلوار سے بھی کرے گا اور حرف سے بھی۔ لالچ اور حرص ہر انسان کی کمزور نفسیات میں رچی بسی ہوتی ہے۔ لیکن اگر اقتدار کی کنجی جیب میں ہو اور خود طاقت کے گھوڑے پر سوار تو خدا کی پناہ۔ عام انسان کی عزت تو کجا، اُسے جان و مال کا تحفظ بھی حاصل نہیں۔ قرونِ وسطیٰ کے حکمران جس سمت لائو لشکر کے ساتھ نکلتے، ہر چیز کو تاراج کر دیتے، قتلِ عام کرتے، غلام بناتے، فصلیں اور انسانی محنت کی کمائی برباد ہوتی، مزاحمت پر جنگ ہوتی، جس کے نتیجے میں مزید خون بہتا، اور یوں فتح کا تاج سجا کر بادشاہ بن جاتے۔ اس کے بعد دربار لگتے، درباری دانشور، شاعر، نام نہاد فلسفی درباروں میں حاضر ہوتے‘ شاہ نوازی کی سند پاتے اور انعام یافتہ ٹھہرتے۔ خوشامدی ہر دور میں نوازے جاتے ہیں۔
موجودہ پاکستان کے شمال اور مغرب کی جانب سے کتنے سپہ سالار آئے، فوج کشی، لشکر اور حملوں کی ایک تاریخ ہے۔ پُرامن آبادیوں کو تاراج کیا گیا۔ مقصد کیا تھا؟ لوٹ مار کرنا، کمزور حکومتِ ہند کا خاتمہ کرنا؟ ظلم، سراسر ظلم۔ وادیِ سندھ میں بھی ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، لیکن اُن پر ہونے والے ظلم کی داستان کون لکھتا۔ عام سندھی پر کیا بیتی؟ اُس کے غلے، مال مویشی کا کیا ہوا؟ اُس کی بیوی، بیٹی‘ بہو یا بہن کہاں گئی؟ ظلم کی کیسی کیسی داستانیں گم ہو گئیں۔
تاریخ کے اوراق جو ہمارے سامنے ہیں، اُن کے مطابق فاتح، سلطان، بادشاہ، شہنشاہ اور جہاں پناہ کے نزدیک عام ستم زدہ شخص (جو اُس وقت شہری نہیں، رعایا تھا) کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہ تھی۔ جس کے پاس تلوار نہیں، اُس کی کوئی عزت نہیں تھی۔ نہ ہی اُسے مرضی سے جینے کا حق تھا۔
تاریخ کو اس طرح پڑھنا نہ بلند نگاہی ہے اور نہ دلنوازی۔ یہ صرف جذباتیت ہے۔ اپنے ہاتھوں تراشے ہوئے بتوں کی پرستش ہے۔ اقتدار کا نشہ ایسا ہے کہ بڑھتا ہی رہتا ہے‘ کبھی گھٹا نہیں۔ اس کا زور کبھی ٹوٹتا نہیں۔ ایک طاقتور دوسرے کا سر کاٹ کر تاج اپنے سر پر سجاتا ہے۔ کردار بدلتے رہتے ہیں، لیکن اقتدار کی جنگ، طاقت کا نشہ، رعونت کی اُڑان اور مظالم کی داستان ویسی ہی رہتی ہے۔ یہ حقائق سب کو معلوم لیکن مذہبی عصبیت تاریخ میں اپنا رنگ بھر دیتی ہے۔ اورنگزیب عالمگیر نے اپنے والد کے ساتھ کیا کیا؟ اور پھر شاہزادہ داراشکوہ۔ اگر وہ بچ جاتا تو شاید ہندوستان اور اس خطے کی تاریخ ہی مختلف ہوتی۔ ڈیوک یونیورسٹی کے جان رچرڈز نے ''سلطنتِ مغلیہ‘‘ میں بہت پتے کی باتیں کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس عظیم سلطنت کے زوال کے دو بنیادی اسباب تھے۔ ایک وہ جانشینی کا کوئی اصول طے نہیں کر پائے تھے، اور دوسرے، مغلیہ خاندان نے اپنے باصلاحیت اور قابل شہزادوں کو تہہ تیغ کر دیا تھا۔ حرص، لالچ اور حکمرانی کا وحشیانہ تصور یہ تھا کہ ہاتھ میں تلوار ہو اور ہم افتادگانِ خاک پر حکومت کرتے رہیں۔ یہاں تک کہ حکمرانی کا حق راسخ کرنے کے لیے حکمِ خداوندی اور مشیتِ ایزدی جیسے فلسفوں کو وضع کیا گیا۔ اقتدار کو عقیدے کا ستون میسر آ گیا۔ کہا گیا کہ حکمران خالق کی تائید اور منشا کے بغیر تخت پر براجمان نہیں ہو سکتے۔ درباری مؤرخ اور دانشور کئی صدیوں تک اسی وفاداری کی تبلیغ کرتے رہے۔
جب رشی کے فاقوں سے برہمن کا طلسم نہ ٹوٹا تو آخر کار مغرب نے وہ راز پا لیا جس سے عہدِ جدید کی ترتیب ممکن ہوئی۔ ظلِ الٰہی نہیں، یہ حکمران تو چور ہیں۔ لبادے کی چمک کے پیچھے سیاہ دل ہے۔ محلوں کا رعب ہے، لیکن جب عساکر حملہ آور ہوتی ہیں تو یہ اونچے مینار عوام کی جان و مال کا تحفظ نہیں کر پاتے۔ یورپ قرونِ وسطیٰ کے اندھیروں سے نکلا۔ آنکھیں، ذہن، دل کے دریچے وا کیے۔ جدوجہد کی، علم حاصل کیا اور پھر یکے بعد دیگرے راز بے نقاب ہونے لگے۔
طے یہ پایا کہ فطرت کا قانون یہ نہیں کہ بادشاہ زمین پر خدا کا سایہ ہے۔ نہیں، وہ بھی ہمارے جیسا انسان ہے۔ اُس کی زندگی اور اس کے تقاضے ہم سے مختلف نہیں۔ وہ بھی زندگی گزار کے مر جاتا ہے۔ تو پھر یہ حکمران طبقات کیسے؟ انسان برابر ہیں، تو پھر ہم کیوں نہیں؟ یہ ذات پات اور قبائلی تفریق۔ کیا ان کے نام پر کھنچی ہوئی لکیریں حقیقی ہیں؟ مغرب سوچتا رہا، سوچتا رہا، یہاں تک کہ وہ کسی نتیجے پر پہنچ کر اصول طے کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اصول یہ کہ ہم سب برابر ہیں۔ یاد رکھیں، یہ معمولی بات نہیں۔ اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے انسان نے اپنے خون سے بہت طویل مسافت طے کی ہے۔
اب انسان نے دوسری تدبیر کی۔ اگر ہم سب برابر ہیں تو پھر حکمرانی کا حق بھی سب کو حاصل ہے۔ اپنی ذات میں ہر انسان مقتدر ہے۔ زندگی کیسی بسر کرنی ہے، یہ بات وہ خود طے کرے گا۔ اپنی ترجیحات طے کرنے کا بھی اُسے حق حاصل ہے۔ پھر وہ دور شروع ہوا جس میں عام انسان مقتدر قرار پایا۔ اب وہ رعایا نہیں، شہری تھا۔ ایک ریاست کا شہری۔ حکومت وہ ہوگی جسے شہریوں کی نمائندگی حاصل ہوگی۔ قانون اکثریت کی مرضی اور منشا سے بنے گا۔ اور پھر حکومت ایک محدود وقت کے لیے ہوگی۔ قائم ہونے والی حکومت شہریوں کے مفاد کے لیے ایک آئین کے تحت، نہ کہ مرضی سے، بندوبست چلائے گی، اور اس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا کہ وہ عوام کی خدمتگار ہے یا بدعنوان۔
تدبیر یہ تھی کہ حکومت کے اختیارات کو محدود کیا جائے۔ اس کیلئے ایک عمرانی معاہدہ وضع کیا گیا۔ یہ ایک پیچیدہ فلسفہ ہے جو جمہوری نظام کی بنیاد بنا۔ اس عمرانی معاہدے کی ٹھوس شکل آئین ہے۔ آئین حکمرانوں کو قانون کے تابع کرتا ہے۔ اس سے من مانی اور شخصی حکومت کا فرسودہ تصور ختم ہوا۔ تین سوسالوں پر محیط اس دور نے انسان اور معاشرے کی زندگی میں غلام اور آقا کا تصور نکال دیا۔ یہ ایک بے مثال فکری انقلاب تھا۔ اس دور کا غلام، بااختیار تھا، اور حکمران کو اس بااختیار شخص کی تائید حاصل کرنے کے جتن کرنے تھے۔ اب ''غلام‘‘ ''آقا ساز‘‘ بن چکا تھا۔ عام آدمی سے زیادہ حکمرانوں کا احتساب ہونے لگا۔ حکمران بدعنوان ثابت ہوجائیں تو وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے دکھائی دیتے ہیں۔
اب اپنے ہاں کی خبر لیجیے۔ یہاں افتادگانِ خاک، عام آدمی‘ کو دھن، دولت اور طاقت کے زور پر زیر رکھنے کا رواج بادشاہت سے گزر کر موجودہ بندوبست میں بھی سرایت کر چکا ہے۔ یہاں دستور کا دستورِ زباں بندی کے ساتھ عقد ہوتا رہا۔ آئین توڑنے پرآواز اٹھانے والوںپر آئین شکنی کے الزام میں کوڑے برسائے گئے۔ ملک کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں سے مزاحمتی علم بلند نہ ہوا ہو۔ لوگوں نے سینوں پر گولیاں کھائی ہیں، قیدوبند بھگتی ہے، پھانسیوں پر جھولے ہیں۔ ہم مزاحمت کا ایک درخشاں باب رکھتے ہیں۔ جنوں کی خونچکاں حکایات ہم نے بھی رقم کی ہیں، سوئے دار ہم بھی ہنسی خوشی گئے ہیں۔ لیکن غلطی کہاں ہوگئی؟ اس مزاحمت کے ثمرات کہاں چلے گئے؟
درسگاہوں میں موجود اساتذہ، جن میں راقم الحروف بھی شامل ہے، پر ایک قرض ہے۔ جمہوریت اور شخصی آزادی کے لیے کی گئی جدوجہد رقم کرنی ہوگی۔ نئی نسل کو بتانا ہوگاکہ یہ عمرانی معاہدہ کیا ہے، اس میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ آج ہم درباری یا رعایا نہیں، اس ریاست کے شہری ہیں۔ ہم اپنا ووٹ ضرور استعمال کرتے ہیں، اس کے بعد حکمرانوں کے درباری گویے بن جانا زیب نہیں دیتا۔
بہت پرانی بات نہیں، آج بھی کل کے لٹیرے حکمرانوں کا دفاع کرنے کیلئے میڈیا پر درباریوں کا ایک ''منظم لشکر‘‘ موجود ہے۔ انہیں نوازے کے ڈھنگ جدید ہیں اور ''قانونی‘‘ بھی۔ آواز کا جادو اُن کی میراث، مائیک ان کے پاس، تجزیے ان کے، شامیں ان کی، اور سکرینیں ان کی۔ وہ خود فریبی، جو دل کی سب سے بڑی بیماری ہے، کے یہ نگہبان ہیں۔ معاوضہ کم نہیں ملتا۔
لیکن اس چلن سے ویران تو صرف مملکت ہی ہوتی ہے۔ طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں، طاقت بن جاتی ہے۔ ووٹ بھی طاقت اور زر کی ہوا پہچان لیتا ہے۔ اب یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے۔ یہ دربار کب تک سجے گا، ہم کب تک درباری رہیں گے؟ یہ ریاست مسند نشینوں کیلئے ہے یا افتادگانِ خاک کیلئے؟ ضروری ہے کہ احتساب اور قانون اپنا راستہ بنائے۔ شہریوں کو اُن کے حقوق میسر آئیں تا کہ اُنہیں نعروں کی بجائے عملی طور پر احساس ہو کہ وہ ایک آزاد ریاست کے شہری ہیں۔