تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     06-04-2019

افتخار مجاز بھی رخصت ہوئے

نظام بلاک علامہ اقبال ٹاؤن کی مسجد عثمان کا ہال اور صحن سو گواروں سے بھر گیا تھا ،ورکنگ ڈے تھا اور دوپہر میںبھرپور مصروفیات کا وقت تھا لیکن وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے یارِ طرحدارکو آخری سفر پر روانہ کرنے چلے آئے تھے۔ اسے ریٹائر ہوئے ساڑھے پانچ سال ہو چکے تھے، پسماندگان میں بھی کوئی نہیں تھا، جس سے ان میں سے کسی کا کوئی مفاد وابستہ ہو۔ وہ اپنے پیچھے بے پناہ محبت کرنے والی بیگم اور چار بیٹیاں چھوڑ گیا تھا ،جن کی اعلیٰ تعلیم و تربیت میں دونوں نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ اس نے ساری عمرمحبتیں بانٹیں اور اب وہ سب ان محبتوں کا قرض چکانے چلے آئے تھے۔
افتخار مجاز نے پنجاب یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹرز کرنے کے بعد 1980ء میں اسسٹنٹ پروڈیوسرکرنٹ افیئرزکے طور پر پاکستان ٹیلی ویژن جوائن کیا ۔ یہ پی ٹی وی کا سنہرا دورتھا۔ سرکاری کنٹرول کی وجہ سے نیوز اور کرنٹ افیئرز کے حوالے سے Limitationsموجود تھیں، لیکن زبان و بیان اور پریزنٹیشن کے معیارپر کوئی سمجھوتہ نہ ہوتا۔ ڈراموں کا معیار اتنا اعلیٰ کہ انڈین ڈرامے ان کی گرد کو بھی نہ پہنچتے۔ سر حد کے اس پار جہا ں تک پی ٹی وی کی رینج تھی، اس کے ڈرامے دیکھنے کے لیے بازار سنسان ہو جاتے۔پرائیویٹ چینلزنہیں تھے چنانچہ مسابقت کا کوئی چیلنج درپیش نہ تھا، لیکن پی ٹی وی کے وابستگان کی اپنے کام سے ، اپنے ادارے سے کمٹ منٹ بے پناہ تھی تاہم یہ گئے زمانوں کی باتیں ہیں اور افتخار مجاز اسی زمانے کے آدمی تھے،عہدِ گم گشتہ کی تصویر۔ وہ جو جہانزیب ساحر نے کہاتھا:
ہماری آنکھیں اداس غزلوں کا قافیہ ہیں
ہمارے چہرے گئے زمانوں کی شاعری ہے
افتخار مجاز کی پہلی پوسٹنگ چکلالہ سٹیشن پر تھی، اس کے بعد لاہور چلے آئے اور سارا عرصہ یہاں گزار دیا۔ اپنے 34سالہ کیرئیر میں بے شمار تاریخی پروگرام پروڈیوس کئے، ''جائزہ‘‘، ''سوچ وچار‘‘،''ڈیلی مارننگ ٹرانسمیشن‘‘، سیریز ''آئین پاکستان‘‘، ''سال بہ سال‘‘ سمیت کئی ڈاکومینٹریز، رپورٹیں اور لائیو رپورٹنگ کے پروگرام ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ دسمبر 2014میں ریٹائر منٹ کے وقت لاہور جیسے اہم سینٹر پر ہیڈ آف کرنٹ افیئرز تھے۔
وہ سفارش یا خوشا مد پر نہیں ، محنت اور صلاحیت پر یقین رکھتے تھے۔ اسی چیز نے اِن میں ایک خاص طرح کی خود داری اور بے نیازی پیدا کر دی تھی۔ ہیڈ آف کرنٹ افیئرز کے طور پر پروموشن ہوئی تو جنرل منیجر کا پیغام ملا کہ اس کے دفتر آ کر'' لیٹر ‘‘لے جائیں، افتخار مجاز کا جواب تھا: میں یہ لیٹر اپنی ٹیبل پر کیوں وصول نہ کروں؟ اسی '' جھگڑے‘‘ میں کافی عرصہ اپنے نئے عہدے کا چارج نہ سنبھال سکے۔ نوجوانوں کی بطور خاص حوصلہ افزائی کرتے، انہیں کنٹرول روم میں اپنے ساتھ بٹھا کر سکھاتے۔ کسی غلطی پر پیار سے سمجھاتے کہ ان کی خود اعتمادی متاثر نہ ہو۔وہ جو احمد مشتاق نے کہا ؎
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
کتاب سے انہیں عشق تھا۔ تنخواہ کا خاصا معقول حصہ اس محبوبہ کی نذر کر دیتے۔ بچپن ہی سے گھریلو ماحول علمی ذوق اور ادبی صلاحیتوں کے لیے ساز گار تھا، صاحبِ اسلوب شاعر اعزاز احمد آذر ان کے بڑے بھائی تھے(آذر نے ٹی وی پر کئی علمی و ادبی پروگرام بھی کئے۔) افتخار کو قدیم و جدید شعرا کے بلا مبالغہ ہزاروں اشعار ازبر تھے۔ خود بھی حسبِ موقع اور حسبِ ضرورت مشقِ سخن فرما لیتے۔ لیکن چھپنے چھپانے کو جان کا روگ نہ بنایا ۔
ملازمت کے آخری بر سوں میں ان کی شخصیت میں ایک بڑی تبدیلی آئی۔یونیورسٹی لائف اور پھر پی ٹی وی میں برسوں ''لبرل‘‘ رہے ، لیکن اس میں مذہب بیزاری نہیں تھی بلکہ کئی حوالوں سے ''زاہدِ خشک‘‘ ہی رہے ۔ آخری برسوں میں چہرے کو سنتِ نبویﷺ سے مزین کر لیا۔ باوضو رہنے لگے، نماز کی باجماعت ادائیگی شعار کی۔ نماز جمعہ کا خصوصی اہتمام کرتے۔ مولوی صاحب کی تقریر شروع ہونے سے پہلے ہی ، پہلی صف میں جا بیٹھتے۔ حضورﷺ کے ذکر پر آبدیدہ ہو جاتے۔ طبیعت میں ملائمت کا غلبہ ہو گیا۔ کہتے ہیں، اس قلبِ ماہیئت میں لاہور کے صاحبِ کشف بزرگ سید سر فراز شاہ صاحب اور سیاہ پوش بابا یحییٰ کی صحبتوں کا بڑا دخل تھا۔
سو گواروں کی محفل میں ہر کوئی اپنی اپنی یادیں تازہ کر رہا تھا۔جمیل اطہر صاحب نے دلچسپ بات بتائی ۔ ان کے اخبار کے چودہ اگست کے خصوصی ایڈیشن میں صفحہ اول پر ان کا اپنا اور صفحہ آخر پر ان کے والد قاضی سراج الدین سر ہندی کا آرٹیکل شائع ہوا۔ اسلامی شعر و ادب کی نامور شخصیت جناب نعیم صدیقی کی نظم بھی صفحہ آخر پر تھی۔ افتخار مجاز نے فون اٹھایا اور اپنا ''احتجاج‘‘ ریکارڈ کرانے میں تا خیر نہ کی، قاضی سراج الدین سرہندی کا مضمون ( اور نعیم صدیقی کی نظم بھی) صفحہ اول پر اور جمیل اطہر کا مضمون صفحہ آخر پر ہونا چاہیے تھا۔
ریٹائرمنٹ کے ماہ و سال میں بھی افتخار مجاز نے خوب انجوائے کیا، جیسے زندگی کے ایک ایک لمحے کا بھر پور لطف اٹھانا چاہتے ہوں۔ شہرکی ادبی تقاریب کا مستقل حصہ ہوتے۔مولاناظفرعلی خاں ٹرسٹ میں ڈاکٹر شفیق جالندھری اور تاثیر مصطفیٰ نے ہفتہ وار فکری نشست کا سلسلہ شروع کیا، تو اس میں شرکت کو بھی یقینی بناتے۔ الطاف صاحب کے ''پائنا‘‘ کے سیمینارز کی نظامت بھی کی۔ گزشتہ سال اکتوبر میں فالج نے آلیا( دل کا عارضہ پہلے سے تھا) اس دوران طبیعت سنبھلتی اور بگڑتی رہی ۔ دواور تین اپریل کی درمیانی شب رختِ سفر باندھا 27رجب کی شب، قبرمیں پہلی شب تھی۔ بڑے بھائی اعزاز احمد آذر کو بھی چار سال قبل معراج کی مقدس شب ہی نصیب ہوئی تھی۔
اور اب کچھ ذکر''داتاصاحب کے لنگر‘‘ اور صوبائی وزیر اوقاف پیر سعید الحسن شاہ کی تصوف ومعرفت سے لبریز گفتگو کا۔پیر ضیاء الحق نقشبندی ، ہمارے لیے چھوٹے بھائیوں جیسے ہیں۔ جامعہ نعیمیہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تنظیم اتحاد امت کی بنا ڈالی، سی ایس ایس کے طلبہ کے لیے اتحاد امت اسلامک سینٹر کے نام سے مفت اکیڈمی بھی چلا تے ہیں۔ ان دنوں پنجاب حکومت کے متحدہ علماء بورڈ کے کوارڈی نیٹر بھی ہیں۔ داتا دربار میں وزیر اوقاف کے ساتھ اخبار نویسوں کے لیے اس لنگر کا اہتمام ہم جیسوں کے لیے ایک ''روحانی‘‘ تجربہ بھی تھا۔ پیر سعید الحسن کے جو ہر گفتگو میں کھلتے ہیں۔ جدیدو قدیم علوم پرگہری نظر رکھتے ہیں۔ امریکی لہجے میں انگریزی پربھی خاص دسترس ہے(لیکن اس کا بلا ضرورت استعمال نہیں کرتے) 2002کا الیکشن نارووال کی تحصیل ظفر وال سے آزاد امید وار کے طور پر جیتا اور پرویز الٰہی کی کابینہ میں وزیر اوقاف ہوگئے۔ 2018میں پی ٹی آئی نے، الیکشن سے دواڑھائی ہفتے پہلے ٹکٹ واپس لے لیا۔ انہوں نے آزاد امید وار کے طور پر بھی میدان مار لیا۔ وہ بتا رہے تھے، الیکشن کے بعد بنی گالا میں خان سے ملاقات میں کھل کر باتیں ہوئیں۔ مثلاً یہ کہ ، آپ نے ٹکٹ واپس لے لیا، لیکن میں اس کے باوجود جیت گیا اور یہاں قومی اسمبلی کی نشست بھی آپ کے ہاتھ سے نکل گئی۔ پی ٹی آئی میں شمولیت پر پارٹی پرچم کا ''پٹکا‘‘ بھی ایک مستقل رسم بن چکی ہے۔ لیکن پیر سعید الحسن کا کہنا تھا، اس گلے میں مدینے والے کا '' پٹکا‘‘ ہے جس کے بعد کسی اور پٹکے کی ضرورت نہیں۔ وزارت کے بارے میںکہا، مجھے اس کی ضرورت نہیں ، لیکن شاید وزارت کو میری ضرورت ہو۔ پیر سعید الحسن کا کہنا تھا کہ چودھری پرویز الٰہی کے دور میں انہوں نے اپر مال پر55کنال رقبے پر مشتمل قرآن وسنت اکیڈمی کی تین منزلہ عمارت مکمل کرلی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں انہوں نے اس عمارت میں صوفی یونیورسٹی یا نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف صوفی سٹڈیز کے قیام کی تجویز پیش کی تو وزیر اعظم صاحب نے اسے خود اپنا خواب قرار دیا۔ محکمہ اوقاف کے حوالے سے ، پیر سعید الحسن کے کچھ اور خواب بھی ہیں، مزارات پر مالی عطیات میں کرپشن کے خاتمے کے لیے الیکٹرانک بکسوںکی تنصیب، ملازمین اور زائرین کی سرگرمیوں کی مانیٹرنگ اور ٹریکنگ کے لیے جدید ٹیکنالوجی پر مبنی نظام، مزارات پر شیلٹر ہائوسز کی تعمیر اور تصوف اکیڈمیوں کا قیام سمیت بہت کچھ... اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہوطے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved