تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     06-04-2019

مچھر اور سنگیت

جس طور سمندر میں ہر طرف پانی ہوتا ہے ‘بالکل اُسی طور ہمارے معاشرے میں ہر طرف مسائل موجیں مارتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک مسئلہ حل کیجیے تو دوسرا مسئلہ آپ کی صلاحیت و سکت کا امتحان لینے کے لیے تیار کھڑا ملتا ہے۔ اُس سے نمٹیے تو تیسرا آ موجود ہوتا ہے۔ اور یہ سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ یہ تو ہوا ہمارا معاملہ۔ ہم مسائل حل کرتے کرتے تھک چکے ہیں۔ دوسری طرف ترقی یافتہ معاشروں کا یہ حال ہے کہ بنیادی مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوجانے کے بعد خود کو مصروف رکھنے کے لیے اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ پہلے پہل انسانوں پر تحقیق کا ایک دور چلا۔ پھر یوں ہوا کہ دل بھر سا گیا۔ کوئی اپنے ہی جیسے انسانوں پر کب تک تحقیق کرے؟ اس بیزاری ہی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ انسانوں پر تحقیق کا بازار کب کا ٹھنڈا ہوچکا ہے۔ اب ترقی یافتہ معاشروں کے ماہرین حیوانات‘ چرند پرند‘ حشرت الارض اور کیڑوں مکوڑوں پر دادِ تحقیق دے رہے ہیں۔ بہت سے ماہرین کی مجبوری یہ ہے کہ فنڈز تو مل جاتے ہیں‘ کوئی اِشو نہیں مل پاتا۔ ایسے میں ''اپنی دنیا آپ پیدا کر ...‘‘ کے مصداق اُنہیں موضوع بھی پیدا کرنا پڑتا ہے! نیشنل جیوگرافک کی دستاویزی فلمیں دیکھیے تو اندازہ ہوجائے گا کہ کن کن معاملات کو کائنات کے انتہائی بنیادی مسائل کا درجہ دے کر اُن پر تحقیق کا بازار گرم کیا جارہا ہے! 
ویسے تو خیر اور بھی بہت سے درندوں‘ پرندوں اور حشرات الارض کی شامت آئی ہوئی ہے مگر ماہرین کے چند گروہ مکھیوں اور مچھروں کو بالخصوص نشانے پر لیے ہوئے ہیں۔ 
مچھروں نے ہزاروں سال سے انسانوں کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ ایک مچھر فرعون کے دماغ تک جا پہنچا تھا۔ اس مچھر کے ہاتھوں فرعون کی ایسی درگت بنی کہ اللہ کی پناہ۔ کہا جاتا ہے کہ مچھر جب فرعون کو پریشان کرتا تھا تو سَر میں شدید درد اٹھتا تھا اور اُس کی حالت عجیب ہو جاتی تھی۔ ایسے میں سَر اور ماتھے پر جُوتے لگانے ہی سے کچھ چَین پڑتا تھا! ویسے ہر فرعون کے لیے قدرت کسی نہ کسی شکل میں کوئی مچھر پیدا کرتی ہے اور پھر اسی طور ''تسکین‘‘ کا سامان بھی کرتی ہے! 
خیر‘ بات ہو رہی ہے مچھر کی۔ ہزاروں سال سے انسان کا ناک میں دم کرنے والے مچھروں پر اب کچھ اس انداز سے دادِ تحقیق دی جارہی ہے کہ مچھر بھی اللہ سے پناہ مانگنے پر مجبور ہیں۔ مچھروں کے شب و روز کا مطالعہ اس طور کیا جارہا ہے گویا وہ سیلیبرٹی ہوں! جنگلوں میں درندوں پر جس انداز سے نظر رکھی جاتی ہے بالکل اُسی انداز سے مچھروں پر بھی نظر رکھی جارہی ہے تاکہ اُن کے معمولات کا درست اندازہ ہوسکے‘ جانا جاسکے کہ وہ ''رومانٹک‘‘ کب ہوتے ہیں اور اُن کے دماغ پر خون چوسنے کا موڈ کب سوار ہوتا ہے! ہزاروں سال تک انسانوں کا خون چوسنے والے مچھروں کو تحقیق کے نام پر اس قدر پریشان کیا جارہا ہے کہ اب انہیں اپنا خون خشک ہوتا محسوس ہو رہا ہے! 
بہت سے مچھر شِکوہ کرتے پائے گئے ہیں کہ آج کا انسان خون چوسنے کا موقع تو دیتا نہیں مگر ہاں‘ تحقیق پر تحقیق کیے جارہا ہے۔ مچھروں کو جس کام کے لیے خلق کیا گیا ہے اُس سے اُنہیں روکنے کے لیے سو جتن کیے جارہے ہیں۔ طرح طرح کے لوشن‘ تیل اور سیال شکل کی ادویہ تیار کرکے مچھروں کو دور بھگانے کا انتظام کیا جارہا ہے۔ اور ہاں‘ مختلف شکلوں میں دُھونی بھی دی جاتی ہے۔ مچھر گھوم گھوم کر تھک جاتے ہیں مگر انسان کو کاٹنے اور خون چُوسنے کی کوئی راہ نہیں پاتے۔ 
ایک ذرا سے مچھر سے جان چھڑانے کے لیے اتنے سارے ''اقدامات‘‘ کرنے کے بعد بھی اُس پر بیماریاں پھیلانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ اس الزام پر مچھروں کے تحفظات ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ انسان خود اپنے خلاف بہت کچھ کر رہا ہے مگر الزام دوسروں اور بالخصوص کمزور مخلوق پر دھر رہا ہے۔ یہ سراسر زیادتی ہے۔ 
برطانوی نشریاتی ادارے نے بتایا ہے کہ سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے مچھروں پر موسیقی کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے منفرد نوعیت کا تجربہ کیا۔ اُنہوں نے مچھروں کے ایک گروپ کو معروف ڈی جے اسکریلیکس کے گانے سنائے اور پھر اُن کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیا۔ جو کچھ سائنس دانوں نے دیکھا وہ انتہائی حیرت انگیز تھا۔ اسکریلیکس کے گانے یعنی الیکٹرانک میوزک سن کر مچھروں کی خون چُوسنے کی صلاحیت کا گراف ہی نہیں گرا بلکہ تولیدی صلاحیت بھی شدید متاثر ہوئی۔ 
مچھروں پر الیکٹرانک میوزک سُن کر خدا جانے کیا گزری ہوگی۔ ہم نے جب یہ خبر پڑھی تو سٹپٹا کر رہ گئے۔ بات کچھ یوں ہے کہ ہم خود بھی موسیقی کے رسیا ہیں۔ جب بھی موسیقی کے ذریعے کیے جانے والے کسی تجربے کے بارے میں پڑھتے ہیں‘ سو طرح کے خدشات میں گِھر جاتے ہیں۔ ہم بہت سوچ بچار کے باوجود آج تک سمجھ نہیں پائے کہ موسیقی کے اثرات معلوم کرکے محققین آخر کیا کرنا چاہتے ہیں۔ اس انوکھے تجربے کے نتیجے میں مچھروں کی جو درگت بنی اُس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ الیکٹرانک میوزک انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ اس نکتے پر تو غور کیا جائے کہ الیکٹرانک میوزک کسی بھی درجے میں موسیقی ہے کب؟ موسیقی تو وہ ہے ہمارے ہاں صدیوں سے پائی جاتی ہے اور آج بھی جادو کا سا اثر رکھتی ہے۔ جدید مغربی موسیقی اور خاص طور پر الیکٹرانک آلات کی مدد سے تیار کی جانے والی دھنوں کی تو انسان بھی تاب نہیں لا پاتے‘ پھر مچھر بھلا کس کھیت کی مولی ہیں‘ اُن کی بساط ہی کیا ہے! ہماری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ مچھر جو بھنبھناہٹ پیدا کرتے ہیں وہ الیکٹرانک میوزک سے بہرحال بہتر و برتر ہے کہ اُس میں بھی سُروں کا اچھا خاصا رچاؤ تو پایا ہی جاتا ہے! 
آج کی نام نہاد موسیقی پر مبنی آئٹمز سُننے سے خون چُوسنے کی صلاحیت یا پھر تولیدی صلاحیت کے کمزور پڑنے کا تو ہمیں کچھ خاص علم نہیں مگر ہاں‘ موسیقی کے نام پر جدید آلات کی مدد سے پیدا کیے جانے والے شور و غل پر مبنی کئی آئٹمز سُن کر ہم نے اپنی رگوں میں خون خشک ہوتا ہوا ضرور محسوس کیا ہے اور اس بات کا بھی ہمیں پورا یقین ہے کہ یہ نام نہاد موسیقی اگر کسی کو باقاعدگی اور تواتر سے سُنائی جاتی رہے تو ہوش و خرد کو رخصت ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ 
اگر مچھروں سے بہتر طور پر نمٹنا اور انہیں اپنی مرضی کے تابع کرنا ہے تو ہمارا مشورہ یہ ہے کہ جدید ترین موسیقی سُناکر اس بے زبان مخلوق کی بد دعائیں لینے سے کہیں بہتر ہے کہ اُسے مشرق کی کلاسیکی موسیقی سُنائی جائے تاکہ اُس میں کچھ نرمی اور شائستگی پیدا ہو اور وہ اگر انسانوں کو کاٹنے کا بھی سوچیں تو تمیز و تہذیب کے دائرے میں رہتے اور تمام اخلاقی اقدار کو بخوبی نبھاتے ہوئے۔ خیر‘ مچھروں پر برطانیہ میں کیے جانے والے تجربے سے اتنا تو معلوم ہوا کہ اکیسویں صدی کی نام نہاد موسیقی سُننے والوں پر کیا گزرتی ہے۔ محققین سے التماس ہے کہ انسانوں تک تو معاملہ ٹھیک ہے اور درندوں سے بھی کھلواڑ میں کچھ ہرج نہیں مگر مچھر اور مکھی جیسی کمزور و ناچیز مخلوق کو تجربے کے نام پر جاں گُسل مراحل سے نہ گزارا جائے۔ مکھی اور مچھر کی زندگی ہوتی ہی کتنی ہے؟ اور پھر اتنی سی زندگی میں جدید موسیقی کی سُرنگ سے گزارا جانا ... الحفیظ و الاماں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved