اس گداز دھرتی پہ موسم بہار اپنی جلو میں خانقاہی نظام سے جڑے مذہبی تہواروں اور روایتی میلوں کی ایسی سوغات لے آتا ہے جو زندگی کی اُکتا دینے والی یکسانیت کو تحلیل کر کے حیات اجتماعی کو تازگی اور تہذیبی مظاہر کو درخشندگی بخشتی ہے۔ زندگی کی تلخیوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے ہزاروں انسان سال بھر کی ذہنی تھکن دور کرنے کے لئے خانقاہوں کے الوہی تقدس میں پناہ ڈھونڈتے ہیں، جہاں وہ روحانی تسکین کے علاوہ تھوڑی دیر کے لئے سماجی اجتماعات کی رنگینوں میں ڈوب کر نفسیاتی آسودگی پاتے ہیں تاکہ تھکی ہوئی روحوں اور اس زوال پذیر جسم کو پھر سے غم حیات کا بوجھ اٹھانے اور دکھ بھوگنے کے لئے تیار کر سکیں۔ بلا شبہ، جو لوگ خود کو پُر ہجوم سماجی اجتماعات سے الگ رکھتے ہیں‘ ان کی لبریزِ الم بصیرت رفتہ رفتہ انہیں زندگی کی لذتوں سے جدا کر لیتی ہے اور ان کے سوزِ آرزو سے خالی دل بہت جلد مایوسی کی تاریکیوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ ہزاروں سالوں سے پیہم رواں زندگی کے اسی بہتے دھارے سے انسان کی فطری مانوسیت نت نئے کلچر کی تخلیق اور پُر شکوہ تہذیبوں کی اساس بنی۔ بلا شبہ ایسے رجحانات اور عملی مظاہر‘ جنہیں گزری ہوئی نسلوں نے غلطیوں، آزمائشوں اور قطع برید کے بعد قبول کر لیا ہو اور جو اجتماعی حیات کا مستقل عکس ہوں، تہذیب کہلاتے ہیں۔ سماجی رسومات برتاؤ کی وہ صورتیں ہیں جو اخلاقی ضوابط کو متّشکّل کرتی ہیں۔ لا ریب، اسی سماجی بوقلمونی میں خاموشی کے ساتھ وہ شعورِ زیست پروان چڑھتا رہا جس نے فن و ادب اور سائنس و ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز دنیا آباد کر لی۔ خوش قسمتی سے خطۂ دامان کی سات ہزار سال پرانی تہذیب کا مرکز ڈیرہ اسماعیل خان آج بھی انہی تہذیبی مظاہر اور ایک ایسے پُر ملال خانقاہی نظام کا حامل ہے جس نے لاکھوں انسانوں کو سازِ زندگی سے مربوط کر رکھا ہے۔ ایک غیر محدود جنگ اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کی خون آشامی کے باوجود اب بھی یہاں درجنوں تہواروں اور ثقافتی میلوں ٹھیلوںکی جوئے رواں میں ایسا توانا تمدن پھل پھول رہا ہے‘ جو بالآخر خوف اور تشدد پہ قابو پا لے گا۔ علیٰ ہٰذالقیاس ان سماجی مظاہر میں قدیم ترین چودھواں کا میلہ کالو قلندر تھا جسے مذہبی تشدد کی مہیب لہروں نے معدوم کر ڈالا۔ دو ہزار چھ میں میلہ کالو قلندر پہ انتہا پسند تنظیموں کے مسلح جتھوں نے یلغار کر کے درجنوں افراد کو زخمی کر دیا تھا، جس کے بعد ضلعی انتظامیہ نے اس تاریخی میلے کے انعقاد پہ غیر معینہ مدت کے لئے پابندی عائد کر دی تھی؛ تاہم مارچ کے آخری عشرے میںکوہِ سرخ کے دامن میں پیر شاہ عیسیٰؒ کے چھ سو سال پرانے عرس کی تب و تاب اب بھی اُس دشت بے اماں کو بقعۂ نور بنائے رکھتی ہے، جہاں راجہ بَل کے قلعہ کافر کوٹ کے شاندار کھنڈرات کے سایہ میں ہر سال ایک متنوّع تہذیبی سرگرمی صحت مند ثقافتی عمل کی آبیاری کرتی نظر آتی ہے۔ اس روایتی تہوار کا محور پیدائشی ولی پیر شاہ عیسیٰؒ کی درگاہ بنتی ہے، جو اپنے عہد کے عظیم عالم دین اور تصوف کے سلسلۂ جلالیہ کے بانی سید عبدالوہاب شاہ کے پوتے تھے۔ پیر شاہ عیسیٰ کے سوانح نگار کہتے ہیں کہ ان کے والد نوری شاہ عبدالرحمٰنؒ نے کالا باغ کے اعوانوں اور چکوال کے کھٹّڑ اقوام کی روحانی پیشوائی کا فریضہ ادا کر کے انہیں کفر و جہالت کی تاریکیوں سے نکالا تھا، اس لئے آج بھی وہاں کے لوگ ان کی یادگاروں کو سینے سے لگائے رکھتے ہیں۔
ان دنوں بلوٹ شریف میں مخدوم زادہ نادر شاہ کا تبحّر علمی اور قلندرانہ وجدان کا اسلوب، حقیقتِ ابدی کے متلاشی صوفیوں کے لئے کشش کا باعث بنتا ہے؛ تاہم جاہ پرست مخدوم زادے اپنی سیاست کو بھی انہی سماجی رسومات سے منسلک کر کے اقتدار تک رسائی کی راہ ہموار بناتے رہتے ہیں، کامل ایک ماہ پہ محیط پیر شاہ عیسیٰؒ کے عرس میں مذہبی، سیاسی اور ثقافتی تقریبات کا خوبصورت امتزاج، ہمارے گداز تمدن کو زندگی کی توانائی عطا کرتا ہے۔ میلہ بلوٹ شریف میں میانوالی، تلہ گنگ، جھنگ، سرگودھا، بھکر اور لیہ سمیت سرائیکی وسیب کے ہزاروں لوگوں کی والہانہ شرکت تہذیبی وحدت کی علامت بن جاتی ہے؛ تاہم بلوٹ شریف کی خصوصیت جنّ، بھوت پریت اور پریوں کے مبینہ اثرات تلے پھنسے مرد و خواتین کو طبلے کی تال پہ یوگا طرز کی خاص مشق ''جاتراں‘‘ کرا کے صحت یاب بنانے پہ محمول ہے، مخدوموں کی خاندانی تاریخ بتاتی ہے کہ سید عبدالوہاب شاہ کے والد سید قطب شیر شاہ علم اسما اور علم خواص کلمات کے ذریعے جنّوں کو تابع کر کے جوگیوں کے فتنوں کا نہایت کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا کرتے تھے۔ بہرحال، یہ فرسودہ رسومات شاید خواتین کی نفسیاتی الجھنوں کا قدیم ترین طریقہ علاج ہو گا۔ افلاطون نے بھی یونان میں الغوزے کے مرض میں مبتلا خواتین کو موسیقی کی مدھر دھنوں پہ رقص کناں کر کے علاج کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔ امسال بلوٹ شریف کے میلے میں وفاقی و صوبائی وزرا کے علاوہ دور و نزدیک کے لاکھوں زائرین شریک ہوئے؛ تاہم اس دفعہ ضلعی انتظامیہ خاص طور پر پولیس نے سکیورٹی کے مؤثر انتظامات کر کے بڑی تعداد میں آئے زائرین کو بہترین سہولیات مہیا کیں۔ گزشتہ سال سکیورٹی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے کچھ بدمزگی پیدا ہوئی تھی جس کے بعد پولیس کو لاٹھی چارج کر کے ہزاروں افراد کو منتشر کرنا پڑا تھا۔
پیر شاہ عیسیٰؒ کے عرس سے قبل 22 سے 24 مارچ تک کرکٹ سٹیڈیم میں وہ روایتی میلہ اسپاں و مویشیاں سجایا گیا جس میں نیزہ بازی، کبڈی، دودا، کتا دوڑ، کشتی اور ویٹ لفٹنگ کے مقابلوں سے ہزاروں افراد محظوظ ہوئے۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی وفاقی وزیر برائے امور کشمیر علی امین کی مساعی سے مقامی گُھڑ سوار ٹیموں کے علاوہ بھکر، لیہ، ڈیرہ غازی خان، میانوالی، فیصل آباد اور راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے کم و بیش سولہ سو شہسواروں نے نیزہ بازی کے مقابلوں میں حصہ لیا۔ اول‘ دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والے گُھڑ سواروں کو قیمتی انعامات سے بھی نوازا گیا۔ میلہ اسپاں و مویشیاں میں اعلیٰ نسل کے گھوڑوں اور مویشیوں کے نمائشی مقابلے بھی منعقد کرائے گئے۔ بہترین نسلوں کے مویشی دیہی علاقوں سے آنے والے شائقین کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ میلہ اسپاں کی آخری شام کو سرائیکی وسیب کے معروف گلوکار عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے دلآویز گیتوں نے زیادہ رنگین بنا دیا، کچھ مقامی گلوکاروں نے بھی اپنے فن کے جوہر دکھا کے اس دلکش شام کو زیادہ سُہانا بنا دیا۔ 7 اپریل کو ممبر صوبائی اسمبلی احتشام جاوید کی سربراہی میں جشن پنیالہ منایا جا رہا ہے اور 9 اپریل کو پہاڑ پور کا میلہ چراغاں سجایا جائے گا۔ آخر میں 13 اپریل کو بلوٹ میں شری کیول رام کی سمادھی پر بیساکھی کا تین روزہ تہوار منعقد ہو گا‘ جو اس چالیس روزہ جشن بہاراں کا اختتامیہ ثابت ہوتا ہے۔ بیساکھی کے میلے میں سندھ اور بلوچستان سمیت ملک بھر سے ہزاروں ہندو یاتری شرکت کر کے اپنی مذہبی رسومات کی بجا آوری سمیت غریبوں میں پرشاد تقسیم کرتے ہیں، (تقسیم ہندوستان سے قبل بیساکھی کا یہ تہوار اندرون شہر کی بیساکھی گرائونڈ میں بھی منایا جاتا تھا لیکن اب بیساکھی گرائونڈ صرف کھیل کا میدان ہی رہ گئی ہے) اس تہوار میں ہندوؤں کے علاوہ مقامی مسلمانوں کی قابل لحاظ تعداد بھی شریک ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے سکیورٹی اداروں خاص طور پر سٹیشن کمانڈر راؤ عمران کا مشکور ہونا چاہیے جنہوں نے دن رات محنت کر کے 23 مارچ کو عظیم الشان مشاعرہ منعقد کرانے کے علاوہ بہار کے اُن روایتی میلوں کی بحالی ممکن بنا کے شہریوں کے دل جیت لئے، جنہیں دہشت گردی کی خوں خوار لہروں نے منصۂ شہود سے مٹانے کی کوشش کی تھی۔ خاص طور پر میلہ اسپاں و مویشیاں کا انعقاد نہایت قابل قدر پیش رفت تھی۔ اس کے انعقاد کو شہر کے باسیوں نے خوب انجوائے کیا۔ بلوچستان کے شہر سبّی اور پنجاب کے دل لاہور میں جشن بہاراں کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کا میلہ اسپاں و مویشیاں ملک کا تیسرا بڑا روایتی میلہ ہے جس میں ملحقہ اضلاع کے لاکھوں لوگ شرکت کر کے زندگی کے میلے میں رنگ بھرتے ہیں۔