تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     07-04-2019

بھارت کا اگلا وزیر اعظم کون؟

یہاں بھارت میں بہت سے لوگ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک کا اگلا وزیر اعظم کون ہو گا؟ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پانچ برس پہلے آپ ہی نے پیش گوئی تھی کہ اگلے وزیر اعظم نریندر مودی ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات آپ نے تال کٹورہ سٹیڈیم کے جلسے میں کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ بھارت کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ اگلے وزیر اعظم کے بارے میں یقین سے کچھ کہا جا سکتا ہے‘ ورنہ تب تک بنے کسی بھی وزیر اعظم کو یہ پتا نہیں ہوتا تھا کہ اس کا جانشین کون ہو گا۔ مجھے یاد آیا کہ وہ بات میں نے منچ پر موجود بابا رام دیو‘ نریندر مودی‘ راج ناتھ سنگھ اور ارون جیٹلی وغیرہ سے کہی تھی۔ میں نے یہ بات اپنے تاریخ کے مطالعہ‘ بھارتی سیاست کی اونچ نیچ کو سامنے رکھ کر اور اس وقت ہو رہے بھارتی انتخابات پر گہری نظر رکھنے کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ادراک کی بنیاد پر کہی تھی۔ اس پر مجھے اس سے بھی پُرانی ایک بات یاد آ گئی۔ 1964ء میں جس دن نہرو جی کی وفات ہوئی‘ میں اسی روز صبح اندور سے دلی آیا تھا۔ ساری دلی خاموشی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ سب لوگ اس ایک سوال کا جواب ڈھونڈ رہے تھے کہ نہرو کے بعد کون ان کی جگہ لے گا‘ کون ہو گا جو بھارت کا اقتدار ٹھیک طریقے سے سنبھال سکے گا۔ جنوری 1966ء میں لال بہادر شاستری کو خراجِ تحسین پیش کرنے میں جب دس جن پتھ گیا تو کانگریسی لیڈر لوگ وہاں ایک دوسرے سے یہی سوال پوچھ رہے تھے کہ شاستری جی کے بعد اب کون ان کی جگہ لے گا‘کون سنگھاسن سنبھالے گا؟ 1984ء اندرا جی کے قتل کے وقت میں نیو یارک جا رہا تھا اور ہوائی جہاز میں بیٹھا ہوا تھا۔ جہاز میں بھی لوگ وہی سوال پوچھ رہے تھے کہ اب کون اندرا گاندھی کی جگہ لے گا‘ کون اگلا وزیر اعظم بنے گا؟ اس طرح لگ بھگ بھارت کے سبھی وزرائے اعظم کے مرنے یا ان کی ہلاکت کے وقت یہی سوال پوچھا جاتا رہا کہ اب آگے کیا ہو گا؟ حکومت کا اگلا سربراہ کون بنے گا؟ یہ سوال آج بھی پوچھا جا رہا ہے حالانکہ بھارت میں آنے والے دنوں میں جو چنائو ہو رہے ہیں وہ بھارت کا وزیر اعظم چننے کا چنائو نہیں ہے بلکہ پارلیمنٹ چننے کا چنائو ہے۔ جس پارٹی کی اکثریت ہو گی‘ یعنی جو پارٹی زیادہ سیٹیں لے گی‘ اسی کا لیڈر وزیر اعظم بنے گا۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اگر بھاجپا کو واضح اکثریت نہیں ملتی تو اس صورت میں کون وزیر اعظم بنے گا؟ ایسی حالت میں مودی شاید خود ہی اپنا استعفیٰ آگے بڑھا دیں۔ کسی عزت دار اور اعلیٰ لیڈر کا یہی فرض ہوتا ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے خود ہی کوئی فیصلہ کر لے‘ بجائے اس کے کہ دوسرے اس کے بارے فیصلہ کریں۔ میرے خیال میں بھاجپا میں لائق وزیر اعظم بننے والے لیڈروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اگر بھاجپا دیگر پارٹیوں سے اتحاد کر کے سرکار نہ بنا پائے‘ تو اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد بنانے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ وہ تو پہلے ہی سے تیار بیٹھی ہیں کہ موقع ملے تو اقتدار پر قبضہ کریں۔ اقتدار کے بھوکے لیڈر حضرات اپنی تھالی پروسنے میں زیادہ دیر نہیں لگائیں گے۔ بھارت والوں نے ایسے اتحاد والے کتنے وزرائے اعظم دیکھے ہیں۔ تین چار وزرائے اعظم کے علاوہ سبھی وزرائے اعظم غیر واضح اکثریت اور واضح اتحاد پر اپنی گاڑی دھکیلتے رہے تھے۔ 2014 ء میں نریندر مودی کو واضح اکثریت ضرور ملی تھی‘ لیکن 2019ء میں وہ لہر نہیں ہے۔ اس کے امکانات کم ہی ہیں کہ بی جے پی اکثریت حاصل کر سکے۔ کوئی مجھے بتائے کہ مرار جی ڈیسائی‘ چوہدری چرن سنگھ‘ وی پی سنگھ‘ چندر شیکھر‘ نرسمہا رائو‘ اٹل بہاری واجپائی‘ دیوی گوڑا‘ اندر کمار گجرال اور من موہن سنگھ کی سرکار کیا واضح اکثریت والی سرکاریں تھیں؟ ان میں سے کون وزیر اعظم بنے گا یہ بھی پہلے سے طے نہیں تھا؟ ایسے میں ملک چلا کہ نہیں؟ وہ چلا ہی نہیں‘ دوڑا بھی۔ انہی وزرائے اعظم میں سے کچھ نے ایٹمی دھماکے کیے‘ کوٹا لائسنس ختم کیا‘ منریگا چلایا‘ اطلاعات کا حق اور سبھی کی تعلیم کا مشن شروع کیا۔ سرد جنگ کے خاتمے پر بھارت کو نئی خارجہ پالیسی میں ڈھالا۔ اس لئے ہم بھارت کے لوگوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ سب کو اپنے ووٹ کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔
مینی فیسٹو ادھورا ہے لیکن...
بھارت کی کانگریس پارٹی کا چناوی مینی فیسٹو اگر پڑھیں تو ایسا لگتا ہے کہ اگر اس کی سرکار بن گئی تو بھارت کے 'اچھے دن‘ شروع ہو جائیں گے‘ لیکن ڈر یہی ہے کہ جیسے 'اچھے دن‘ موجودہ سرکار لائی ہے‘ کیا ویسے ہی اچھے دن کانگریس سرکار لائے گی؟ چنائو کے دوران عوام کو بڑے بڑے سبز باغ دکھانا ہر پارٹی اور ہر لیڈر کی مجبوری ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب بی جے پی کا مینی فیسٹو آئے گا تو وہ کانگریس سے بھی زیادہ خواب دکھائے گا کہ اگر اسے منتخب کر لیا گیا تو وہ یہ کر دے گا‘ وہ کر دے گا۔ یہی عوام کو طے کرنا ہے کہ وہ کس کے کس وعدے پر یقین کرے اور کس کے وعدے پر نہ کرے؟ کانگریس نے ہر غریب کے لیے 72000 روپے سالانہ کم از کم مدد کا اعلان پہلے ہی کر دیا تھا۔ اسی طرح وہ تعلیم اور صحت پر بھی دوگنا خرچ کرنا چاہتی ہے‘ لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ ان دونوں معاملات میں وہ کیا کیا بنیادی سدھار کرے گی؟ کیسے تبدیلی لائے گی؟ انگریز کے زمانے سے چلا آ رہا مہنگا علاج اور غلامی والی تعلیم بدلنے کا کوئی بھروسہ اس پیشکش میں نہیں ہے۔ کسان بجٹ الگ سے ہو گا‘ یہ اچھی بات ہے لیکن کسانوں کو لالی پوپ پکڑانے سے بھارتی کاشت کا شعبہ بہتر کیسے ہو گا؟ زرعی پیداوار کو کیسے بڑھایا جا سکے گا؟ منریگا میں سو کی بجائے ڈیڑھ سو دن کا روزگار دینے اور اس کا پیسہ بڑھانے کی بات بھی بہت عمدہ ہے لیکن اس میں اب تک ہو چکی بد عنوانی کے حل کے اُپائے کیے بنا وہ کامیاب کیسے ہو گی؟ سرحدی علاقوں میں لاگو 'افسا‘ قانون اور وطن کے خلاف بغاوت کے بے وقوفانہ انگریزی قوانین کو ہٹانے کی بات بھی ٹھیک ہے‘ لیکن بھارت کی عدالتوں میں بنیادی سدھار کے نظریے کی کمی ہے۔ عورتوں کو پارلیمنٹ اور ودھان سبھائوں میں 33 فیصد لیڈر شپ دینے کا وعدہ اچھا ہے‘ لیکن پہلے انہیں پارٹی عہدوں میں اتنی جگہ دینے کی بات کیوں نہیں ہے؟ چناوی بانڈ ختم کرنے کی بات جائز ہے لیکن کانگریس سمیت سبھی پارٹیاں چنائو میں اربوں کھربوں خرچ کرتی ہیں‘ اور بد عنوانی کی گنگوتری بن جاتی ہے‘ اس کی صفائی کا بھی کوئی اُپائے یا کوئی فکر کانگریس کرتی نہیں دکھائی پڑتی۔ سرکاری اداروں‘ ریزرو بینک‘ کمیشن‘ سی بی آئی‘ نگرانی کمیشن وغیرہ کی خود مختاری لوٹانے کی بات کرنے والی کانگریس نے کیا ان کا غلط استعمال کم کیا ہے؟ لیکن انہیں سدھارنے کی بات کا خیر مقدم ہے۔ اگر بھاجپا انہیں سب مدعوں پر بہتر اور ٹھوس مینی فیسٹو پیش کر دے گی تو کم از کم یہ تو ہو گا کہ جو بھی اتحاد اقتدار میں آئے گا‘ اس کے لیے مجبوری ہو گی کہ ان میں سے کچھ وعدوں کو وہ نافذ کرے۔ کیا معلوم کہ بھارتی عوام کا دل ان مینی فیسٹوز سے اتنا مضبوط بن جائے کہ انہیں نافذ کروانے کے لیے وہ ڈاکٹر لوہیا کے اس قول پر عمل کر دے کہ 'زندہ اقوام پانچ برس انتظار نہیں کرتیں‘۔ 
بھارت میں حکومت کا اگلا سربراہ کون بنے گا؟ ماضی کی طرح مجھ سے یہ سوال آج پھر پوچھا جا رہا ہے حالانکہ بھارت میں آنے والے دنوں میں جو چنائو ہو رہے ہیں وہ بھارت کا وزیر اعظم چننے کا چنائو نہیں ہے بلکہ پارلیمنٹ چننے کا چنائو ہے۔ جس پارٹی کی اکثریت ہو گی‘ یعنی جو پارٹی زیادہ سیٹیں لے گی‘ اسی کا لیڈر وزیر اعظم بنے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved