حاکمیت کی سیاسی فسطائیت‘ سماجی و اقتصادی اور معاشرتی شعبوں میں جا کر کہیں زیادہ زہریلی ہو جاتی ہے۔ موجودہ حکومت نے جس طریقے سے عوام پر مہنگائی اور محرومی کے وار جاری رکھے ہوئے ہیں‘ اس کی مثال پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں کم ہی ملے گی۔ لگتا ہے‘ حکمران تاک لگائے بیٹھے ہیں کہ کب کس چیز کو مہنگا کیا جائے، کون سی اشیا عوام کی دسترس سے باہر کر دی جائیں اور کس کس طرح کالے دھن والے نودولتیوں کو مزید مالا مال کیا جائے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جس میں مہنگائی کا زخم پہلے سے بدن دریدہ عوام پر نہ لگایا جاتا ہو۔ بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ غلاظت اور گندگی کے ڈھیر بڑھتے جا رہے ہیں۔ سڑکیں ٹوٹ رہی ہیں۔ گٹر اُبل رہے ہیں۔ نکاس کا نظام درہم برہم ہے۔ صاف پانی، گیس، بجلی، ٹرانسپورٹ اور دوسری بنیادی سہولیات کی محرومی دن بدن شدت پکڑتی جا رہی ہے۔ علاج دنوں میں مہنگا ہوتا چلا گیا ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں ہولناک اضافوں سے مزید کروڑوں غریب بیماریوں کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ دیہاتوں کی ڈسپنسریوں سے لے کر شہروں کے سرکاری ہسپتالوں تک ہر چیز کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت منافع خوری کے لئے نجی شعبے کو منتقل کیا جا رہا ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ صحت کارڈ کے نام پر انشورنس کا نظام رائج کر کے اس شعبے کو ہی پرائیویٹائز کیا جا رہا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں بھی منافع خوری کے رجحانات میں مزید شدت آ گئی ہے۔ معاشرے کا اب شاید ہی کوئی شعبہ نام کی حد تک ہی سہی‘ انسانی فلاح کے لئے بچا ہو‘ ہر شعبے میں منافع خوری کا عنصر ٹھونس دیا گیا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ حکومت ایک ہی وار میں ملک کی تمام دولت اور وسائل اپنے حواریوں اور فنانسروں کو لٹا دینے پر لگی ہوئی ہے۔ یہ عوام کی خون پسینے کی کمائی کو نہ صرف لوٹنے کے درپے ہیں‘ بلکہ ان کو یعنی عوام کو اتنا محتاج اور مفلوج بنا دینا چاہتے ہیں کہ ان نودولتیوں کے دھن اور اثاثوں کی دیوہیکل اجارہ داری کی مکمل مالیاتی آمریت ملک پر مسلط ہو جائے۔ بیرونی اور داخلی سرمایہ کاری پر ایسی مراعات دے دی گئی ہیں کہ جس کی دنیا بھر میں کم ہی مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً سرمایہ کاری کے خصوصی معاشی زونز (SEZ) میں سامراجی اور مقامی سرمایہ کاروں کے لئے بجلی، گیس اور دیگر بنیادی توانائی کے انفراسٹرکچر کی ضروریات حکومت پورا کرے گی۔ اتنا استحصال شاید ہی کہیں دیکھنے میں آیا ہو‘ لیکن عوام پر لگائے جانے والے ان زخموں پر ہونے والی نمک پاشی کے بھی نئے انداز ہیں۔ نئے پاکستان میں ظلم و استحصال کے جدید اور زہریلے طریقہ ہائے واردات جاری کرنے والے زیادہ تر ماہرین کی خصوصیت مزدوروں کے استحصال اور ''بزنس کی ایڈمنسٹریشن‘‘ کے علوم پر مبنی ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسی بے حسی بھی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔
سرکاری ادارہ برائے شماریات کو بند کر دیا گیا ہے لیکن غیر سرکاری اشاریوں کے مطابق اس دورِ حکومت میں 400 سے زائد ترقیاتی منصوبوں کو معطل کر دیا گیا ہے، گیس کی قیمتوں میں 143 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے، بجلی کی قیمتیں مسلسل بڑھائی گئی ہیں، تقریباً 178 بلین روپے کے نئے ٹیکس نافذ کیے گئے ہیں، بیرونی و اندرونی قرضوں کی مد میں تقریباً 2000 بلین روپے کا اضافہ ہوا ہے، افراطِ زر گزشتہ سال کی نسبت دوگنا ہو گئی ہے۔ گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے اور 50 لاکھ گھروں کے دعووں کا شور ہے، سات مہینے میں تقریباً دس لاکھ افراد بے روزگاری کی بھٹی میں جھونک دیئے گئے ہیں تو ایک کروڑ نوکریوں کا شور کسی طرح کم نہیں ہو رہا۔
یہ انداز اور طریقہ ہائے واردات دیکھ کر بائیں بازو کے صحافی جارج ارویل کے ناول ''1984ئ‘‘ کا پلاٹ ذہن کے دریچوں میں گردش کرنے لگتا ہے۔ اس ناول میں ایک ایسی ریاست کا تصور پیش کیا گیا تھا جس میں ہر کام، شعبے اور عمل کا نام اس کی اصلیت کے الٹ لیا جاتا تھا۔ مثلاً وزارت جنگ کو وزارت محبت کا نام دیا گیا تھا۔ جبر کو نرمی‘ ظلم کو پیار اور استحصال کو امداد کے نام سے پکارا جایا کرتا تھا۔ لیکن لگتا ہے کہ کئی حوالوں سے حکمران اور ان کے حواری جارج ارویل کی اس تصوراتی ریاست سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ یہاں عوام مہنگائی سے مارے جا رہے ہیں جبکہ واویلا کرپشن کا ہے۔ بھوک اور افلاس سے زندگی اذیت ناک ہو گئی ہے‘ لیکن شور این آر او کا ہے۔ سوال کوئی اور ہوتا ہے اور جواب کوئی اور ملتا ہے۔ بس یہ سبق دے دیا گیا ہے کہ ہر وزیر، سفیر اور لا متناہی تعداد میں سپوکس پرسنز مسلسل انہی دو تین موضوعات تک اپنی گفتگو فکس کر دیں۔ اسی پیرائے میں بولتے رہیں، دہراتے رہیں، نامناسب زبان استعمال کرتے رہیں، اشتعال انگیزی پھیلاتے رہیں اور عوام کو نفسیاتی پراگندگی اور ثقافتی گھٹن میں مبتلا رکھیں۔ جہاں محرومی، غربت اور مہنگائی کی وجہ سے عوام جسمانی طور پر مجروح اور گھائل ہیں وہاں روحانی اور نفسیاتی طور پر بھلا اذیتوں کا شکار کیوں نہ ہوں؟ اس تمام شور میں کرپشن بھی جاری ہے اور کمیشن بھی دھڑا دھڑ لیے جا رہے ہیں۔
اس صورتحال کا المیہ یہ ہے کہ اس بحران کی جو وجوہات پیش کی جاتی ہیں‘ وہی غلط ہیں۔ ان کا مسئلہ نہ گڈ گورننس کا ہے اور نہ ہی نا تجربہ کاری کا۔ مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف کی نسبتاً کلاسیکی سرمایہ دار پارٹی کی بجائے حکمران پارٹی نودولتیوں کی پارٹی ہے‘ جس میں پیٹی بورژوازا بے صبری اور ہوس کی شدت پائی جاتی ہے۔ یہی ان کے تشدد کی جانب مزید مائل ہونے کی وجہ بھی بنتی ہے۔ یہ درست ہے کہ ن لیگ حکومت میں عوام کی زندگی سہل نہیں ہو سکی تھی‘ نہ ہی اس نظام میں عوام کو حقیقی خوشحالی نصیب ہو سکتی ہے‘ لیکن جب اس نظام پر آپ تیز تر منافع خوری کا دبائو ڈالیں گے تو یہ مزید بے دردی سے عوام کو کچلے گا اور ان کے مفادات اور زندگیوں کو تاراج کرے گا۔ پورا حکمران طبقہ جس میں ہر بڑی پارٹی کے حکمران شامل ہیں اپنی طبقاتی و مالیاتی ساخت اور کردار کی وجہ سے کرپٹ ہے۔ جس ملک میں 73 فیصد معیشت کالے دھن پر مبنی ہو وہاں کرپشن کا خاتمہ کرنا عام سوچ اور فہم کی تضحیک کے علاوہ کچھ نہیں۔ لیکن اس حکومت کو جہاں ایک گنجائش ملتی ہے وہ نواز لیگ اور دوسری اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں کا اپنا سرمایہ دارانہ کردار اور اسی نظام کے حواری ہونے کا ہے۔ اپوزیشن لیڈر بھی جب بحران اور مہنگائی کی بات کرتے ہیں تو وہ بھی مزدوروں‘ دہقانوں عام انسانوں کی بجائے کاروباری حضرات ''چھوٹے یا بڑے‘‘ کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ اپوزیشن ان کھولتے ہوئے معاشی و سماجی ایشوز پر کوئی تحریک اس لیے بھی چلانے سے قاصر ہے کہ ان کے پاس اس سرمایہ داری کے علاوہ کوئی متبادل پیش کرنے کے لئے نہیں ہے۔ لیکن یہ نظام اتنا بوسیدہ ہے اور گل سڑ چکا ہے کہ اس کے ہر ڈھانچے اور ہر حصے میں چھید ہو چکے ہیں۔ جتنا اس کو تیز چلانے کی کوشش کی جاتی ہے اس سے اتنی ہی توانائی کا زیادہ زیاں ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن موجودہ حاکمیت نے عوام پر مہنگائی، غربت اور محرومی کے سونامی کا جو تباہ کن حملہ کیا ہے اس کے خلاف نفرت اور بغاوت کے نئے احساسات معاشرے کی کوکھ میں بھڑکنے لگے ہیں۔ سبھی یہ سمجھتے ہیں کہ محنت کش طبقے کو اتنا مفلوج اور گھائل کر دیا گیا ہے کہ وہ اس درد اور مایوسی میں غرق ہو گیا ہے۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔ یہ طبقہ زندہ ہے اور جب تک انسان زندہ اور باحواس ہوتا ہے درد کی ہر ٹیس ایک نئی اذیت دیتی ہے۔ یہ برداشت صرف ایک حد تک ہو سکتی ہے۔ اس نظام کے ہر شعبے اور سیاست کے سرغنہ عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکے ہیں اور محنت کشوں کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ لیکن محنت کش عوام کو اذیتوں میں مبتلا کرنے والے اس نظام کے خلاف بغاوت جس انداز میں بھڑک رہی ہے وہ گہری بھی ہے اور بھاری بھی۔ دوسرے الفاظ میں جتنا بڑا ظلم کیا جا رہا ہے اس کا انتقام اب حکمرانوں اور پورے نظام کو بھگتنا پڑے گا۔