آپ دو چار دن ٹی وی معمول سے زیادہ دیکھیں،چار سے زیادہ اخبار اور دس سے زیادہ کالم نگاروں کو بھی پڑھ لیں توایسے لگتا ہے کہ رومن اکھاڑے کے چاروں طرف خون کے پیاسے‘ منتقم مزاج تماشائی ہیجان میں کھڑے ہیں۔ غلاموں کے دل میں تو اقتدار کی تمنا کا ماجرا رہنے دیں؛البتہ ان کے قائدین یا ٹھیکے داروں کے لبوں پر ایک ہی نعرہ سنائی دے گا ’’اب نہیںتو کبھی نہیں‘‘۔ دوسری طرف اخلاص اور مروت کے پتلے ہیں جو کبھی کے سٹیٹ بینک کے زریں پنجرے میں شیر کے کاسٹیوم میں ہیں مگر کچھ اشتعال انگیز ان کی دُم مروڑتے ہیں۔ کچھ ایف بی آر کے جنگلے میںایم بی ون اور ٹو کے راتب کے عادی ہو جانے والے جنگل کے شہنشاہ سے سرگوشی فرما نے کی کوشش کرتے ہیں (بہادر شاہ ظفر نے تو باغیوں کے ہاتھوں تخت پر بیٹھ کر بھی آدابِ شاہی کے ساتھ بے تکلفیاں نظر انداز نہیں کی تھیں اور کہا تھا: ان کم بختوں نے آپ کے ظلِ الٰہی کے کانوں کو اُگال دان بنا رکھا ہے) کُشتوں کے پشتے لگتے دیکھنے کے آرزو مندکچھ نیب، کچھ الیکشن کمیشن ،بہت کم نگران حکومت اور بہت زیادہ عدالتِ عالیہ سے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ٹکٹ یافتہ غلاموں کواس اکھاڑے میں اترنے سے پہلے ہی کسی طرح چیر پھاڑ دیا جائے۔ یہ سارے غلام یا خادمِ قوم کے میک اپ میں ضرور ہیں مگر میری طرح نہیں۔ ان میں کئی اپنے اپنے زمانے کے وڈیرے رہے ہیں۔ ایف بی آر کی یاددہانی کے لیے عرض کروں کہ ان میں متمول جاگیر دار،تاجر،صنعت کار اور مذہبی رہنما بھی شامل ہیں۔ان میں وہ خاندانی لوگ بھی ہیں جن کے بزرگوں کا ذکر لارڈ ویول کے جرنل میں ہے‘ جنہوں نے قیامِ پاکستان سے ذرا پہلے گورے حاکم سے کہا تھا: ’’ہمیں بھیڑیوں کے آگے ڈال کر تو نہ جائیے‘‘ بعد میں وہ بھلے ملک فیروز خان نون کی طرح مملکتِ خداداد کے وزیرِ اعظم بھی ہو گئے۔یہ وہ عزت دار گھرانے ہیں جو صاحب بہادر کی بگھی کے گھوڑے کھول کر اس میں جُت جانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ یہ وہ گدی نشین ہیںجو آقائوں کے التفات کے لیے ہر قسم کی چلہ کش ریاضت فرماتے رہے اور مختلف انتخابات کے مواقع پر سرکٹ ہائوسوں میں کمشنرصاحبان سے قبلے کا رُخ پوچھا کرتے تھے،کرائے پرمورخ اور مصنف رکھتے تھے تاکہ ان کے شجرے یعنی ذرائع آمدنی محفوظ ہو سکیں اور ریاستی آنکھ اور کان کی اعانت سے تیار ہونے والی امیدواروں کی فہرست میں ان افرادکو ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کے ذریعے جیتنے والی پارٹی کے ٹکٹ بھجوادیئے جاتے تھے۔ مگر اس مرتبہ ایسی ’قومی خدمات‘ بجالانے والے کچھ حضرات امید بھری جمائیاں لے رہے ہیں۔ مرکزی نگران وزیرِ داخلہ کا بے ضرر سا بیان قومی سیاسی تاریخ سے ناواقف لوگوں کو خواہ مخواہ مشتعل کر گیا۔وہ جنہوں نے اپنی زندگی میں اُس جمہوریت کو پروان چڑھتے نہیں دیکھا جو عوامی پرچی کو احتساب کا ذریعہ بنا دیتی ہے، وہ اس اکھاڑے میں اپنے پسندیدہ سیاسی اسیروں کے نام لے لے کر ہیجانی نعرے لگا رہے ہیں۔ کوئی ٹیکس نا دہندہ یا پانی ،گیس اور بجلی کا چور،خیبر پختون خوا کے محبِ وطن ٹھیکیداروں کو پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان کے ترقیاتی پروگرام کے لیے دیئے جانے والے فنڈ کا نذرانہ پیش کر رہا ہے۔ اور تو اور جنرل مشرف کے زمانے میں ایم ایم اے کے کئی متقی نمائندوں کی مدارس کی ڈگری کے بارے میں اٹھائے گئے سوال پانچ برس تک زیرِ بحث نہ آسکے تھے،انہی درس گاہوں کی اسناد سے فیض یاب ہونے والے کئی معزز اور مقبول اب زیرِ عتاب کیوں ہیں؟ آخر کچھ تو ہوا ہو گا کہ جمعیت علمائے اسلام کے منشور میں تعلیم کے لیے پندرہ فی صد قومی وسائل وقف کرنے کے عزائم درج کرائے گئے ہیں۔مولانا ہماری قومی تاریخ کے اس المیے سے یقینا واقف ہیں کہ ایوب خان کے زمانے کے ایک وزیرِ تعلیم نے ایک اور منفعت بخش وزارت جوڑے جانے سے قبل،حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ اسی بات کا تسلسل ہے کہ نگران حکومتوں میں کسی بھی قسم کے وزیرِ تعلیم کا جھنجھٹ نہیں پالا گیا۔ اگرآپ کو ایک موقع شناس مہمان کے طور پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے ملک کے ایک سو چار وائس چانسلروں کے لیے سہ ماہی غنائیے اور عشائیے میں شرکت کا موقعہ ملا ہو اور پھر آپ نے ڈیسکوں،غسل خانوں ،چھتوں بلکہ استادوںسے بھی محروم سکول دیکھے ہوں، پھر آپ نے تین تین تماش بین ویگنیں اور بے بس بسیںتبدیل کر کے اپنے دیہاتی سکول میں پہنچتی خواتین استاد دیکھی ہوں گی جن کی بے توقیری پر کبھی نظریہ پاکستان خطرے میں نہیں پڑتا اور نہ یہ نظریہ سکولوں اور بچوں کے پارکوں پر قبضہ کرنے والوں کو کچھ کہتا ہے، تو آپ کی سمجھ میں آتا کہ اپنے مہربانوں سے فنڈز ڈکارنے کی خاطر ہم نے کیسے کیسے افسر محکمہ تعلیم میں بٹھائے ہیں۔ ہمارے ایک بزرگ جو ساری عمر کسی ہوائی جہاز میں نہیں بیٹھے،احتساب کے بارے میں ایک عرصے سے یہ معصومانہ تجویز دے رہے ہیں کہ سارے بے ایمان لوگوں کو ہوائی جہازوں میں بٹھا کر اوپر سے گرا دیا جائے۔ یہ موقع نہیں کہ خالدہ ادیب خانم سے منسوب روایت میں سے اس طریقِ علاج کا ذکر کیا جائے جواتا ترک نے انقلاب کے بعد بحری جہازوں کے مقدس سواروں پر آزمایا تھا۔ ہماری سب ناراض دوستوں اور قیادتوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ اپنی ساری قومی حسرتوں کے لیے گیارہ مئی کو ہدف نہ بنائیے۔ یار زندہ صحبت باقی۔ ایک دفعہ جمہوریت کے ذریعے احتساب کا عمل شروع تو ہونے دیجئے۔ بارہ،پندرہ برسوں میں سبھی اثاثے اور اکائونٹس بھی یہ جمہوریت کسی چوکس بیوی کی طرح اگلوا لے گی اور شاید بجلی،پانی،گیس اور ٹیکس کی چوری سے رُکنا بھی سکھا دے اور کرسی نشینوں کے آس پاس پھرنے والے بردہ فروشوں سے بھی ہوشیار رہنا سکھا دے۔ دوستو، اپنی تیغِ انتقام کو نیام میں ڈالیے ’’پھر کبھی‘‘ سہی، زندہ قوموں کی زندگی میں کئی مئی کے مہینے آتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved