تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     09-04-2019

گندہ

ایک زمانہ تھا کہ بیشتر مسلم ممالک کے اقتدار کا فیصلہ امریکہ میں ہوا کرتا تھا۔کرنل قذافی نے لیبیا میں ہمہ جہت اقتدار کے مزے لوٹے‘ لیکن آخری وقت میں ان کی بیچارگی کا عالم دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ جب برُا وقت آیا‘ کسی سڑک کے پل کے نیچے خنجروں‘ تلواروں او رپتھروں سے لیس ایک غیر منظم گروہ ‘قذافی کو ہر طریقے سے اذیت پہنچا رہا تھا۔ ان کا چہرہ لہولہان تھا اور وہ ہجوم کے اندر ہاتھوں کی ڈھال بناتے ہوئے اپنا بچائو کر رہے تھے‘جو نہ ہوا۔ان دنوں کرنل قذافی کے ایک پرانے ساتھی اقتدار کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ کسی بھی وقت موت سے پہلے شاید وہ بھی اقتدار کا مزہ چکھ لیں۔
عوامی احتجاج شروع ہونے کے بعد لیبیا میں کبھی مستقل امن قائم نہ ہو سکا۔ کئی بار ایسا محسوس ہوا کہ حالات بہتر ہو جائیں گے۔ لیبیا کے عوام کے لئے امن ایک خواب نہیں رہے گا‘ مگر حالات کی تبدیلی کو دیکھتے ہوئے‘ ایسا لگتا ہے کہ وہاں تشدد کا ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے‘ کیونکہ ''خود ساختہ لیبیائی فوج‘‘کے کمانڈر‘ جنرل حفتر (ح۔ ف۔ ت۔ر) کے ترجمان نے کہا کہ وہ دارالحکومت کی طرف بڑھ رہے ہیں اور فوج طرابلس سے50کلو میٹر دورپہنچ گئی ہے۔ جنرل حفتر کی فوج نے پیش رفت اس وقت کی‘ جب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل‘ انٹونیو گوٹیرس طرابلس میں موجود تھے۔گوٹیرس نے بن غازی میں جنرل حفتر سے ملاقات بھی کی ‘لیکن اس کے مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔ طرابلس کے قریب حکومت کے حامی فوجیوں اور باغیوں کے مابین جھڑپیں جاری ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو اب بھی امید ہے کہ ''حالات جلد بہتر ہو جائیں گے۔ امن کا کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔ اقوام متحدہ سیاسی حل نکالنے کی کوششیں کرتا رہے گا‘ تاکہ لیبیا پھر سے یکجا اور متحدہو سکے۔اقوام متحدہ ہر مشکل کی گھڑی میں لیبیا کے ساتھ کھڑا رہے گا‘‘ ۔ 
یہ ساری باتیں ان کے لئے باعث اطمینان ہوں گی جو اقتدار کے کھیل کو نہیں سمجھتے‘ لیکن نئے حالات ان لوگوں کے لئے بے چینی کا سبب ہوں گے ‘جو اقوام متحدہ کے دائرہ کار اور طاقتور ملکوں کے سیاسی کھیل کو سمجھتے ہیں‘جس ملک میں بار بار آمرانہ حکومت مسلط کر دی جائے ‘ وہاں مستقل امن کا قیام بے حد مشکل ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے متعدد مسلم ملکوں میں آمروں کی حکومتی رہی۔اس کی ذمہ داری جہاں لیڈروں پر عائد ہوتی ہے ‘ وہیں عوام بھی قصور وار ہیں۔ کوئی آمر ایک دن میں اپنی جڑوں کو مضبوط کر نے کامیاب نہیں ہو جاتا‘ اسے خود کو مستحکم بنانے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔لیبیا کے سربراہ‘ کرنل معمر قذافی نے خود کو مضبوط او ر طاقتو ربنانے میں برسوں لگا دئیے۔ وہ بڑی بڑی باتیں کیا کرتے تھے۔ خواتین گارڈز کو ساتھ لے کر گھومتے اور امریکہ کو آنکھیں دکھاتے۔سیاسی شعور رکھنے والے مسلمان ‘ان کی حقیقت سے واقف تھے‘ لیکن اپنے خول تک محدود مسلمانوں کو لگتا تھا کہ قذافی واقعی بڑی طاقت رکھتے ہیں ‘لیکن امریکہ نے عراق پر جب حملہ کیا تو یہ بھرم ٹوٹ گیا۔ صدام حسین کی برطرفی نے کرنل قذافی کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ وہ امریکہ کی ہر بات ماننے کے لئے تیار ہو گئے‘ لیکن اس وقت تک بڑی دیر ہو چکی تھی۔ قذافی کی ضرورت نہ لیبیا کے عوام کو رہ گئی تھی اورنہ ان کے دوستوں کو۔فرانس کے صدر نکولس سرکوزی سے ان کی گاڑی چھینی گئی ‘تو انہو ںنے قذافی کو ان کے انجام تک پہنچانے میں بڑا اہم کردا رادا کیا۔ کرنل قذافی کی مکمل آمریت میں جب ہم لیبیا گئے‘ تو طرابلس ائیرپورٹ پر کافی دیر کھڑے رہنے پر مجبور رہے۔جب بیزاری بڑھ گئی تو لاہور کا جوشیلا نوجوان نوازشریف‘ جو پاکستان کا وزیراعظم تھا‘ تاخیر کی بنا پر صرف یہی کہہ سکا ''گندہ‘‘۔
تیز رفتار کاروں کا قافلہ جب شہر کے بیچوں بیچ گزرتا ہواصحرا میںپہنچا ‘جہاں خیموں سے بنا ہوا ایک شاندار محل مہمانوں کا منتظر تھا۔وہاںخوب آئو بھگت کی گئی۔یہ قذافی کے رعب اور دبدبے کے عرو ج کا دور تھا۔صدام حسین کبھی امریکہ کے بڑے چہیتے ہوا کرتے تھے‘ لیکن تختہ دار پر بھی اسی امریکہ نے چڑھایا ‘مگر اچھے دنوں میں عبرت ناک انجام کا یاد کون کرتا ہے؟کرنل قذاتی کو یادنہ آیا تو حیرت کی بات نہ تھی ؛البتہ حالات سے متاثر لوگوں نے انہیں غلطیوں کا احساس دلانے میں بڑی تاخیر کر دی۔ سچ تو یہ ہے کہ لیبیا کے کمزور عوام نے قذافی کو آمر بنایا اوریہی کمزور لوگ نئے آمر کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ قذافی کے آمر بننے پر لیبیا کے عوام نے پُر اثر احتجاج نہیں کیا تھا ‘کیونکہ انہیں اپنی جان بچانے کی فکر تھی ‘تو پھر یہی عوام قذافی کو انجام تک پہنچانے کی ہمت کہاں سے لے آئے؟سچ تو یہ ہے کہ کرنل قذافی کے آمر بن جانے کو لیبیا کے عوام نے ہلکے پن سے لیا تھا‘لیکن اقتدار سے ان کی برطرفی کو ایک مشن بنا لیا اور اس مشن میں کامیاب ہوئے۔ 
آج پھر وہ جنرل حفتر کو یہ احساس نہیں دلا رہے کہ لیبیا کے حالات جمہوری نظام قائم کر کے بیلٹ سے بدلیں‘ بُلٹ سے نہیں۔ لیبیا کی انہیں اگر اتنی ہی فکر ہے‘ تو پھر جمہوری نظام کے قیام میں معاون بنیں۔ جمہوری طریقے سے حکومت کی تشکیل میں مدد کریں ‘لیکن اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے سے باز رہیں۔جنرل حفتر کا کہنا ہے کہ '' دہشت گردی کے خاتمے تک مہم جاری رہے گی‘‘۔ لگتا یہی ہے کہ یہ ایک بہانہ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف مہم چلانے کی بات کر کے‘ وہ عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کرنل قذافی کے بیٹے سیف السلام کے سیاست میں حصہ لینے کی خبروں سے وہ بے خبر نہیں۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیف السلام کو کیوں چھوڑ دیا گیا؟کیا انہیں بچانے کا کھیل لیبیا کے سابق آمر کے خاتمے سے وابستہ تو نہیں؟
یہ ذکر بے محل نہ ہو گا کہ جنرل حفتر‘ لیبیا کے سابق فوجی ہیں۔1969ء میں کرنل قذافی کے ساتھی رہے۔ قذافی کو اقتدار دلوانے میں بڑا اہم کردارادا کیا‘ لیکن بعد کے دنوں میں ان کے تعلقات کرنل قذافی سے اچھے نہ رہے۔ انہیں لیبیا چھوڑنا پڑا۔ امریکہ میں پناہ لی‘ لیکن کرنل قذافی کے خلاف عوامی احتجاج کی لہر جب چلی تو2011ء میں لیبیا لوٹ آئے۔ سوال یہ ہے کہ جنرل حفتر کیا عوام کی خدمت کرنے لیبیا آئے تھے؟ یا انہیں لایا گیا؟جنرل حفتر کو لیبیا کی اتنی فکر ہوتی‘ تو کرنل قذافی کے قتل کے بعد‘ جمہوری نظام کی تشکیل کی تحریک چلاتے اور اس کے لئے اپنی طاقت کا استعمال کرتے ‘مگر اقتدار کے حصول کی خواہش رکھنے والے لیڈر دکھاوے کے کام زیادہ کرتے ہیں‘ تاکہ عوام خوش ہوں‘ مضبوط نہ ہوں۔ لیبیا کے موجودہ حالات اس بات کی طر ف اشارہ دے رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کا نعرہ لگا کر جنرل حفتر نے اقتدار کے حصول کا کھیل کھیلنا شروع کر دیا ہے۔
البتہ یہ کہنا فی الحال مشکل ہے کہ یہ کھیل کتنے لمبے عرصے تک چلے گا؟ اگر یہ کھیل چل گیا تو پھر لیبیا کے شام بن جانے پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved