چین اکیسویں صدی کی عالمی سیاست میں ایک ابھرتا ہوا ستارہ ہے۔اگرچہ اس نے خود کو روایتی اور غیر روایتی اسلحے سے لیس کر لیا ہے مگر چین کا اصل فوکس معاشی ڈپلومیسی‘معاشی تعاون اور رابطہ سازی پر ہے۔اس کا مطمح نظر معاشی اور تجارتی تعلقات پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کے ایسے مواقع پیدا کرنا ہے جو باہمی احترام ‘برابری ‘ انصاف اور سب کے لئے مساوی فوائدکی بنیاد پر استوار ہوں۔21سے26 مارچ 2019ء تک چین کے صدر ژی جن پنگ کے اٹلی ‘مناکو اور فرانس کے دورے سے اس امر کی عکاسی ہوتی ہے کہ وہ براعظم یورپ کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنے کے لئے کس قدر بے تاب ہیں۔ انہوں نے اٹلی اور چین کو بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ میں ایک دوسرے کے فطری پارٹنر قرار دیا کیونکہ دونوں ممالک قدیم شاہراہ ریشم کے دونوں کناروں پر واقع ہیں۔انہوں نے ان تینوں ممالک خصوصاً فرانس اور اٹلی کو ''جامع تزویراتی شراکت داری ‘‘میں شامل کر لیا ہے‘ تاکہ بین الاقوامی تعلقات کے تمام شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔چین نے بحری راستوں ‘سڑکوںاورریلوے لنکس کے ذریعے معاشی تعاون اور معاشی رابطہ سازی کے میدانوں میں انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں جنہیں بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کہا جاتا ہے۔یہ چین کو ایشیا ‘افریقہ او ر یورپ کے مختلف حصوں سے منسلک کرتا ہے۔اس نے امریکہ ‘کینیڈا آسٹریلیا اور جنوبی امریکہ کے بعض ممالک کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے ذریعے اضافی معاشی تعلقات استوار کرنے میں مدد کی ہے۔چین ایک عالمی معاشی نیٹ ورک قائم کر نے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔کئی تجزیوں میں بجا طور پر یہ کہا گیا ہے کہ اکیسویں صدی چین کی صدی ہے۔ جب چین مشترکہ مفادات کی روشنی میں تجارت‘ سرمایہ کاری اور راہداری کی مدد سے معاشی تعاون کی نئی نئی راہیں تلاش کرے گا۔ یہ علاقائی تعاون یا علاقائی اشتراک کے اسی تصور کی توسیع ہے جس کی مغربی ماہرین بین الاقوامی تعلقات کے ضمن میں وکالت کرتے رہے ہیں۔وہ خطے کی ریاستوں کے درمیان تجارت وسیاحت اورمعاشی و سماجی تعاون پر زور دیتے رہے ہیں۔وہ علاقائی تعاون کی تنظیموں کے حق میں بھی دلائل دیتے رہے ہیں۔چین نے علاقائی تعاون کو بین البر اعظمی وعالمی معاشی تعاون اور معاشی رابطہ سازی تک پھیلا دیا ہے جو دنیا بھر میں عالمی امن ‘استحکام ‘ترقی اور اچھی حکومتی عملداری کے لئے پائیدار بنیادیں فراہم کرے گا۔ایشیا پیسیفک ریجن معاشی پیداوارا ور ترقی ‘اچھی حکومتی عملداری ‘تجارت اور سیاحت کے حوالے سے دنیا بھر کے لیے توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔تمام بڑے ممالک جن میں امریکہ ‘یورپ اور روس شامل ہیں ‘عمومی طور پر ایشیا اور اس خطے یعنی چین ‘ایشیا پیسفک ریجن او ر بحیرہ جنوبی چین پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔امریکہ نہ صرف اس خطے کے ممالک کے ساتھ قریبی معاشی تعلقات قائم رکھنے بلکہ بحیرہ جنوبی چین کے علاقے پر نظر رکھنے اور چین جاپان متنازع جزائر کے مسئلے پر جاپان کی حمایت کرنے کے لئے ایشیا پیسفک ریجن پر توجہ دے رہا ہے۔امریکہ اس خطے خصوصاً جنوبی کوریا اور فلپائن میں اپنی فوجی موجودگی کو شمالی کوریا کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کے منفی مضمرات پر دھیان رکھنے کے لئے بھی استعمال کر رہا ہے۔
چین عالمی سطح پر پانچ قسم کی معاشی اور سفارتی پالیسیوں پر عمل کر رہا ہے۔‘افریقہ کے بہت سے ممالک کے ساتھ معاشی تعاون‘عالمی امور اور مسائل کو پرامن طریقے سے حل کرنے میں اقوام متحدہ کی حمایت ‘یو این امن مشن کارروائیوں کے لئے افرادی قوت کی فراہمی‘تنازعات کو سائیڈ لائن کر کے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات‘اور بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کے تحت معاشی رابطہ سازی کا فروغ جس میں پاک چین اکنامک کوریڈور یعنی سی پیک بھی شامل ہے۔چین نے افریقہ کے کئی ممالک میں صنعت ‘معدنیات ‘انفرا سٹرکچر کی تعمیر خاص طور پر ٹرانسپورٹ ‘انسانی بہبود کے پراجیکٹس اور داخلی سکیورٹی کے استحکام کے امور میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔چین نے افریقہ کے کئی ممالک کے ساتھ تجارت میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔2015ء میں چین نے افریقن یونین کی قائم کردہ سٹینڈ بائی ریجنل فورس کو پانچ سال کے عرصے میں 100ملین ڈالرزکی فوجی امداد دی ہے۔افریقہ میں چین کی سرمایہ کاری کی ابتدا عوامی جمہوریہ کانگو‘نائجیریا‘جنوبی افریقہ‘ سوڈان اور زمبیا پر فوکس تھا۔بعد میں اس کی سرمایہ کاری اور مالی امداد دوسرے افریقی ممالک کو بھی ملنا شروع ہو گئی۔2017ء میں چین نے قرن افریقہ کے ملک جبوتی میں اپنا پہلا اوورسیز فوجی اڈہ بھی قائم کیا ہے۔ چین دنیا بھر کے ممالک کے باہمی تنازعات اور مسائل کے پرامن حل کے لئے اقوام متحدہ کی کوششوں کا پرجوش حامی ہے تاکہ اچھی حکومت اور عوام کو بہتر معیار ِزندگی فراہم کرنے کی طرف توجہ دی جا سکے۔چین یو این امن مشن کی کارروائیوں کا بھی زبردست حامی ہے اور اور ہر امن آپریشن میں اپنے فوجی دستے فراہم کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔اس نے ہرامن مشن کے لئے مالی وسائل بھی فراہم کئے ہیں۔
چین نے موثر عالمی کردار ادا کرنے کے لئے اپنی داخلی معاشی ترقی کی طرف بھی بھرپور توجہ دی ہے۔اس نے اپنے بعض ہمسایہ ممالک کے ساتھ اپنے تنازعات کو بھی سرِدست پس پشت ڈال کر ان سب کے ساتھ پرامن تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔اس کے ان تمام ہمسایوں کے ساتھ اچھے تجارتی اور سفارتی تعلقات قائم ہیں۔اپنی سرحدوں پر امن قائم ہونے سے چین کے لئے اپنے داخلی سماجی معاشی مسائل خصوصاً غربت کے خاتمے پر بھرپور توجہ دینا ممکن ہو گیا ہے ۔چین کی سب سے اہم اور انقلابی پیش رفت اس کا بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ ہے۔یہ آئیڈیا 2013ء میں منظر عام پر آیا تھا‘ مگر اس پر عمل درآمد 2015ء میں شروع ہوا ۔اس کا اصل مقصد دنیا بھر کے ساتھ چین کے جدید سمندری اور زمینی تجارتی روٹس بحال کرنا ہے تاکہ ایشیا‘ یورپ اور افریقہ میں واقع زیادہ سے زیادہ ممالک کے ساتھ روابط قائم کئے جا سکیں۔سی پیک بھی ایک ایسا ہی روٹ ہے جو چینی صوبے سنکیانگ کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع گوادر کی بندرگاہ سے منسلک کرتا ہے۔ چینی کمپنیاں پاور جنریشن اور انفرا سٹرکچر پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں جو زیادہ تر چین کے مغربی صوبے اور گوادر پورٹ کو منسلک کرنے والے اسی روٹ پر واقع ہیں۔
امریکہ اور بھارت نے سی پیک کے خلاف یہ گمراہ کن پروپیگنڈا شرو ع کر رکھا ہے کہ سی پیک کی وجہ سے پاکستان چین کا محتاج بن کر رہ جائے گا ‘نیز یہ کہ چینی کمپنیاں پاکستانی معیشت پر کنٹرول حاصل کر لیں گی جس سے ایک نئی طرح کا نو آبادیاتی نظام جنم لے گا۔ایک اور پروپیگنڈا یہ کیا جار ہا ہے کہ چین ساری لیبر فورس اپنے ملک سے لا رہا ہے جس سے پاکستانی عوام کے لئے ملازمت کے نئے مواقع پیدا نہیںہوں گے۔یہ زہر بھی اگلا جا رہا ہے کہ آخرکار گوادر پورٹ کو چین کے بحری فوجی اڈے میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ اس پروپیگنڈاکے پس پشت سیاسی عزائم کار فرما ہیں کیونکہ امریکہ اور بھارت دونوںچین اور پاکستان کے خلاف اپنا اپنا ایجنڈا رکھتے ہیں۔سی پیک پاکستان کو چین کا محتاج بنانے کے بجائے دونوں ممالک کو ایک دوسرے پر انحصار کرنے کے مواقع فراہم کرے گا۔چین کے لئے سی پیک اور گوادر پورٹ اس لئے اہم ہے کیونکہ یہ چین کی سنکیانگ ریجن کو جدید بنیادوں پر معاشی ترقی دینے کی پالیسی کا اہم حصہ ہیں۔گوادر بندرگاہ چین کو ایسے کھلے سمندر تک اضافی رسائی فراہم کرتی ہے جس میں کوئی متحارب بحری قوت رکاوٹ نہیں پیدا کر سکتی جیسا کہ اسے بحیرہ جنوبی چین کے ریجن میں سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔چین اور پاکستان دونوں کو گوادر پورٹ سے اتنے معاشی فوائد حاصل ہوں گے کہ وہ اس کے تجارتی کردار کو تبدیل کرنے کے بارے میں کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے۔جہاں تک پاکستانی عوام کے لئے ملازمتوں کے مواقع کی بات ہے تو فروری 2019ء میں اسلام آباد میںقائم سی پیک سیکرٹریٹ نے ایک بیان میں بتایا کہ اس وقت 70,000سے زائد پاکستانی شہری سی پیک کے مختلف پراجیکٹس پر کام کر رہے ہیں اور مستقبل میں ان کی تعداد میں اضافے کی امید ہے۔سی پیک دوطرفہ فوائد کا حامل پراجیکٹ ہے اور جب یہ سڑک کے راستے افغانستان ‘سنٹرل ایشیا اور ایران سے بھی منسلک ہو گیاتو اس کی معاشی اہمیت دو چند ہو جائے گی۔