پاکستان کی معیشت تباہی کے کنارے پہنچ چکی ہے۔ اس کی وجہ بدعنوانی اور بددیانتی ہے۔ دیانت داری سے اللہ کی نصرت ملتی ہے اور بددیانتی تباہی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ قبیلۂ قریش کا بڑا ذریعۂ معاش تجارت تھا؛ اگرچہ بھیڑ بکریاں اور اونٹ وغیرہ جانوروں کی افزائش اور خریدوفروخت بھی آمدنی کا ایک ذریعہ تھا۔ شام‘ یمن اور دیگر علاقوں کی طرف قریش کے تجارتی قافلے اکثر سال میں دو تین مرتبہ جاتے آتے تھے۔ حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے آباواجدا بھی تاجر تھے۔ جناب عبدالمطلب کے بعد ان کے بیٹے ابوطالب قبیلے کی مسندقیادت پر فائز ہوئے۔ ان کی تجارت بوجوہ زیادہ کامیاب نہ ہوسکی۔ حضور نبی پاکؐ نے بچپن میں اپنے چچا کے ساتھ شام کا تجارتی سفر کیا تھا۔ ان کٹھن حالات اور معاشی مشکلات کے دور میں حضورپاکؐ جوانی کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ آپؐ نے بچپن میں بکریاں چرائی تھیں۔ اب‘ آپؐ تجارت کے بارے میں سوچ وبچار کررہے تھے۔
تجارت کے سلسلے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا سفر ِشام کم وبیش ۲۳‘ ۲۴سال کی عمر میں ہوا۔ یہ سفر آپؐ نے حرب الفجار کے کچھ عرصہ بعد کیا۔ آپؐ اپنے چچا ابوطالب کے پاس رہتے تھے اور ابوطالب اپنے اہل وعیال کے علاوہ ہرجانب سے آنے والے مہمانوں کی خاطر تواضع بھی کیا کرتے تھے اور ان کا کوئی بہت بڑا کاروبار نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ عموماً تنگ دست رہتے تھے۔ تنگ دستی کے باوجود ان کی فیاضی میں کمی نہ آئی تھی۔ ان کے بیٹے طالب آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عمر تھے‘ مگر وہ بھی کوئی زیادہ کام نہیں کرتے تھے۔ ابوطالب آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور چچا بھتیجے میں آپس میں بہت بے تکلفی بھی تھی۔ تمام امور پر دونوں کے درمیان بے تکلفی کے ماحول میں مشاورت اور تبادلہ بھی ہوتا رہتا تھا۔ باہمی مشاورت سے جو بات طے ہوجاتی اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے یکسوئی کے ساتھ میدان میں نکل کھڑے ہوتے۔ اللہ ہر کام میں برکت اور کامیابی عطا فرماتا۔
ایک روز جناب ابوطالب نے اپنے ہونہار بھتیجے سے کہا: انا رجل لا مال لی وقد اشتد الزمان علینا‘ وہذا عیرقومک وقد حضر خروجہا الی الشام وخدیجۃ بنت خویلد تبعث رجالا من قومک فی عیراتہا۔ میرے پاس اس وقت مال ودولت نہیں ہے اور حالات خاصے سخت ہوگئے ہیں۔ تیری قوم کا تجارتی قافلہ شام کی طرف جانے کو تیار ہے۔ خدیجہ بنت خویلد تیری قوم کے لوگوں میں سے کچھ لوگوںکو اپنے تجارتی قافلوں کی نگرانی کے لیے بھیجتی ہے؛ اگر تو چاہے تو میں اس سے بات کروں کہ تو اس تجارتی قافلے کا نگران بن جائے۔ چچا کی یہ تجویز بہت صائب‘ مناسب اور برموقع تھی۔ آپؐ نے یہ تجویز پسند فرمائی اور پھر چچا سے کہا: اگر خدیجہ مجھے اس کام کے لیے مناسب سمجھیں تو میں تیار ہوں۔ (السیرۃ الحلبیۃ‘ ج۱‘ ص۱۹۳‘ طبقات ابن سعد‘ ج۱‘ ص۱۲۹-۱۳۰‘ سیرۃ ابن ہشام‘ القسم الاول‘ ص۱۸۷-۱۸۸)
حضرت خدیجہ کو بھی اس گفتگو کی اطلاع مل گئی۔انہیں خوشی ہوئی کہ قریش کا سب سے زیادہ شریف النفس‘ امانت دار اور ذہین وفطین اور قابل نوجوان انہیں اپنے تجارتی قافلے کے لیے دستیاب ہے۔ وہ جن لوگوں کو اپنے تجارتی سامان کے ساتھ شام کی طرف بھیجا کرتی تھیں‘ انہیں دو جوان اونٹ معاوضے میں دیتی تھیں۔ ابوطالب نے کہا کہ اے بھتیجے! ہم آپ کے لیے دو اونٹ نہیں چار اونٹ مناسب سمجھتے ہیں۔ اس دوران اتفاق کی بات یہ ہے کہ خدیجہ نے خود بھی یہی سوچا اور کہا :انا اعطیک ضعف ما اعطی رجلا من قومک۔ یعنی میں آپ کی قوم کے کسی بھی دوسرے شخص کو جتنا معاوضہ دیا کرتی ہوں‘ اس سے دُ گنا آپ کو دوں گی؛ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر رضامندی ظاہر کی اور تجارتی قافلے کو لے کر شام کی طرف روانہ ہوئے۔
آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خدیجہ بنت خویلد کا غلام میسرہ بھی شریک سفر تھا۔ جب قافلہ روانہ ہونے لگا تو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے تمام چچا آپ کو رخصت کرنے کے لیے جمع ہوگئے اور اہلِ قافلہ کو سب نے آپؐ کے بارے میں تاکید کی کہ آپ کا پورا پورا خیال رکھیں۔ قافلہ مکہ سے شام کی طرف کئی منزلیں طے کرتا ہوا بصریٰ کے شہر میں پہنچا اور وہاں ایک درخت کے سائے میں ڈیرہ لگایا۔ قریب ہی ایک گرجا گھر تھا‘ جس کے اندر نسطورا نامی ایک راہب مقیم تھا۔ اس راہب نے قافلے کو دیکھا تو وہ متوجہ ہوا اور میسرہ سے سوال وجواب کیے۔ میسرہ پہلے بھی شام کی طرف سفر کرتا رہتا تھا اور اس راہب سے واقف تھا۔نسطورا نے کہا : مانزل تحت ہذہ الشجرۃ قط الا نبی‘ ثم قال لمیسرۃ افی عینیہ حمرۃ؟ قال نعم لا تفارقہ‘ قال: ھو نبی وھو آخر الانبیائ۔ اس درخت کے نیچے نبی کے علاوہ کبھی کوئی دوسرا نہیں اترا‘ پھر میسرہ سے پوچھا :کیا اس شخص کی آنکھوں میں سرخی ہے تو میسرہ نے جواب دیا: ہاں ہے اور یہ سرخی مستقل ان کی آنکھوں میں رہتی ہے۔ اس پر نسطورا نے کہا: یہ اللہ کا نبی ہے اور یہی آخری نبی ہے۔
پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کے بازار اور مارکیٹ میں اپنا تجارتی سامان بیچا اور جو مال تجارت وہاں سے خریدنا تھا وہ خریدا۔ اسی دوران ایک شخص نے خریدوفروخت کے معاملے میں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مباحثہ کیا اور اپنی گفتگو میں اس نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: تو لات وعزّیٰ کی قسم اٹھا۔ اس پر آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے زندگی بھر کبھی ان کی قسم نہیں کھائی‘ بلکہ میں تو ان کے پاس سے جب گزرتا ہوں‘ تو اپنا رخ دوسری طرف پھیر لیتا ہوں۔اس شخص نے بھی میسرہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: خداکی قسم! یہ اللہ کا نبی ہے‘ جسے ہمارے احبار وعلما تورات وانجیل میں پاتے ہیں۔ جو بات ایک عالم فاضل کہہ چکا تھا‘ اس کی تائید ایک عام آدمی نے بھی بھرے بازار میں کردی۔ سچائی خود اپنا آپ منوا لیتی ہے۔
اس سفر کے دوران میں میسرہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت قریب سے دیکھا۔ آپؐ کے اخلاق ومعاملات اورامانت وصداقت کی تو پہلے ہی عرب معاشرے میں شہرت تھی۔ میسرہ نے کچھ مافوق الفطرت چیزوں کا بھی مشاہدہ کیا۔ وہ آپؐ کا ایسا گرویدہ ہوا کہ پھر زندگی بھر آپؐ ہی کا ہو رہا۔ وہ بیان کرتا تھا کہ جب شدت کی دھوپ اور گرمی ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر کوئی غیرمرئی چیز سایہ کیے رکھتی۔ میسرہ کے خیال میں یہ اللہ کے فرشتے ہوتے تھے۔ میسرہ کے تجارتی تجربات کافی قدیم ووسیع تھے۔ وہ ہمیشہ مختلف لوگوں کی نگرانی میں اس تجارتی قافلے کے ساتھ شام کی طرف آتا جاتا رہا تھا۔ اس مرتبہ تجارتی قافلے کو پہلے سے کئی گنا زیادہ منافع حاصل ہوا۔ واپسی پر جب یہ لوگ مرالظہران کے مقام پر پہنچے تو میسرہ نے کہا: اے محمدؐ! جب ہم خدیجہ کے پاس چلیں گے‘ تو آپؐ انہیں بتائیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے مالِ تجارت میں آپ ؐکو کئی گنا نفع عطا کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔
یہ قافلہ مکہ میں دوپہر کے وقت پہنچا۔ خدیجہ کے ہاں مکہ کی خواتین ہر وقت حاضر رہا کرتی تھیں۔ اس وقت خدیجہ اپنے حجرے میں کچھ خواتین کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آتے ہوئے دیکھا۔ وہ اپنے اونٹ پر سوار تھے اور دو فرشتوں نے ان کے اوپر دھوپ سے بچاؤ کے لیے سایہ کیا ہوا تھا۔ خدیجہ نے یہ دیکھا تو اپنے ساتھ بیٹھی ہوئی خواتین کو بھی اس جانب متوجہ کرکے یہ منظر دکھایا۔ وہ خواتین یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ جب آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے کامیاب سفر اور بہترین منافع کی خبر دی‘ تو حضرت خدیجہ بہت خوش ہوئیں۔ خدیجہ نے میسرہ کو سائے کے بارے میں بتایا تو اس نے کہا: محترمہ! میں تو یہ منظر دوران ِسفر مسلسل دیکھتا رہا ہوں‘ پھر نسطورا راہب کی گفتگو کا بھی تذکرہ کیا اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ایک شخص نے دوران خریدوفروخت آپ سے کسی بات پر اختلاف کیا اور بتوں کی قسم کھانے کی بات کی ‘تو آپ نے اسے کیا جواب دیا اور اس شخص نے جواب میں کیا کہا۔
اس مرتبہ ؛چونکہ مالِ تجارت میں پہلے کے مقابلے میں دُگنا نفع ہواتھا ‘اس لیے خدیجہ بہت خوش تھیں۔ انہوں نے معاہدہ کرتے وقت آپ ؐکے لیے چار اونٹ معاوضہ مقرر کیا تھا۔ اب خود رضاکارانہ طور پر کہا کہ چار نہیں‘ آپ کا حق آٹھ اونٹ ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ایسی کامیابیاں عطا فرمائیں کہ آپ کے چچا ابوطالب اور سارا خاندان بنوہاشم ان کامیابیوں پر خوشیاں منانے لگا۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو تجارت سے جو کچھ بھی ملا وہ اپنے چچا کی خدمت میں پیش کر دیا۔ محبت اور خوشی سے چچا کی آنکھوں میں آنسو آگئے‘ سعادت مند بھتیجے کا ماتھا چوما اور بے ساختہ ان کے لیے دل سے دعائیں نکلیں۔ اس میں شک نہیں کہ چچا تاریخ ِ عرب کی عظیم شخصیت تھے‘ مگر کون انکار کرسکتا ہے کہ بھتیجا از اول تا آخر پوری ذریت آدم میں عظیم ترین شخصیت کے مالک اور اعلیٰ ترین مقام کے حامل تھے۔ (طبقات ابن سعد‘ ج۱‘ ص۱۲۹-۱۳۰‘ السیرۃ الحلبیۃ‘ ج۱‘ ص۱۹۳-۵۹۱)