تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     09-04-2019

ابدی قانون

انسان میں بے پناہ تجسس رکھا گیا ہے۔ اس تجسس کی ایک جہت یہ بھی ہے کہ انسان ہمیشہ سے یہ جاننا چاہتا ہے کہ ماضی میں کیا کچھ ہو چکا ہے اور مستقبل میں کیا ہونے والا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ایک ٹوٹے ہوئے پیالے کو پانچ ہزار سال پرانا ثابت کر کے کروڑوں میں بیچ سکتے ہیں ‘ اسی طرح ہر انسان اپنے مستقبل میں جھانکنا چاہتا ہے ۔ اس کے باوجود آپ غور کریں تو انسان ذرا بھی دُور اندیش نہیں کہ ماضی سے کچھ سبق سیکھ کراپنے مستقبل کو بہتر بنا سکے ۔ 
آپ زمین پر اپنی زندگی پہ غور کریں ‘ آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے ۔ ایک نامعلوم مہربان ہستی نے یہاں سمندر‘ دریا‘ ندی نالوں اور بارش کی صورت میں پانی کا ایک مکمل دائرہ (WaterCycle) بنایا۔ جہاں کہیں زمین کھودی جاتی‘ پانی ابل پڑتا۔ یہی پانی آسمان پہ بادلوں کی صورت جمع ہوتا۔ اس غیر مرئی ہستی نے زمین کے نیچے بھاری عناصر کو پگھلایا اور ایک نادیدہ حصار تخلیق کیا‘ ہم جسے مقناطیسی میدان کہتے ہیں۔یہ سورج کی تابکاری سے زندہ چیزوں کو بچاتا ہے ۔ اس کرّئہ خا ک کے گرد موزوں گیسوں پر مشتمل ایک فضا (Atmosphere) تشکیل دی گئی‘ دیگر زمینوں پر جو ناپید تھی۔ اتفاق دراتفاق کہ گیسوں کا یہ غلاف جانداروں کے لیے اس قدر موزوں تھا کہ گویا آرڈر پر بنایا گیا ہو۔ اس میں آکسیجن تھی۔ اس کے اوپر اوزون کی چھت ڈالی گئی۔پودوں اور بیکٹیریا کی صورت میں ایک پورا نظام تشکیل دیا گیا‘ جس کے ذریعے اس آکسیجن کی مقدا رمیں کمی کو پورا کیا جاتاکہ گلوکوز کے علاوہ یہی آکسیجن زندہ اشیاء کو توانائی دیتی ہے ۔ 
زندگی کو جنم دینے والے عناصر تو کائنات میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں‘لیکن زندگی کہیں نہیں۔ اس سیارے کی اہم بات یہ تھی کہ یہاں انہیں ایک خاص ترتیب میں جوڑ کر واقعی زندگی پیدا کر دی گئی ۔یک خلوی جانداروں سے لے کر ہاتھی اور وہیل تک انتہائی پیچیدہ جاندار پیدا ہوئے۔ ان میں سے ایک‘ بظاہر کمزور جانور عام زبان میں‘ جسے بنی آدم انسان اور سائنسی زبان میں ہومو سیپین کہا جاتاہے ‘ اس پر خاص عنایت ہوئی۔ اس کے دماغ کی تشکیل دوسروں سے برتر تھی۔ اس میں الہامی عقل کا نزول ہوا۔ وہ شعور رکھتا تھا اور اپنی ذات سے آگے کائنات پہ غو ر و فکر کی صلاحیت بھی۔آدمی عقلمند تھا‘ لیکن اس میں دوسری حیوانی خواہشات (جبلّتیں) انہی جانوروں جیسی تھیں۔ غور کرتا تو وہ دیکھ سکتا تھا کہ زمین پر زندگی کی حفاظت کے لیے تہہ در تہہ پیچیدہ نظام اس قدر منصوبہ بندی سے تشکیل دیے گئے ہیں کہ اتفاقاً ایسا ہونا ممکن نہیں۔ وہ غور کرتا تو اپنے کاسۂ سر میں موجود عقل کا دیگر جانوروں سے موازنہ کرتا۔ یوں حقیقت اس پر منکشف ہو جاتی۔ 
اس اثنا میں مذہب نازل ہو چکا تھا۔ یہ ایمان و عمل کا مجموعہ تھا۔ خدا کا تقاضا یہ تھا کہ ان ساری نشانیوں کو دیکھتے ہوئے انسان اس پر ایمان لائے اور پھر اس کے بتائے ہوئے طریقے پر زندگی بسر کرے۔ انسان نے نیم دلی سے کسی حد تک اسے قبول کیا۔ یوں کہ جو یہودی‘ عیسائی اور مسلمان ہوئے‘ وہ نسل در نسل اپنے باپ دادا کے عقیدے پر آنکھیں بند کرکے چلنے لگے۔ کسی نے تحقیق کی ضرورت محسوس نہ کی۔ چالیس ہزار سال کے سفر میں انسان جن چیزوں سے خوفزدہ ہوا‘ وہ ان کی بھی پوجا کرنے لگا۔ ان میں پتھر سے لے کر آگ اور بھینس سے لے کر سورج تک شا مل تھے۔اپنے آبائو اجداد کی اندھی تقلیدکرنے والوں نے یہ نہ سوچا کہ گائے کی صورت میں جس جانور کی وہ پوجا کررہا ہے‘ وہ تو دماغی طور پر اس سے کہیں کمتر ہے ۔ وہ بیمار ہو جائے تو انسان کی بنائی ہوئی دوا کا محتاج ہے۔وہ اپنے لیے مضبوط ٹھکانا نہیں بنا سکتا‘ خوراک اگا نہیں سکتا‘ اسے ذخیرہ نہیں کر سکتا۔ وہ اپنا دفاع نہیں کرسکتا‘ اوزار نہیں بنا سکتا۔
کل عالمِ انسانیت اپنے اپنے باپ دادا کی اندھی پیروی میں مشغول ہو ئی۔ اپنے تئیں‘ سب اپنے آپ کو حق پر سمجھنے لگے۔ جو مسلمان تھے اور جن پر آخری مستند الہامی کلام نازل ہوا تھا‘ انہوں نے کتاب کو کھول کر بھی نہ دیکھا۔بار بار اس میں کائنات میں موجود خدا کی نشانیوں کا ذکر تھا۔ اس میں کائنات پہ غو ر و فکر کرنے والوں پر فخر کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ خدا کے بندوں میں وہی اس سے ڈرتے ہیں‘ جو علم والے ہیں۔ اس میں تحقیق کی دعوت تھی۔ علم او رتحقیق کا دروازہ بند ہوا۔ انبیا ؑکا سلسلہ ختم ہوا‘ پھر ہر زمانے میں چھوٹے بڑے اساتذہ آتے رہے۔ اپنے اپنے مسائل‘زندگی کے غم‘ غمِ روزگار کے ساتھ اپنے پاس آنے والوں کو وہ ایک بڑی تصویر دکھاتے رہے۔اس لمحاتی زندگی اور آزمائش کی باریکیاں سمجھاتے۔ 
مغرب ایک اور ہی راہ چل نکلا۔ صدیوں مذہبی طبقات کے ظالمانہ اقتدار کے ردّعمل میں‘ ا س نے اب مذہب کو ایک کمتر درجہ دیا۔ وہ انسانی آزادی پہ مصر ہوا۔ اتنا کہ اس نے فیصلہ کیا کہ چالیس ہزار برس پہلے انسان نے جو لباس پہننا شروع کیا تھا‘ اگر کچھ لوگ اپنی مرضی سے اسے اتار پھینکنا چاہیں‘ تو یہ ان کا حق ہے۔ برہنہ شہر آباد ہوئے۔ مر د و زن سرِ عام اختلاط کرنے لگے۔دیگر جانداروں کی طرح خدا نے انسان کو جوڑے کی شکل میں پید اکیا تھا کہ عورت اور مرد ایک دوسرے سے خوشی او رسکون حاصل کریں ‘لیکن ایک ضابطے اور اصول کے تحت۔ ترقی یافتہ انسان نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر دو ہم نسل افراد ایک دوسرے سے لذت کشید کرنا چاہیں تو اس میں برائی کیا؟ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اسرائیل جیسے ملک میں‘ جو بظاہر خود کو انتہائی برگزیدہ‘ مذہبی اور خدا کے پسندیدہ لوگ کہلوانے پر مصر تھے‘ وہاں ہم جنس پرستی کی مخالفت کرنے والوں پر پتھر برسائے گئے۔ ہم جنس پرست انسانی حقوق کے چیمپئن قرار پائے اور اس کی مخالفت کرنے والے انتہا پسند۔ عالمی طاقت امریکہ کے صدر نے ہم جنس پرست ایرک فن کو وزیر دفاع نامزد کیا۔ 2014ء میں جرمنی میں ایک حکومتی کمیٹی (German Ethics Committee)نے یہ قرار دیا کہ اگر بہن بھائی آپس میں شادی کرنا چاہیں تو انہیں اس کی اجازت ہونی چاہیے ۔ آخر دوسرے جانور بھی تو ایسا کرتے ہیں۔ جہاں تک خدا کی طرف سے مقرر کی گئی سزائے موت کا تعلق ہے‘ اب پاکستانی مغرب نواز انتہا پسند دانشور بھی اس کی مخالفت کرتے ہیں۔جہاں تک حلال و حرام کا تعلق ہے‘ اس کا تصور پہلے ہی ختم ہو چکا تھا۔خدا پسِ منظر میں رہ گیا۔ وہ غائب اور پسِ منظر میں رہنا ہی پسند کرتاہے؛البتہ اس کے قوانین حتمی اور طے شدہ ہیں۔ آج ہمارے جدید ترین آلات یہ بتاتے ہیں کہ بڑی بڑی عالمی طاقتیں اچانک مکمل تباہی سے دوچار ہوئیں اور پھر وہ عبرت کا نشان بن گئیں ۔ اگر انسان دور اندیش ہوتاتو وہ جان لیتاکہ انسان کا ماضی ہولناک تباہی سے بھرپور ہے۔ ایک ایک کر کے ہر تہذیب موت کے گھاٹ اترتی چلی گئی ۔ 
اگر انسان دور اندیش ہوتا تو وہ جان لیتا کہ وہ شدید خطرے میں ہے ۔ ایک دن ایسا کوئی ایونٹ ہوگا‘ جو کہ زمین سے زندگی کا صفایا کر دے گا ۔آج انتہائی ترقی یافتہ انسان کا خواب یہ ہے کہ اسے کسی اور سیارے یا خلا کو قابلِ رہائش (Habitable)بنانا ہے ؛ حالانکہ زمین سے آکسیجن اور دوسری بنیادی ضروریات کی سپلائی نہ ہو تو ایسا ممکن ہی نہیں۔ انسان کہیں بھی بھاگ نہیں سکتا۔ ایک دن اسی سیارے پر اسے مکمل طور پر تباہ و برباد ہو جانا ہے‘ لیکن ایک دانا کے الفاظ میں ‘ جو شخص ایک تباہ شدہ تہذیب کا ایک پتھر لا کر اپنے ڈرائنگ روم کی زینت بنا دے‘ وہ بھلا کہاں کا دُور اندیش !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved