تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     10-04-2019

جنون و جذباتیت یا فکر و تدّبر

جذبات کے وفور میں غور و فکر ہی سے انکار کر دیا جائے؟ کسی خیال کو محض اس لئے مسترد کہ مزاج کی وحشت قبول نہیں فرماتی؟
آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے‘ قوموں کی زندگی میں
صدارتی نظام کی بحث نے قومی مزاج کو پھر آشکار کیا ۔ ایک طرف وہ ہیں‘ جن کا خیال ہے کہ گلے سڑے پارلیمانی دستور سے نجات پاتے ہی‘ مسائل تحلیل ہوتے جائیںگے۔ دوسری طرف وہ ہیں‘ جو اسے آئین سے بے وفائی قرار دیتے ہیں۔ دلیل ان کی یہ ہے کہ چار بار ملک صدارتی اندازِ سرکار کا تجربہ کر چکا۔ کچھ بھی اس سے حاصل نہ ہوا۔
صدارتی نظام نافذ کب ہوا تھا؟ صرف ایک بار فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے شاہی فرمان سے۔ کیا یہ واقعی صدارتی تھا؟ اس پہ مستزاد ون یونٹ۔ پورا مغربی پاکستان ایک ہی صوبہ۔ بلوچستان اور سندھ کے دور دراز مقامات سے بھی‘ ادنیٰ ترین مسائل کے لیے‘ سائلوں کو لاہور کا سائبان تلاش کرنا پڑتا۔
صدر کا انتخاب براہِ راست نہ تھا‘ بلکہ اسّی ہزار بی ڈی ارکان‘ یعنی کونسلروں کے بل پر۔ جن کی تعداد میں بتدریج اضافے کا وعدہ تھا۔ اگر یہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوتا‘ اب جس کی تجویز ہے تو کیا قائدِاعظمؒ کی طرح آئین کی تقدیس پر ایمان رکھنے والی مادرِ ملّت کو ہرایا جا سکتا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو یا کسی اور کے مشورے پر‘ کشمیر میں مہم جوئی کا خواب دیکھا جاتا؟ کیا کراچی میں چھچھوروں کا کوئی گروہ اٹھتا اور محترمہ فاطمہ جناح کے لیے ووٹ ڈالنے والوں پہ حملہ آور ہوتا؟ سیاست اور انتظام کے سارے شعبوں میں قانون کی پاسداری کی جاتی یا من مانی کا سلسلہ جاری رہتا؟
ممکن ہے کہ کچھ لوگ دل سے پارلیمانی نظام کے قائل ہوں۔ کسی کی نیت پر شبہ کرنے کی بجائے‘ دلائل طلب کرنے چاہئیں۔ سیاست کوئی فقہ نہیں کہ فتوے جاری کیے جائیں۔ یہ دلائل کی دنیا ہے۔ معاشرے کی ساخت اور اداروں کے تفہیم کی۔ کاروبارِ حکومت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کیسے شریک کیا جا سکتا ہے؟ انہیں پلیٹ فارم کس طرح مہیا کیا جا سکتے ہیں‘ قیادت کی جن میں تربیت ہو اور بتدریج بہرہ ور ہو کر‘ معاشرے کو تنگ نظری اور تاریکی سے نجات دلا سکیں؟
برطانیہ‘ پاکستان اور بھارت کے سوا‘ کن ملکوں میں یہ پارلیمانی نظام استوار ہے؟ برطانیہ کے سوا‘ کہاں کہاں وہ ثمر بار ہو سکا؟مہاتیر محمد کی اکیس سالہ تربیت کے باوجود اس کے جانشیں بگڑ گئے۔ترکیہ کے اردوان نے کہنہ روایت کو خیر باد کہا۔ 
ہر معاشرے کی اپنی ساخت ہوتی ہے۔ اس کی تاریخ‘ تمدّن‘ ماضی اور مزاج۔ اس کی عادات اور اندازِ فکر۔ صدیوں میں ایک سماج ڈھلتا اور اطوار اختیار کرتا ہے۔ اس کے اندازِ فکر اور اجتماعی لاشعور کا ادراک کیے بغیر‘ سیاسی اور سماجی ادارے تعمیر نہیں کیے جا سکتے۔ بن جائیں اور بظاہر چمکنے بھی لگیں‘ مگر اجتماعی فکر کا چراغ قلوب و اذہان میں روشن نہیں ہوتا۔ حقیقی اور خوش دلانہ تائید‘ جس عمل کے عقب میں کارفرما نہ ہو‘ وہ کامران کیسے ہوگا‘ ظفر مند کیونکر؟ خلیل جبران‘ اس نادرِ روزگار نثر نگار نے کہاتھا: بے دلی سے جب تم کشید کرتے ہو تو بادہ نہیں‘ زہر کشید ہو۔
جنرل آغا محمد یحییٰ خان‘ جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کا مسلّط کردہ نظام صدارتی نہیں‘ مارشل لاء تھا۔ اختیارات یحییٰ خان کے ہاتھ میں تھے‘ کابینہ اور پارلیمان کے نہیں۔ مشرقی پاکستان کاخونیں حادثہ وگرنہ رونما نہ ہوتا۔ آج تک جسے ہم روتے ہیں۔ اکثر لایعنی بحثوں میں الجھتے رہتے ہیں۔
یہ تین گروہوں کی جنگ تھی‘ عسکری قیادت‘ عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی۔ واقعہ یہ ہے کہ تین آدمیوں کے ہوسِ اقتدار کا معرکہ۔ جس میں کوئی بھی نہ جیتا۔ آخر کو سب کھیت رہے۔
کبھی کبھی کوئی نحیف سی آواز سنائی دیتی رہی‘ مثلاً جماعت اسلامی کے سیّد صدیق الحسن گیلانی ۔ یہ کہ کنفیڈریشن کے تصور پر بھی غور کر لیا جائے۔ ساری قوم ورنہ جذبات کی ا ٓندھی میں بہہ رہی تھی۔ بنگالی قوم پرستی کا بھوت بے قابو تھا ۔ یحییٰ خان اور بھٹو کا خیال تھا کہ طاقت کے بل پر اسے زنجیر پہنائی جا سکتی ہے۔ جنّات کو کبھی کسی نے زنجیر پہنائی ہے؟
حواس مختل کر دینے والی المناک جذباتیت‘ قوم کے خمیر میں ہے۔ ظاہر ہے کہ محض پارلیمانی یا صدارتی نظام اس کا تریاق نہیں۔یہ تعلیم اور شعور و ادراک کے فروغ ہی سے ممکن ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جمہوری تشکیل سے۔ فقط طرزِ حکمرانی اور چہرے بدلنے سے نہیں۔
تعلیم کی روشنی گھر گھر پہنچانے پہ توجہ کس کی ہے؟ سیاسی پارٹیوں کو شخصیت پرستی سے نجات دلانے کی تمنا کس کو ہے؟
ایک معاشرے کے استحکام اور قرار کا انحصار اس کی بلوغت پر ہوتا ہے‘ بالکل اس طرح جیسے ایک فرد میں۔ میڈیا سمیت‘ کس کی یہ ترجیح ہے؟ میڈیا سنسنی فروخت فرماتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے اختلافِ رائے کی جسارت کرنے والوں کو گالیاں بکنے کے لیے کارندے بٹھا رکھّے ہیں۔ دنیا میں ایسا بھی کبھی ہوا ہوگا؟ پسماندہ ترین اقوام میں بھی؟ سول سوسائٹی اس کے خلاف اٹھتی کیوں نہیں‘ فریاد کیوں نہیں کرتی؟ جی‘ وہ این جی اوز بنانے میں لگی ہے‘ اپنے اپنے دھڑوں کے مفادات کی نگران ہے۔ پھیلے ہاتھوں یا چیختی زبانوں پہ رکھّے سروں کو فکر و تدبر سے کیا تعلق؟
جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کا نظام بھی صدارتی نہ تھا۔ یہ فوج کی حکمرانی تھی۔ عسکری اقتدار کے اوّلین برسوں کے بعد جنرل ضیاء الحق کے وزیراعظم محمد خان جونیجو‘ خوبیوں نہیں‘ خامیوں کی بنا پر ان کا انتخاب ہوا تھا۔ اس لئے کہ وہ کمزور اور بے دست و پا ہوں گے۔ یہ الگ بات کہ وہ عثمان بزدار ثابت نہ ہوئے۔ اپنے تین وزراء کو کرپشن پہ الگ کیا۔ تعمیر و ترقی کے اعتبار سے‘ان کا عہد‘ بہترین ادوار میں سے ایک ہے۔ یہ الگ بات کہ اپنے سرپرستوں کا حریف بن کے ابھرنا چاہا۔ ڈوب گئے اور ساتھ ہی ان کے سرپرست بھی۔
شاید اسی لئے جنرل پرویز مشرف جمالیوں اور شوکت عزیزوں کو لے کر آئے۔ آقائے ولیِ نعمت کے سامنے جو سپر انداز رہیں‘ دم نہ مار سکیں۔ گجرات کے چوہدریوں کا انتخاب ظفر اللہ جمالی محض ایک بیچارے ہی تھے۔ اسلام آباد کے چوک میں سجا گلوب سیدھا کر دیا۔ دو قومی نظریے کے بارے میں فرمایا: فضول بات‘ قوم ہمیشہ ایک ہوا کرتی ہے۔ دنیا جہان سے بے نیاز‘ کھال مست‘ پڑھنے لکھنے سے پاک۔ شوکت عزیز محض ایک کارندہ تھے۔ فقط اپنے لیے جینے والے۔ معیشت کے مشینی پرزے۔ رہی سیاست تو کبھی اس سے شغف نہ تھا۔
اس کے باوجود تینوں صدارتی ادوار میں‘ اقتصادی فروغ کی رفتار‘ جمہوری زمانوں سے بہتر رہی۔ کیوں بہتر رہی؟
پاکستان اب ایک بارہ سنگھا ہے‘ جس کے سارے سینگ جھاڑیوں میں الجھے ہیں۔ کارفرما سیاسی اور اقتصادی ٹیم سے معجزے کی امید‘ جذبات کے اندھے ہی کر سکتے ہیں۔ فیصل واوڈا کہتے ہیں کہ دو چار ہفتوں میں کرامات ہو جائے گی۔ خوش فہمی اور جذباتیت۔ فرض کیجیے کسی طرح ہن برسنے لگے تو بابو خوش دلی سے ریاضت کرنے اور تاجر ٹیکس ادا کیا کریں گے؟ دولت کی برسات نے عربوں کو کیا دیا؟
سب سے اہم چیز فکری پختگی اور جذباتی توازن ہوتا ہے‘ اقوام کو جو بھٹکنے نہیں دیتا۔ کوئی معرکہ نہیں‘ ایک متواتر اور مسلسل ارتقا۔ مغلوں کے عہد میں برصغیر کی معیشت دنیا بھر کا چوتھا حصّہ تھی۔ عام آدمی آج سے بھی زیادہ مفلس اور محروم۔
صدارتی نظام سے کسی کی مراد اگر فوجی اقتدار ہے تو ایک لمحہ تامّل کے بغیر مسترد۔ اکثریت کی آبادی کے بغیر یہ ایک اور عظیم الشان حماقت ہوگی‘ محض ایک شعبدے بازی۔ مزید برآں صرف صدر نہیں‘ منتخب گورنر اور بتدریج چھوٹے صوبوں کی تشکیل۔آناً فاناً کچھ نہیں ہوگا‘بلکہ ایک مرحلہ وار منصوبے اور قومی شعور کی تربیت کے ساتھ ساتھ۔ حسنِ نیت اور دانائوں کا اتفاقِ رائے‘ جو قوم کو اتحاد کی طرف لے جائے۔ ورنہ فقط ذہنی عیاشی ہے‘ فقط فرار۔
جذبات کے وفور میں غور و فکر ہی سے انکار کر دیا جائے؟ کسی خیال کو محض اس لئے مسترد کہ مزاج کی وحشت قبول نہیں فرماتی؟
آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے‘ قوموں کی زندگی میں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved