تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     10-04-2019

تحریک انصاف اور احتساب

احتساب ایک واقعہ نہیں‘ بلکہ مسلسل عمل کا نام ہے‘ مگر عمران خان نے اسے واقعے‘ بلکہ حادثے کی شکل دے ڈالی ہے۔ انہوں نے یہ تاثر پیدا کردیا ہے کہ صرف وہی ہیں‘ جو احتساب کرسکتے ہیں ‘ ان کے سواکوئی دوسرا یہ کام نہیں کرسکتا۔ یہ درست ہے کہ انہوں نے الیکشن میں احتساب کے نام پر بھی کچھ ووٹ لیے تھے ‘لیکن ان کے حاصل کردہ ووٹوں کا بڑا حصہ تبدیلی کے نام پر پڑا تھا۔ ایسی تبدیلی جوعام آدمی کو محسوس ہوسکے۔ انہوں نے کہا تھا: بلدیاتی نظام جو حکومت کو عام آدمی کی دہلیز تک لے جائے گا۔ انہوں نے کہا تھا : دو نہیں ایک پاکستان‘ جہاں عام آدمی پٹوار سرکار کاغلام نہیں ہوگا۔ ان کا دعویٰ تھا :ایسی معیشت ‘جو کسی کو بے روزگار نہیں رہنے دے گی۔ انہوں نے پچاس لاکھ مکان بنانے کا کہہ کر ہر غریب کی آنکھوں میں اپنی چھت کی ملکیت کا خواب جگا دیا تھا۔ ملک کے لوگوں نے ان سے امید باندھی تھی کہ وہ قبضہ گروپوں سے ان کو نجات دلا ئیں گے۔ معاشرے کا کمزور ترین فرد کوئی شکایت لے کر آئے گا تو ریاست اس کی طاقت بن کر زور آور سے نمٹے گی۔ انہوں نے خود ہی تو کہا تھا کہ یکساں نظام تعلیم ہوگا ۔ ایک سی کتابیں ہوں گی اور سب یہی پڑھیں گے‘ تاکہ سماج میں یکسانیت پیدا ہو۔ یہ سب باتیں انہوں نے ہی تو کی تھیں‘ یہ سارے خواب انہوں نے ہی تو دکھائے تھے‘مگر یہ کیا کہ گزشتہ آٹھ مہینے سے عمران خان سوائے احتساب کے کچھ فرماتے ہیں ‘نہ کرتے ہیں۔ احتساب بھی وہ کہ جس میں ان کا کوئی حصہ ہے نہ قانونی کردار۔بس ایک سیاسی اور اخلاقی دباؤ ہے ‘جو کوئی بھی سیاسی جماعت ڈال سکتی ہے ۔احتسابی اداروں کی وکالت ہی کرنا تھی‘ تو اس کام کے لیے حکومت کی ضرور ت تو سرے سے ہے ہی نہیں۔ حکومت تو تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہے‘ معیشت استوار کرنے ‘ تعلیمی نظام ٹھیک کرنے اور ریاست کا مزاج منصفانہ بنانے کے لیے ضروری ہے اور جس احتساب کا نعرہ ایک جمہوری ملک میں سیاسی حکومت اپنے حریفوں کے خلاف لگائے گی‘ اس احتساب کو مانے گا بھی کون؟
پاکستان کے قانون کے مطابق؛ نیب کا ادارہ حکومت کے تابع نہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں یہ سیاسی مقاصد کے لیے ضرور استعمال ہوا‘ لیکن دوہزار آٹھ سے لے کر دوہزار سترہ تک کے نو سال کے دوران بے عمل رہنے اور لا تعلق ہوجانے کے مراحل سے گزر کر جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں یہ کسی نہ کسی طرح سیدھے راستے پر آنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس ادارے پر بے جا سختی یا کسی درجے میں کچھ بے قاعدگی کا الزام تو لگایا جاسکتا ہے‘ لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کے کارپردازان کوئی سیاسی نتائج پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یوں بھی دستور کے مطابق؛ نیب کے چیئر مین کا تقرر تین سال کے لیے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف اتفاق رائے سے کرتے ہیں اور جسٹس (ر) جاوید اقبال کا تقرر بھی پاکستان مسلم لیگ ن کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اس وقت پیپلز پارٹی کے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے ساتھ مل کر کیا تھا۔ ان دونوں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ اس حساس عہد ے پر تقرر کرتے ہوئے ‘انہوں نے ذمہ داری سے کام نہیں لیا ہوگا‘ لہٰذا جسٹس (ر) جاوید اقبال کی صورت میں نیب پر جانبداری کا الزام ثابت کرنا آسان کام نہیں۔ انہوں نے جس انداز میں احتساب کے عمل کو ایک جہت دی ہے‘ اس پر اعتراضات اٹھتے رہیں گے‘ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے پاکستان کے سرکاری اداروں میں بدعنوانی کے عفریت کو زنجیر ڈالنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ان کی موجودگی میں نیب کو دیگر اداروں پر جو فوقیت حاصل ہوئی ہے ‘وہ معمولی بات نہیں؛ البتہ وہ بیانات‘ جو ہمارے وزیر اعظم احتساب کے بارے میں داغتے ہیں‘ نیب کی حیثیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں‘ کیونکہ وزیر اعظم کے ردعمل میں الزام نیب پر آتا ہے۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ نیب یا اس کے چیئرمین نے سیاست نہیں کرنی‘ لیکن تحریک انصاف انہیں جو سیاسی حمایت فراہم کرتی ہے‘ اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ 
نواز شریف‘ شہباز شریف‘ آصف علی زرداری‘ فریال تالپور اور حمزہ شہباز کے کیسز ہی لے لیجیے۔ ان لوگوں سے پوچھنے کے لیے نیب کے پاس متعین سوالات موجود ہیں۔ یہ لوگ چاہیں یا نہ چاہیں ‘ انہیں اپنی دولت کے بارے میں اٹھائے جانے والے سوالات کے جواب دینے ہیں۔ سوال جواب کے بعد تفتیش کے دیگر مراحل طے کرتے ہوئے ان کیسوں نے عدالتوں میں بھی جانا ہے ‘جہاں نیب نے شواہد پیش کرنے ہیں اور ملزموں نے اپنی صفائی دینی ہے۔ حتمی فیصلہ ہونے سے پہلے کئی بار ملزموں کا دعویٰ ہوگا کہ وہ معصوم ہیں اورنیب انہیں مجرم ثابت کرنے پر زور دیتا رہے گا؛ اگر قانونی نظام کے ہر مرحلے پر پاکستان تحریک انصاف نیب کی حمایت میں میدان میں اتر پڑے گی تو پھر اس ادارے کی غیرجانبداری پر خواہ مخواہ سوالات اٹھیں گے۔ پانامہ کیس سے لے کر حمزہ شہباز کے کیس تک ہر معاملے میں تحریک انصاف کے رویے نے اسے نیب کا نادان دوست ثابت کیا ہے۔ مانا کہ فی الحال تحریک انصاف کے مخالفین کو نیب کا سامنا ہے‘ لیکن اس کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ یہ خوشی کے شادیانے بجانے لگے۔ شادیانے بجانے کے اس رویے سے تحریک انصاف کو شاید کوئی فائدہ ہوجاتا ہو‘ لیکن نیب کے حصے میں صرف اور صرف نقصان ہی آتا ہے۔
تحریک انصاف کو اگر صدق ِدل سے یقین ہے کہ ملک میں مسلسل احتساب ہونا چاہیے تو پھر پہلا کرنے کا کام تو خاموشی ہے‘ تاکہ نیب کی غیر جانبداری کا تاثر پختہ ہو۔ کرنے کا دوسرا کام نیب کو اتنے وسائل مہیاکرنا ہے کہ یہ اپنے افراد کی بہترین تربیت کرسکے۔ اس ادارے کے لوگوں کو اپنے کام میں اتنا مشّاق ہونا چاہیے کہ کوئی ان کی تفتیش پر اعتراض نہ اٹھا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی وجہ سے اس ادارے کو جو طاقت ملی ہے ‘ اس کا استعمال کہیں غلط اور کہیں ضرورت سے زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ اس ادارے میں ایسے افراد آج بھی موجود ہیں ‘جو جنرل مشرف کے دور میں قانون کے مطابق نہیں ‘بلکہ حکم کے مطابق کام کرتے رہے ہیں۔ اس کردار کے حامل افراد کو جب طاقت میسر آئے گی تو یہ اسے اپنی دھونس کے لیے استعمال کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ ان افراد کا توڑ صرف اسی صورت ممکن ہے جب نیب میں کام کرنے والوں کی اکثریت تفتیش کے نئے تقاضوں کو سمجھ کر قانون کے مطابق عمل کرے۔ ابھی تو صورتحال یہ ہے کہ بعض اوقات تفتیش اربوں روپے کے الزامات سے شروع ہوتی ہے اور عدالت میں پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب سنی سنائی باتیں ہی تھیں۔ کئی بار لوگوں کو صرف ''ٹھوس شواہد‘‘ کی موجودگی کے دعوے پر ہی گرفتار کرلیا جاتا ہے اور قانون کی بھٹی میں پڑتے ہی ٹھوس شواہد پہلے مائع اور پھر گیس میں تبدیل ہوکر ہوا ہوجاتے ہیں۔ ظاہر ہے تفتیش کے اس کچے پن کی ذمہ داری نیب کے چیئر مین پر نہیں ڈالی جاسکتی کہ انہیں جس قسم کے لوگ میسر آئے ‘ وہ اتنا ہی کرسکتے ہیں۔ 
حکومت کی مدد کے بغیر جو کام خود نیب کو کرنا ہے‘ وہ یہ ہے کہ یہ ادارہ اپنے اندرونی احتساب کے نظام سے بھی لوگوں کو زیادہ سے زیادہ آگاہ رکھے۔ اس کے علاوہ ایک اہم کام یہ بھی ہے کہ نیب کے تفتیش کاروں کو بتایا جائے کہ ملزم کی گرفتاری کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں کئی سادہ طریقے دریافت ہوچکے ہیں‘ جن کے ذریعے ملزم کی تفتیش میں شمولیت لازمی بنائی جاسکتی ہے‘ مثلاً:پاسپورٹ قبضے میں لینا‘ شہر چھوڑنے پر پابندی لگا نا یا قانونی طاقت استعمال کرتے ہوئے ملزم سے شخصی یا مالی ضمانت طلب کرلینا۔ ان سارے طریقوں کی گنجائش قانون میں نکلتی ہے‘ مگر آخری تیر سب سے پہلے چلانے کی روش نے نیب کا تاثر خراب کرنے میں اتنا ہی کردار ادا کیا ہے‘ جتنا تحریک انصاف کی غیر ضروری حمایت نے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved