تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     25-04-2013

جیالے حوالے

سرور بٹ مرحوم سادہ لوح ‘ ہر وقت قربانی پر تیار اور آگے بڑھ کر لڑنے والے جیالے تھے۔ یہ جیالا پن انہوں نے پاکستان میں اختیار نہیں کیا تھا‘ دبئی میں روٹی کمانے گئے تھے۔ ترقی کرتے کرتے چار پیسے جمع کر لیے‘ اچھا گھر خرید لیا اور مہمانوں کو پرتعیش میزبانی مہیا کرنے کے قابل ہو گئے اور جب ایسا ہو جائے‘ توسیاسی لیڈر‘ شاعر‘ افسراور لالی ‘ شرف میزبانی عطا کرنے وارد ہونے لگتے ہیں۔ آپ پوچھیں گے کہ یہ لالی کیا چیز ہے؟ یہ وہ راز ہے‘ جو دوستوں ہی نہیں گھروالوں پر بھی کبھی نہیں کھلا۔ پیشے میں وکیل ہیں۔ ان کے کسی حد تک تعارف کا ذریعہ ایک واقعہ بن سکتا ہے۔کسی شام بیگم سے جھگڑا کر بیٹھے اور ساتھ حکم دیا کہ مجھے صبح سات بجے جگا دینا۔ دس بجے بیدار ہو کر گھڑی دیکھی تو پریشان ہو گئے۔ بیٹے کو بلا کر پوچھا کہ تمہاری ماں نے مجھے جگایا کیوں نہیں؟ بیٹا‘ ماں سے دریافت کر کے واپس آیا۔ والد کا تکیہ اٹھایا اور نیچے سے ایک کاغذ نکال کر باپ کے حوالے کر دیا۔ لالی صاحب نے اسے پڑھا ‘ تو لکھا تھا’’سات بج گئے ہیں۔ جاگ جایئے۔‘‘میاں بیوی میں جب بول چال بند ہو تو کمیونیکیشن کا یہی راستہ رہ جاتا ہے۔ لالی صاحب سرکاری افسر بھی ہیں۔ وکیل بھی ہیں۔ سیاست دان بھی ہیں ۔ بے تکلف دوست بھی ہیں اور بے تحاشا پیار کرنے والے بھی ہیں۔ خصوصاً اس وقت‘ جب آپ اچھی میزبانی کر سکتے ہوں اور اگر آپ میزبانی کے تقاضے لندن‘ پیرس‘ نیویارک اور دبئی میں خوش اسلوبی سے پورے کر سکتے ہوں‘ تو لالی صاحب کے پیار میں زیادہ ہی جولانیاں‘ فراوانیاں‘ طغیانیاں وغیرہ آ جاتی ہیں۔ سرور بٹ مرحوم صرف لالی صاحب کے شرف میزبانی سے فیض یاب نہیں ہوئے تھے‘ بلکہ ہوتے تھے۔ مصطفی کھر بھی سروربٹ کی عزت افزائی کیا کرتے تھے۔ مصطفی کھر کی شخصیت میں ایسی کشش ہے جس سے خواتین ہی نہیں‘ میزبانی کے شوقین حضرات بھی محفوظ نہیں رہ سکتے۔ خصوصاً نامور شخصیتوںسے ملنے کے شوقین۔ جس کا مصطفی کھر ہمیشہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جلاوطنی کے ایام میں کھر صاحب کو جب دبئی میں سرور بٹ کی میزبانی کا تجربہ ہوا‘ تو انہوں نے بٹ صاحب کو اپنے تصرف میں لے لیا۔ بٹ صاحب کے پاس کسی دوسرے کی میزبانی کا وقت ہی نہ رہا۔ ان دنوں ایجنسیاں کھر صاحب کے پیچھے لگی ہوئی تھیں۔ بٹ صاحب ایک بھولے بھالے مزدور سے ایک سمجھدار بیوپاری تو بن گئے مگر ماہر اور تجربہ کار مہمان‘ آسانی سے ان کے بھولپن کو جگا لیا کرتے تھے۔ بٹ صاحب کو پتہ ہی نہ چلا کہ وہ اپنے معزز ترین مہمان کی وجہ سے ایجنسیوں کی نظر میں آ چکے ہیں۔ ضیاء الحق کا اقتدار عروج پر تھا۔ بٹ صاحب اپنی دبئی بازی جاننے پاکستان تشریف لائے۔ دبئی بازی یہ ہے کہ پاکستان واپس آ کر آپ اپنے جاننے والوں اور دوستوں سے ملیں۔ سونے کی موٹی موٹی انگوٹھیوںوالی انگلیاں بار بار ہلائیں۔گلے میں کتے کے پٹے جتنی موٹی‘ سونے کی زنجیر پہنیں۔ کلائی پر سونے کا ایک موٹا کڑا ہو‘ جو ہاتھ کی حرکت کے ساتھ اوپر نیچے ہوتا ہوا دکھائی دے۔ بیرے کو ٹپ میں 500 کا نوٹ دیں اور جومشروبات باسٹھ تریسٹھ کی زد میں آتے ہوں‘ ان کے اعلیٰ ترین برانڈ سے‘ دوستوں کی مدارات کریں اور اگر پولیس کی نظر میں آ جائیں‘ تو اسے اپنا گرویدہ کر لیں اور وہی پولیس افسر جو آپ کو ناجائز نوشی کے جرم میں پکڑنے آیا تھا‘ ایئرپورٹ پر آپ کو رخصت کرنے آئے۔ ایک بار بٹ صاحب اسی طرح کی دبئی بازی کرنے لاہور آئے۔ قبل اس کے کہ وہ شہر کی محفلوں میں دبئی بازی شروع کرتے‘ پولیس نے انہیں دھر لیا۔ انہوں نے حسبِ عادت پولیس والوں کو ہزارہزار کے نوٹوں پر مشتمل اپنا وزیٹنگ کارڈ دکھایا۔ مگر اس مرتبہ انہیں پاکستانی پولیس بھی دبئی پولیس جیسی نظر آئی۔ اس انقلابی تبدیلی پر وہ حیران رہ گئے۔ جلد ہی ان کی حیرانی دور ہو گئی‘ جب پولیس انہیں ایک پراسرار کوٹھی میں چھوڑ کر غائب ہو گئی اور پھر گھر سے مزدوری کرنے نکلا ہوا یہ بھولا بھالا شخص‘ جس نے دبئی میں دولت کمائی تھی اور اس دولت کے زور پر پاکستانی معززین کی میزبانی کا شرف حاصل کیا تھا‘ خود بھی ’’معزز‘‘ بن گیا اور خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے ان کے ساتھ وہی سلوک شروع کر دیا‘ جو ہمارے سابق وزرائے اعظم‘ وزراء‘ اعلیٰ افسران اور اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ بٹ صاحب سے تفتیش شروع ہوئی‘ جس کے دوران انہیں پتہ چلا کہ وہ تو اچانک پاکستان کے حکمران طبقے کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان سے جو سوالات پوچھے گئے‘ وہ کچھ اس قسم کے تھے۔ مصطفی کھر سے آپ کا کیا تعلق ہے؟ بھٹو سے آپ کب ملے تھے؟ جب مصطفی کھر آپ کے گھر میں ٹھہرتے تھے تو انہیں کون کون ملنے آتا تھا؟ آپ مصطفی کھر کے لیے کس کس کے پیغام لاتے تھے؟ بے نظیر بھٹو اور مصطفی کھر کے درمیان کیا باتیں ہوتی تھیں؟ مرتضیٰ بھٹو اور مصطفی کھر کی آپ کے گھر میں کتنی ملاقاتیں ہوئیں؟ سوالات کرنے والے تو اپنی ڈیوٹی کر رہے ہوتے اور بٹ صاحب ان سوالوں کو سن کر اندر ہی اندر‘ فخر سے اپنے آپ کو سماجی رتبے کی بلندیوں پر دیکھنے لگتے۔ اس وقت کی اپنی ذہنی کیفیت وہ ان الفاظ میں بتایا کرتے۔ ’’اللہ نے کتنی عزت دی ہے؟ میں ایک چھوٹا سا مزدور اور یہ بڑے بڑے افسر‘ بڑے بڑے لیڈروں کے ساتھ‘ میرا تعلق جوڑ رہے ہیں۔ کبھی میں سوچتا ‘ مان ہی جائوں‘ ٹہور بن رہے ہیں‘ تو کیوں نہ بنائوں؟ دو چار ملاقاتیں بڑے لیڈروں کے ساتھ ڈال دوں‘ تو میرا نام تاریخ میں آجائے گا۔ کبھی بھٹو صاحب کا نام ذہن میں آتا۔ کبھی بی بی کا۔ کبھی مرتضیٰ بھٹو کا۔ لیکن پھر سوچتا کہ ان لوگوں کو بھی یقین نہیں آئے گا۔ اسی خوف سے کوئی نام نہ لیا۔ لیکن وہ سمجھتے رہے کہ میں سچ کو چھپا رہا ہوں۔‘‘ حقیقت میں بٹ صاحب کے پاس کسی بھی سوال کا جواب نہیں تھا کیونکہ وہ بیچارے صرف میزبانی کے گناہگار ہوئے تھے۔ نہ کبھی انہوں نے سیاست کی۔ نہ اسے سمجھا اور نہ اس میں ان کی دلچسپی تھی۔ وہ میری طرح سکول کالج کی تعلیم سے محروم رہے تھے اور چلتے پھرتے تھوڑی بہت اردو پڑھنا سیکھ لی تھی۔ جس کے زور پہ اخبار پڑھنے میں کامیاب ہو جاتے۔ مگر اس سے آگے کچھ نہیں۔ ایجنسی والوں نے سمجھا کہ ملزم بہت گہرا آدمی ہے۔ اس کا ’’گیت‘‘ سننے کے لیے محنت کرنا پڑے گی۔ یاد رہے ایجنسی والوں کی ایک اصطلاح ہے کہ جب کوئی ملزم زبان کھولنے لگے‘ تو وہ اعلیٰ افسروں کو اطلاع دیتے ہیں کہ ’’سر! برڈ از سنگنگ۔‘‘بٹ صاحب سے گیت سننے کے لیے انہیں لاہور کے شاہی قلعے میں منتقل کر دیا گیا۔وہاں کے جو منظربٹ صاحب سنایا کرتے تھے‘ وہ کچھ یوں تھے کہ ایک نہایت ہی گہرے تہہ خانے میں ڈبہ نما کوٹھڑیاں بنی ہوئی تھیں۔ جہاں کسی بھی طرح کی روشنی کا گزر نہیں تھا۔ قیدی کو اس کے اندر ڈال دیا جاتا تھا اور وہاں جو گارڈ متعین ہوتے تھے‘ انہیں حکم تھا کہ وہ قیدی سے نہ کوئی بات کریں گے۔ نہ اس سے آنکھیں ملائیں گے۔ نہ اسے دیکھ کر مسکرائیں گے اور نہ اس کی کسی بات پر توجہ دیں گے۔ بٹ صاحب کے دائیں بائیں کی کال کوٹھڑیوں میں دوسرے قیدی بھی تھے۔ مگر ان کے پاس یہ معلوم کرنے کا ذریعہ نہیں تھا کہ دائیں بائیں ان کا ہمسایہ کون ہے؟ چار دن کے بعد وہ یہ جاننے میں کامیاب ہوئے کہ ساتھ والی کال کوٹھڑی میں سلمان تاثیر قید ہیں۔ یہ معلوم ہوتے ہی بٹ صاحب کا سرکال کوٹھڑی میں بھی فخر سے بلند ہو گیا۔ انہوں نے سوچا ’’میں جو ایک معمولی سا مزدور تھا‘ آج سلمان تاثیر کے ساتھ قید ہوں۔‘‘ اس طریقے سے پیپلز پارٹی نے بہت سے لوگوں کو عزت بخشی۔ مگر ایسی عزت صرف جیل اور کال کوٹھڑیوں تک رہتی ہے۔ اقتدار کے زمانے میں یہ عزت کسی کام نہیں آتی۔ وہاں عزت کرانے اور فائدے اٹھانے کے لیے دوسرے لوگ پہنچ جاتے ہیں۔ اس بات کا بٹ صاحب کو تب پتہ چلا‘ جب بے نظیرشہید نے پہلی مرتبہ وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ بی بی جب 10اپریل 1986ء کو پاکستان واپس آئیں‘ تو ایئرپورٹ سے مینار پاکستان تک انہوں نے بٹ صاحب کی گاڑی میں سفر کیا۔ ان کی پجاروکی جس نشست پر بی بی بیٹھی تھیں‘ بٹ صاحب نے اسے کئی ہفتے خالی رکھا اور پھر اس پر بیٹھنے والوں سے فیس وصول کرنے لگے۔جوکالم میں لکھنے چلا تھا‘ اس کے ابتدایئے میں ہی سپیس پوری ہو گئی۔ اصل میں جس خبر پر مجھے بے اختیار ہنسی آئی‘ وہ یہ تھی کہ ’’بیٹے کو ٹکٹ نہ ملنے پر جہانگیربدر نے پارٹی کی انتخابی مہم چلانے سے انکار کر دیا۔‘‘ ذہن میں آیا کہ 2008ء میں جو مہم انہوں نے چلائی تھی‘ اس میں کیا تیر مارا تھا؟کالم اب کل ہی لکھا جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved