تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     11-04-2019

سلمان آفتاب سے آئندہ امریکی الیکشن پر گفتگو

پاکستانیوں کا سب سے پسندیدہ موضوع سیاست ہے۔ کیا پاکستان اور کیا بیرون ملک۔ سب کا ہی پسندیدہ ترین موضوع سیاست ہے۔ جس کو اپنے گھر کے حالات کا پوری طرح علم نہیں ہے وہ بھی ملکی حالات پر ایسے گفتگو کرتا ہے کہ لگتا ہے پاکستان کا سب سے بڑا سیاسی تجزیہ کار ہی یہی ہے؛ تاہم بیرون ملک رہائشی پاکستانیوں کی یہ دلچسپی سمجھ میں آتی ہے کہ وہ پاکستان کی روز افزوں بڑھتی ہوئی انتظامی خرابیوں اور دگرگوں معاشی صورتحال کے باعث ہمہ وقت اپنی پریشانی کا غبار نکالنے کے بجائے ملکی سیاسی صورتحال سے آگاہی کے ذریعے اپنی پریشانی کم کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں، لیکن اپنا یہ حال ہے کہ سیاست پر گفتگو سے بعض اوقات تو اتنی زیادہ الجھن ہوتی ہے کہ باقاعدہ دل کرتا ہے‘ بندہ لڑ پڑے۔
اٹلانٹا ایئر پورٹ پر اترتے ہی ڈاکٹر انیس نے سلام دعا لینے کے بعد پہلا سوال یہی کیا کہ پاکستان کا کیا حال ہے؟ جواب دیا: ٹھیک ہے۔ کہنے لگے: کیا ٹھیک ہے؟ ڈالر کا برا حال ہے۔ مہنگائی حد سے زیادہ ہو گئی ہے۔ قرضوں پر قرضے چڑھے جا رہے ہیں اور آپ کہہ رہے ہو کہ حالات ٹھیک ہیں۔ میں نے کہا: جب آپ کو سب باتوں کا خود پتا ہے تو پھر آپ مجھ سے کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟ اگر میں کہتا ہوں ''ٹھیک ہے‘‘ تو آپ اس سے متفق نہیں ہیں۔ اگر میں کہتا کہ خراب ہیں تو آپ نے اس سے بھی اتفاق نہیں کرنا تھا۔ رہ گئی بات مہنگائی کی تو یہ ہمارا ذاتی مسئلہ ہے‘ آپ پاکستانی نژاد امریکیوں کو اس مہنگائی سے کیا؟ ڈاکٹر انیس کہنے لگے: بھلا ہمارا مسئلہ کیوں نہیں؟ ہم ان لوگوں میں سے تو نہیں جو پاکستان کا صرف زبانی کلامی درد تو رکھتے ہیں مگر سالہا سال کبھی پاکستان نہیں جاتے۔ تمہارے برادر بزرگ ہر سال کم از کم ایک بار‘ میں بھی کم و بیش ایک دو بار پاکستان جاتا ہوں۔ میں نے کہا: مجھے علم ہے کہ آپ پاکستان آتے ہیں لیکن بھلا آپ کو اس مہنگائی سے کیا فرق پڑتا ہے؟ فرض کریں جو چیز پہلے سو روپے کی تھی اور اب ایک سو چالیس روپے کی ہو گئی ہے تو آپ کی صحت پر کیا فرق پڑا ہے؟ آپ وہ چیز پاکستان میں پہلے بھی ایک ڈالر کی خریدتے تھے اب بھی وہ چیز آپ کو ایک ڈالر میں ہی دستیاب ہے۔ مہنگائی تو ہم لوگوں کا مسئلہ ہے جو چیز کو روپوں میں خریدتے ہیں۔ ڈالر والوں کو کیا فرق پڑا ہے؟ قدر تو روپے کی کم ہوئی ہے۔ ڈالر تو وہیں کھڑا ہے بلکہ ہم پاکستانیوں کے حساب سے تو آپ کا ڈالر اوپر چلا گیا ہے۔ آپ کی بچت ہو گئی ہے۔ پہلے کسی کو آپ پاکستان میں پچاس ہزار روپے بھجواتے تھے تو پانچ سو ڈالروں سے کام چلتا تھا‘ اب آپ کا وہی کام تین سو ساٹھ ڈالر میں ہو جاتا ہے۔ آپ کو تو ہر ہزار ڈالر پر آج کل دو سو اسی ڈالر بچ رہے ہیں۔ ڈاکٹر انیس زور سے ہنسے اور خاموش ہو گئے۔
امریکہ میں پاکستانیوں کو پاکستان کی سیاست سے بڑی دلچسپی ہے۔ رہتے امریکہ میں ہیں اور اگر آپ پوچھیں کہ کس سیاسی پارٹی میں ہیں تو پتا چلتا ہے کہ مسلم لیگ ن میں ہیں یا پی ٹی آئی میں ہیں‘ پیپلز پارٹی کے کارکن ہیں یا پھر ایم کیو ایم میں بڑے متحرک ہیں۔ رہنا امریکہ میں ہے۔ جینا مرنا اب امریکہ میں ہی ہے لیکن سیاسی پارٹی پاکستان کی جوائن کر رکھی ہے۔ بھارتی ہندوئوں اور سکھوں نے اس کے بالکل برعکس امریکی سیاست میں قدم رکھ لیا ہے اور کافی آگے بھی جا رہے ہیں۔ کینیڈا میں تو سکھوں نے حد ہی مکا دی ہے۔ وہاں ان کی کل تعداد پوری آبادی کا محض دو فیصد سے بھی کم ہے۔ ہرجیت سجن کینیڈا کا وزیر دفاع ہے۔ امرجیت سوہی وہاں کا وزیر برائے انفراسٹرکچر ہے۔ نودیپ سنگھ وزیر برائے سائنس و معاشی ترقی ہے اور بردیش کور سمال بزنس و ٹورازم کی وزیر ہے۔ کینیڈا کی پارلیمنٹ میں چودہ سکھ ممبران ہیں اور اس کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ بی جے پی، کانگریس یا خالصہ دل کے نہیں، کینیڈا کی سیاسی پارٹیوں کے ممبر ہیں اور پوری کمیونٹی انہیں سکھ ہونے کے حوالے سے ووٹ دیتی ہے۔ ادھر اپنا یہ عالم ہے کہ سبھی لوگ پاکستانی سیاسی پارٹیوں میں منقسم ہیں اور وہاں کی سیاست میں ایک دوسرے کی ٹانگ اپنی پاکستانی سیاسی تقسیم کے مطابق کھینچتے رہتے ہیں۔
میرے تین دوست ہیں جن کو امریکی سیاست سے نہ صرف دلچسپی ہے بلکہ وہ اس کی جزئیات تک سے واقف ہیں۔ دو تو سیاست میں سرگرم بھی ہیں۔ ہیوسٹن کے قریبی شہر بومانٹ کا طاہر جاوید اس وقت پاکستانی کمیونٹی کا سب سے متحرک سیاستدان ہے۔ وہ ہلیری کی الیکشن مہم میں امریکہ کے پورے ایک زون کا انچارج تھا اور پورے امریکہ میں اپنے سیاسی قد کاٹھ کے حوالے سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ شکاگو کا سلمان آفتاب بھی اپنے شہر میں امریکی سیاست کے حوالے سے ہمہ وقت متحرک رہتا ہے اور کوئی نہ کوئی رونق لگائے رکھتا ہے۔ تیسرا دوست لاس اینجلس والا شفیق ہے۔ اس کا ذکر سب سے آخر میں اس لیے کیا ہے کہ وہ عملی طور پر سیاست سے کوسوں دور ہے اور اس کی وجہ شاید اس کی ازلی سستی اور کاہلی ہے کہ سیاست جو بھاگ دوڑ مانگتی ہے وہ اس نے جوانی میں کبھی نہیں کی۔ خیر سے اب تو دو تین سال میں باقاعدہ سینئر سٹیزن ہو جائے گا۔
اس بار لاس اینجلس نہیں جا سکا۔ اس لیے شفیق سے سیاسی گفتگو کا جو سیشن لگتا ہے اس سے محروم رہا؛ البتہ شکاگو میں سلمان آفتاب سے خاصی تفصیلی گفتگو ہوئی۔ شفیق کا خیال ہے کہ ٹرمپ اپنا اگلا الیکشن بڑی آسانی سے جیت جائے گا، بشرطیکہ کوئی انہونی نہ ہو گئی۔ شفیق اپنی بات پر بہت پُر یقین تھا۔ اس نے تو گزشتہ الیکشن سے پہلے ہی ٹرمپ کی کامیابی کا کہہ دیا تھا‘ جب کوئی اس کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ شفیق کتابی قسم کا سیاسی تجزیہ کار ہے۔ اس کا عملی سیاست سے دور دور کا واسطہ بھی نہیں۔ میں نے سلمان آفتاب سے پوچھا کہ اگلے الیکشن کی کیا صورت نظر آ رہی ہے؟ یاد رہے کہ سلمان آفتاب بنیادی طور پر ڈیموکریٹ ہے یعنی ٹرمپ کا مخالف۔ گزشتہ الیکشن میں اس نے شکاگو میں ہلیری کلنٹن کے لیے بہت بڑا کنونشن بھی کروایا تھا اور بہت زیادہ متحرک بھی تھا۔ وہ اب بھی ڈیموکریٹ ہے اور چند دن قبل ہی لوکل الیکشنوں سے فارغ ہوا ہے۔
میں نے پوچھا: سلمان آفتاب! اگلے امریکی انتخابات میں کیا بن رہا ہے؟ وہ کہنے لگا: ٹرمپ جیت جائے گا۔ میں نے کہا: وجہ؟ اس نے کہا: پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ڈیموکریٹس کے پاس کوئی ڈھنگ کا امیدوار ہی نہیں ہے۔ لے دے کر ایک امیدوار برنی سینڈرز یعنی برنارڈ سینڈرز ہے جو ہلیری کی نسبت بہت ہی کمزور امیدوار ہے۔ گزشتہ آٹھ سال میں اوبامہ نے جو لیفٹ کی پالیسیاں اپنائیں ان کا فائدہ تو اب آنے لگا ہے‘ لیکن یہ سب کچھ ٹرمپ کے کھاتے میں جا رہا ہے اور اس کو گزشتہ الیکشن میں ریپلکنز کی جو پینتیس فیصد ''کور سپورٹ‘‘ حاصل تھی وہ اب بڑھ کر اڑتیس فیصد ہو چکی ہے کہ رائٹ ونگ کے انتہا پسند بے روزگاری کم ہونے، معاشی نمو کے بڑھنے اور معیشت میں مجموعی بہتری کو ٹرمپ کی پالیسیوں کا ثمر قرار دے رہے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے امریکہ میں اپنی سپورٹ میں بالکل نئے ووٹر پیدا کیے تھے۔ آپ انہیں متعصب امریکی یعنی ''ریڈنیک‘‘ گورا کہہ سکتے ہیں۔ یہ مختلف پاکٹس میں ہیں۔ جنوب میں تو یہ پھیلے ہوئے ہی تھے لیکن انہوں نے وسکانس، پنسلوینیا، مشی گن جو روایتی طور پر ڈیموکریٹس کے علاقے تھے‘ وہاں شاید پہلی بار باہر نکل کر ٹرمپ کے لیے ووٹ کا استعمال کیا اور نا ممکن کو ممکن کر دکھایا۔ اگلا الیکشن ٹرمپ کے لیے گزشتہ الیکشن کی نسبت بہت آسان ہو گا۔ گزشتہ بار تو مقابلہ تھا اس بار تو یکطرفہ الیکشن نظر آ رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved