میرے لئے ہی نہیں ‘بلکہ ہر اس شخص کیلئے صدرِ مملکت کا ایک نجی ٹی وی پر دیئے گئے انٹرویو میں یہ فقرہ حیران کن اور نا قابل یقین ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی تکلیف دہ بھی تھا کہ ''وہ اٹھارہویں ترمیم کو ختم نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ سننے والے سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ یہ کیا ہو رہا ہے کہ ان کے وزیر اعظم کچھ کہتے ہیں اور درست ہی کہتے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کے پس پردہ مقاصد اور ہیں ‘اس لئے ملکی سالمیت پر یقین رکھنے والی کچھ دوسری قوتیں بھی سمجھتی ہیں کہ اس ترمیم کو آگے لانے والوں کے پس پردہ مقاصد کی تہہ میں کچھ اور ہی ایجنڈہ پوشیدہ ہے۔جب یہ ترمیم منظور کرائی گئی‘ تو ہرصاحب دل پوچھنا شروع ہو گیا تھا کہ یہ ترمیم کن لوگوں نے‘ کیا سوچتے ہوئے منظور کرائی ہے؟ پی پی پی اور اسفند یار ولی خان کی جانب سے تیار کی جانے والی ا س ترمیم کے بدلے زرداری صاحب اپنے دوست نواز شریف کوجو کچھ عطا کر رہے تھے یا اس ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کے عوض جو کچھ وہ حاصل کرنے جا رہے تھے‘ اس نے سب کی زبانیں بند کر دیں۔ جب یہ ترمیم کی گئی ‘تو اس کے محرک اور مستفید ہونے والے لوگ اور تھے‘ لیکن یہ تو نئے پاکستان کا دعویٰ کرنے والے لوگ ہیں‘ انہیں تو سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہئے ‘انہیں دیکھنا چاہیے کہ یہ ترمیم جو چھ نکات کی انتہا سے کم نہیں‘ اس کی حمایت کیوں کی جا رہی ہے ؟ ممکن ہے کہ میرا یہ اندازہ یاسوچ غلط ہو‘ لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر یہ ترمیم واپس نہ لی گئی ‘تو ایک وقت آئے گا اور سب دیکھیں گے کہ اس کے اثرات ملکی وحدت اور سالمیت کو کمزور کرنا شروع کر دیں گے ۔
صدر مملکت عارف علوی جب اٹھارہویں ترمیم کی حفاظت اور اسے زندۂ جاوید رکھنے کا اپنے ٹی وی انٹرویو میں عہد کر رہے تھے ‘تو اس وقت میرے سامنے چھتیس لاکھ روپے کی خطیر رقم کی منظوری کی ایک ایسی سمری سامنے آ گئی‘ جسے دیکھتے ہوئے پہلے تو ایسا لگا کہ یہ کوئی پانچ یا دس برس پرانی فائل ہے‘ لیکن جب غورسے دیکھا تو اس پر چار اپریل 2019ء کی تاریخ درج تھی اور سمری کو منظور کرنے والے بڑے صاحب نے بھی اس رقم کی منظوری کے کاغذ پر دستخط کرتے ہوئے چار اپریل کی تاریخ ہی درج کی تھی ۔دیکھنے اور کہنے میں تو میرے لکھے گئے اس مضمون پر تنقید کرنے والوں کیلئے 36 لاکھ روپے کی یہ بہت ہی معمولی سی رقم ہے‘ جس کا تذکرہ کرنا ہی سنجیدہ ذہن کے حامل لوگوں کے نزدیک کسی طور بھی قابل غور نہیں ۔ادب‘ کلچر اور آرٹس کے فروغ کیلئے اس قسم کی تفریحات کو فروغ ملنا ہی چاہئے‘ لیکن اس کیلئے ایوان ِصدر کا انتخاب کرتے ہوئے کچھ سوچنا چاہئے تھا کہ ایک جانب تو آپ کا وزیر اعظم چائے اور بسکٹ سے ضیافت کروانے کی باتیں کر رہا ہے‘ جبکہ دوسری جانب ان سے چند میٹر کے فاصلے میں ایوان صدر میں مشاعرہ سننے کیلئے بلائے گئے مہمانوں کو لاکھوں روپے کا پر تکلف کھانا کھلا دیا جاتا ہے۔ ایک مشاعرہ کیلئے لاہور‘ پشاور‘ مظفر آباد‘فیصل آباد‘ ملتان‘ کوئٹہ اور کراچی سے 26 شاعروں کو اسلام آباد‘ ایوان صدر لایاگیا ‘جن کے آمدو رفت کے اخراجات پر سات لاکھ روپے اور بلائے گئے ان شاعروں کو فی کس پچیس ہزار روپے اور اس مشاعرے کو کنڈکٹ کرنے کیلئے جن دو میزبانوں کی خدمات حاصل کی گئیں‘ ان دونوں کو پچاس پچاس ہزار روپے ادا کئے گئے ۔مدعو کئے گئے ان25 شاعروں کو جس ہوٹل میں ٹھہرایا گیا‘ اس ہوٹل کے ایک کمرے کا کرایہ بارہ ہزار روپے تھا‘ اس طرح3 لاکھ روپے ان سب کی ہوٹل میں ایک دن کی رہائش پر صرف ہو گئے۔ ایوان صدر میں مدعو کئے گئے ان شاعروں کو ہال میں بٹھانے کیلئے شاعری اور مشاعرے کے آداب کو پورا کرنے کیلئے ہر شاعر کیلئے پانچ ہزار روپے کے حساب سے ایک ایک شال خریدی گئی ‘جس پر خیر سے ایک لاکھ چالیس ہزار کے اخراجات اٹھے‘ کیونکہ جب تک ان شاعروں کو اس ملک کے غریب عوام کے ٹیکسوں اور قرضوں تلے ڈوبے ہوئے ملک کے کمزور سے خزانوں سے پانچ ہزار روپے کی شال نہ پہنائی جاتی‘ نہ تو ان کے گلے سے شعر نکلنے تھے اور اور نہ ہی صد ر مملکت سمیت ایوان صدر میں بلائے گئے مہمانوں اور اس مشاعرے کے منتظمین کو شاعروں کے کہے گئے اشعار کی سمجھ آنی تھی۔
ایوان صدر کے اس ہال کو سجانے‘ وہاں ماحول کو دلفریب بنانے کیلئے منفرد قسم کی لائٹیں اور سائونڈ سسٹم کو پرُ اثر بنانے کیلئے قومی خزانوں کے پانچ لاکھ روپے ان انتظامات کا کنٹریکٹ حاصل کرنے والوں کی بھینٹ چڑھادیئے گئے‘ فرشی نشستوںکو مزیدآرام د ہ بنانے کیلئے نفیس تکیے اور دبیز قالین اور سفید چادریں خریدی گئیں‘ جن پر دو لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ مشاعرے کیلئے ہال میں خوبصورت سیٹ لگانے کیلئے ساڑھے تین لاکھ روپے کا ملک اور قوم کو مزید چونا لگایا گیا۔ شاعر حضرات کی آمدو رفت کیلئے کوسٹرز اور گاڑیوں کو ہمہ وقت ان کی خدمت میں حاضر رکھنے کیلئے ایک دن کیلئے ایک لاکھ روپے مختص کئے گئے۔ ان شاعروں کی دوران مشاعرہ ریفریشمنٹ کیلئے تیس ہزار روپے اور پھر اس مشاعرے میں مدعو کئے جانے والے350 معزز قسم کے مہمانوں کی خاطر تواضع کرنے کیلئے ایک پر تکلف طعام کا بندو بست کیا گیا‘ جس پر اس بے چارے غریب ملک کے2 لاکھ62 ہزار روپے ادا کئے گئے اور پھر کچھ ایسے اخراجات‘ جن میں پان سگریٹ سمیت کچھ اور خواہشات کی تکمیل کیلئے ایک لاکھ سینتیس ہزار روپے اس مشاعرے کیلئے بلائے گئے سامعین کی تفریح طبع کے نام سے اور جہاں انہیں قیام کیلئے رکھا گیا تھا‘ اس ہوٹل میں ان کی کچھ خصوصی خدمات پوری کرنے میں اُڑا دیئے گئے۔
تحریک انصاف کے وزرا ء سمیت ہمارے صدر صاحب ‘ایک طرف قوم کو یہ بتاتے ہوئے نہیں تھکتے کہ وزیراعظم عمران خان نے قومی خزانے کا ایک ایک روپیہ بچانے کیلئے اپنی ہر میٹنگ اور کابینہ اجلاس تک میں صرف چائے اور دو بسکٹ کی اجا زت دے رکھی ہے‘ لیکن یہ کیسی بچت مہم ہے؟ یہ کیسا تحریک انصاف اور عمران خان کا منشور ہے کہ ان کی پارٹی کا منتخب کیا گیا ایک سینئر رکن صدرِ پاکستان کے منصب پر فائز ہوتے ہوئے ایک بے معانی سے مشاعرے کیلئے اس ملک کے غریب عوام کا36 لاکھ روپیہ ایک چٹکی میں خرچ کر دیتا ہے۔کیا وزیر اعظم عمران خان نے صدر مملکت کو یہ نہیں بتا یا کہ ہم اس قوم کے ایک ایک روپے کی حفاطت کی قسم کھا کر ایوان صدر اور وزیر اعظم میں داخل ہوئے ہیں۔ہم نے وہ کچھ نہیں کرنا ‘جو پچھلی حکومتیں اب تک کرتی چلی آئی ہیں۔
کیا اٹھارہویں ترمیم صدر عارف علوی کیلئے اس قدر اہمیت رکھتی ہے کہ انہیں اپنے وزیر اعظم کے اس ترمیم بارے خیالات اور سوچ کا احترام ہی نہیں؟آصف زرداری اور پی پی کے لیڈران اس ترمیم کے حق میں بیانات دیتے ہوئے فرماتے ہیں ؛ آج تک کون حکمران ہے‘ جس نے اپنے اختیارات کے ہاتھ کاٹ کر ‘دوسروں کے حوالے کر دیئے ہوں؟ کون ہے‘ جو اپنی طاقت اور اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا سرمایہ کسی کو دیتا ہے؟حضور بجا فرمایا آپ نے ‘یہ 18 ویں ترمیم کی ہی اس لئے تھی کہ 2008-2013ء تک کے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار کو دیکھتے ہوئے آپ پر روزِ روشن کی طرح واضح ہو گیا تھا '' اگلی باری پھر زرداری کبھی نہیں‘‘ اس لئے آپ نے اقتدار کے تخت سے اترنے سے پہلے ہی وہ اختیار ‘جو اسلام آباد کے پاس تھے‘ دولت کی شکل میں صوبوں کو دے دیئے‘ تاکہ اپنے صوبے میں بیٹھ کر دل کھول کر اپنی مرضی کے مطا بق استفادہ کیا جا سکے۔