تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     11-04-2019

ارے اب بس بھی کرو!

پاکستان کو نیچا دکھانے کی بھرپور کوشش کے حوالے سے بھارتی میڈیا نے اب تک ُسکون کا سانس نہیں لیا۔ لڑاکا طیاروں کی ''ڈاگ فائٹ‘‘ میں جو کچھ ہوا ‘وہ کچھ ایسا غضب ڈھاگیا کہ بیشتر بھارتی چینلز ہوش کھو بیٹھے ہیں اور بولنے کے نام پر اب تک بھونک رہے ہیں‘ جھوٹ پر جھوٹ ٹھونک رہے ہیں۔ جو کچھ بھارتی میڈیا میں آج کل بیان کیا جارہا ہے یا ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ‘اُسے ڈھنگ سے بیان کرنے کے لیے تھوڑا سا ''آؤٹ آف دی وے‘‘ جانا پڑے گا۔ محترم خالد مسعود خان کی ایک مقبول ''نمکین غزل‘‘ کا چُٹکیاں لیتا ہوا مطلع یاد آرہا ہے ؎ 
تمہارے پھوپھا وہ گنجے والے جو لے گئے تھے اُدھار کنگی 
مہینہ ہونے کو آ گیا ہے‘ نہ اُس نے دِتّی نہ ہم نے منگی 
کچھ ایسا ہی معاملہ پاکستان کے ہاتھوں ہزیمت سے دوچار ہونے پر بھارتی سیاسی قیادت اور فوج کا بھی ہے۔ ایک مہینہ گیارہ دن ہوچکے‘ مگر اب تک دل کا غُبار پوری طرح نکلنے کا نام نہیں لے رہا۔ کوئی گنجا اگر اپنے سَر پر مسلسل کنگھی پھیرتا رہے تو کیا ہوگا؟ مانگ وانگ تو خیر کیا نکلے گی‘ کھوپڑی سے خون؛ البتہ ضرور نکل آئے گا! بھارت کی پروپیگنڈا مشینری کی کھوپڑی سے بھی اب خُون نکل آیا ہے‘ مگر اس کے باوجود بے بال کے سَر پر کنگھی پھیرنے کا عمل روکا نہیں جارہا۔ طے کرلیا گیا ہے کہ پاکستان کے خلاف بلا جواز ہی سہی‘ بھونپو بجایا جاتا رہے گا۔ 
26 فروری کو بالا کوٹ پر حملے کی حماقت کے بعد بھارتی قیادت کو جواب میں جو کچھ جھیلنا پڑا ‘وہ اب تک اُس کا ناک میں دم کیے ہوئے ہے اور دوسری طرف بھارتی میڈیا ہے کہ نِچلا بیٹھنے کو تیار نہیں۔ اُتاؤلے پن کا مظاہرہ ترک نہیں کیا گیا۔ اُتاؤلا پن اس بات کا کہ جو نقصان پاکستان کے ہاتھوں پہنچ چکا ہے‘ اُس کا اُدھار چُکتا کیا جائے۔ بھارت کیلئے کوئی ایسی سبیل نکل ہی نہیں پارہی کہ لائن آف کنٹرول کے دوسری طرف بھی تھوڑا بہت نقصان یقینی بنایا جائے۔ پاکستان نے ''طاقت کا توازن‘‘ ایسا بگاڑا ہے کہ اب ترازو کا پَرلی طرف کا پلڑا سَر جُھکانے کو بالکل تیار نہیں۔ 
دو لڑاکا طیاروں کی تباہی اور ونگ کمانڈر ابھینندن کی گرفتاری نے بھارتی قیادت کے ہوش کچھ اِس انداز سے اُڑائے کہ پاکستانی F-16 طیارے کی تباہی کے دعوے کی صورت میں الاپے جانے والے راگ کے سُر ٹھنڈے ہی نہیں ہو پارہے۔ طرح طرح کے دعوے کیے جارہے ہیں‘ اندازے لگائے جارہے ہیں اور حد یہ ہے کہ تصورات سے بڑھ کر اب ''نظریات‘‘ بھی پیش کیے جارہے ہیں! بھارتی میڈیا کی خبروں اور تجزیہ نگاروں کی تحریروں میں نیا ''نظریہ‘‘ یہ ہے کہ پاکستان میں موجود F-16 طیاروں کی تعداد کے حوالے سے امریکا کی تصدیق دراصل بعض مصلحتوں کی مظہر ہے! بھارتی میڈیا کے مطابق ایک بڑی مصلحت یہ ہے کہ امریکا نہیں چاہتا کہ یہ بات دنیا کے سامنے آئے کہ اُس کے جدید ترین لڑاکا طیارے کو پچھلی نسل کے ایک لڑاکا طیارے نے مار گرایا! ایک ''تھیوری‘‘ یہ بھی گردش کر رہی ہے کہ پاکستان نے جب اردن سے F-16 طیارے لیے تھے ‘تب ان میں دو F-16-B طیارے بھی تھے‘ جبکہ سرکاری طور پر یہ ظاہر کیا گیا کہ اردن سے ایک F-16-B طیارہ لیا گیا تھا اور یہ کہ اُسی اضافی (غیر ظاہر شدہ) طیارے کو تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ اب بروئے کار لایا گیا ہے! کامیڈی کنگ عمر شریف بوڑھے اور غیر فعال ہوچکے ہیں۔ شاید اسی لیے بھارتی میڈیا یہ سوچ کر انتہائے فعالیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ تاکہ ہم عمر شریف کی کمی محسوس نہ کریں! 
بھارت کی طرف سے F-16 طیارے کی تباہی کے دعوے کے جواب میں پاکستان نے صرف اتنا کہا ہے کہ اگر واقعی کوئی ثبوت ہے‘ تو پیش کردیا جائے۔ یہ ٹیڑھی کھیر ہے۔ ثبوت ہوتے تو رونا کس بات کا تھا۔ بالا کوٹ پر حملے کے سیٹیلائٹ امیجز بھی بھارت کو بیس دن بعد مل پائے تھے! یہ وضاحت بھارتی قیادت کی طرف سے اب تک سامنے نہیں آئی کہ یہ امیجز اپنے وسائل سے لیے گئے تھے یا گوگل سے کہہ کر کوئی انتظام کرایا گیا! یہ کوئی اِتنی پرانی بات نہیں کہ حافظوں میں محفوظ نہ رہی ہو۔ ونگ کمانڈر ابھینندن کی گرفتاری کے بعد سات دن تک بھارتی فضائیہ کے سربراہ ائیر چیف مارشل بریندر سنگھ دھنووا میں میڈیا کے سامنے آنے کی ہمت پیدا نہیں ہوسکی تھی؛ اگر پاکستان کو غیر معمولی نقصان پہنچانے کے دعووں میں ایسی ہی صداقت تھی‘ تو اتنے دن چُپ کا روزہ کیوں رکھا گیا؟ 
ائیرچیف مارشل بریندر سنگھ دھنووا سے زیادہ کون جانتا ہوگا کہ بھارتی فوج میں نظم و ضبط کس معیار اور سطح کا ہے۔ ونگ کمانڈر ابھینندن کی گرفتاری سے ڈیڑھ دو ماہ قبل خود ائیرچیف مارشل بی ایس دھنووا نے ایک تقریب سے خطاب کے دوران بتایا تھا کہ ائیر فورس پائلٹس رات گئے تک پارٹیز میں ہوتے ہیں اور پینے پلانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایک طرف تو وہ دیر سے سوتے ہیں اور دوسری طرف سوتے وقت نشے میں بھی ہوتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ صبح کی میٹنگ میں بیشتر پائلٹس مے نوشی کے زیر اثر جھوم رہے ہوتے ہیں! اس سے ان کی صلاحیت اور سکت کا گراف گر رہا ہے۔ بھارتی فضائیہ کے سربراہ کا یہ انکشاف بتاتا ہے کہ اس فورس کی کارکردگی کا معیار کیا ہے یا کیا ہوسکتا ہے۔ 
بھارتی میڈیا نے تو بندر کی طرح قلابازی لگاتے ہوئے ونگ کمانڈر ابھینندن کی رہائی کا بھی ''کریڈٹ‘‘ لینے کی کوشش کی تھی۔ کہا گیا کہ عالمی دباؤ کے باعث پاکستان نے گھبراکر ابھینندن کو رہا کردیا! ایک بھارتی ٹی وی پر جب اینکر نے ابھینندن کی رہائی پر پاکستان کو سراہنے کے بجائے اُس کی کِھنچائی کی کوشش کی تو ایک ریٹائرڈ جنرل کا ضمیر جاگ اٹھا اور اُس نے کہا کہ یہ پاکستان کا بڑپّن ہے کہ ابھینندن کو جنگی قیدی تسلیم کرکے اُس پر جنیوا کنونشن کا اطلاق کیا ہے‘ کیونکہ دونوں میں سے کسی بھی ملک نے جنگ کا اعلان کیا ہے‘ نہ کسی نے حالتِ جنگ میں ہونے کو تسلیم کیا ہے! جب حالتِ جنگ تھی ہی نہیں تو جنیوا کنونشن کا اطلاق بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ 
مین سٹریم میڈیا سے سوشل میڈیا کی طرف مُڑ جانے والی لڑائی ایک بار پھر مین سٹریم میڈیا کی طرف واپس آگئی ہے۔ پاکستان کے ہاتھوں ‘جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا ‘اُس کا داغ دھونے کیلئے ''کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا‘ بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘ کے مصداق بھارتی میڈیا پر عجیب و غریب تھیوریز پیش کی جارہی ہیں۔ سارا زور صرف اس نکتے پر ہے کہ کسی نہ کسی طور پاکستان کا سَر جُھک جائے۔ پاکستان تو ہر معاملے کی تحقیقات میں تعاون کے لیے تیار ہے۔ اب سَر کو اور کتنا جُھکانا ہے؟ 
غیر معمولی انتخابی کامیابی یقینی بنانے کیلئے مودی سرکار نے پروپیگنڈا اصطبل کے سارے گھوڑے کھول دیئے ‘مگر ایک بھی گھوڑا مرضی کے مطابق نہ دوڑایا جاسکا۔ اب بھی خدشہ برقرار ہے کہ عوام کی نظر میں سُرخرو ہونے کیلئے پاکستان کے خلاف غیر معمولی مہم جُوئی کی جائے گی۔ بھارتی قیادت کو اپنی بے عقلی کے گٹر پر اب ڈھکّن رکھ دینا چاہیے۔ بے پَر کی اُڑانے کا سلسلہ کہیں سے کہیں جا پہنچا ہے۔ بھارتی میڈیا کو پاکستان مخالف رویہ قابو میں رکھتے ہوئے معاملات درست کرنے کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ آئیں بائیں شائیں کرنے سے عوام کو کچھ دیر کیلئے بہلایا تو جاسکتا ہے‘ کسی بھی زمینی حقیقت کو اُلٹا یا پلٹا نہیں جاسکتا۔ 
٭٭٭

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved