تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     12-04-2019

بھٹو ازم کی نشاۃ ثانیہ

چار اپریل کو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی چالیسویں برسی منائی گئی۔ وہ ہماری سیاسی تاریخ کے متنازعہ مگر نہایت مقبول کردار تھے۔ ان کی سیاست نے ملکی سلامتی، سیاسی کلچر اور سماجی روایات پہ ناقابل فراموش اثرات مرتب کئے۔ 1928 میں سر شاہنواز کے گھر پیدا ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو 1973ء میں ٹوٹے ہوئے ملک کے نویں وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ اس سے کچھ پہلے انتقالِ اقتدار کے عبوری مرحلے میں وہ مملکت کے چوتھے صدر بھی رہے۔ بھٹو نے ابتدائی تعلیم بمبئی کیتھیڈرل اینڈ جان کینن سکول سے حاصل کی۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے سے سیاسیات میں بی اے آنرز کی ڈگری اور آکسفورڈ یونیورسٹی لندن سے ایل ایل ایم اور سیاسیات میں ایم ایس سی کر لی۔ 1951ء میں انہوں نے ایرانی کرد‘ بیگم نصرت سے دوسری شادی کر لی۔ ذاتی مراسم کی بدولت فوجی انقلاب سے قبل 1958ء میں سکندر مرزا نے انہیں وفاقی کابینہ میں کامرس کا وزیر بنایا۔ 1960ء میں قابلِ اعتماد ساتھی سمجھ کے صدر ایوب نے انہیں پانی و بجلی، مواصلات اور صنعت جیسی وزراتیں تفویض کر دیں۔ بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کرانے میں بھٹو نے اہم کردار ادا کیا۔ 1963ء میں ایوب خان نے انہیں وزیر خارجہ بنایا تو اپنے سوشلسٹ نظریات کے ذریعے بھٹو نے چینی مقتدرہ سے قربت حاصل کر لی۔ جن دنوں نظریاتی اختلافات کے باعث روس نے چین سے قطع تعلق کیا، اس وقت البانیہ کے علاوہ صرف پاکستان ہی چین کے ساتھ کھڑا رہا تھا۔ 
بھٹو نے بحیثیت وزیر خارجہ یو این فورم پہ چین کی حمایت کے علاوہ امریکہ اور چین کے درمیان بہتر تعلقات کیلئے بھی کردار ادا کیا۔ 1965ء میں ایوب خان نے کشمیر آزاد کرانے کی خاطر بھٹو کے مشورے پر آپریشن جبرالٹر جیسی مہم جوئی کی جو بالآخر پاک بھارت جنگ پہ منتج ہوئی۔ جنگ کے بعد تاشقند جیسے غیر مقبول معاہدے پہ بھٹو کی تنقید ایوب خان سے دوری کا سبب بنی۔ وزارت سے الگ ہونے کے بعد بھٹو نے ون یونٹ کے خلاف ملک گیر مہم چلا کے صوبائی خود مختاری کے نعروں کو مقبول بنایا، جس کی گونج آج بھی اٹھارہویں ترمیم کی صورت میں سنائی دیتی ہے۔ 1967ء میں انہوں نے لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ گول میز کانفرنس کی ناکامی کے بعد 1969ء میں ایوب خان مستعفی ہو گئے۔ کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان نے مارشل لاء لگا کے 1970ء میں آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا۔ الیکشن میں مجموعی طور پہ شیخ مجیب کی عوامی لیگ جیت گئی؛ تاہم مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی بڑی جماعت بن کے ابھری۔ شیخ مجیب نے چھ نکات پہ اصرار اور بھٹو نے اپوزیشن میں بیٹھنے سے انکار کر کے سیاسی ڈیڈ لاک پیدا کر دیا۔ اسی پولرائزیشن نے مشرقی و مغربی پاکستان کے عوام کو ذہنی طور پہ تقسیم کر دیا۔ جنرل یحییٰ خان نے اقتدار منتخب نمائندوں کو دینے کی بجائے مشرقی پاکستان کی سیاسی قوتوں کے خلاف فوج کشی کر کے نفرتوں کی خلیج وسیع تر کر دی۔ 1971ء میں ملک ٹوٹ گیا تو مقتدرہ کو اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کرنا پڑا۔ بلا شبہ حصول اقتدار کے بعد بھٹو نے شکست خوردہ قوم کو مایوسی کے قعر مذلت سے نکال کے امید کی روشنی دکھائی۔ ون یونٹ توڑ کے ملک کو چار انتظامی اکائیوں میں منقسم اور 1973ء کے آئین کے ذریعے صوبائی خود مختاری کو یقینی بنا کے وفاق کی حیثیت علامتی بنائی۔ ان کی پاپولر سیاست نے عوام میں بنیادی حقوق اور سیاسی آزادیوں کا شعور بیدار کیا۔ ملکی معیشت کو قومیانے کی خاطر کاٹن، رائس اور سیڈز سمیت زرعی پیداوار کو ریگولیٹ کرنے کیلئے نیشنل ٹریڈنگ کارپوریشنز بنائیں جو آج بھی زرعی معیشت کو کنٹرول کرتی ہیں؛ تاہم بد عنوان سرکاری اہلکاروں کی وجہ سے ان کی نجی صنعتی اداروں کو نیشنلائز کرنے کی پالیسی نا کام رہی۔ بھٹو عہد میں تعلیم، صحت، بینکنگ اور دفاعی شعبوں کو ترقی دینے کے لئے انقلابی اقدامات کرنے کے علاوہ ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کی بنیاد رکھی گئی۔ افسوس کہ ہزارہا خوبیوں کے باوجود ان کی لا محدود مدت کیلئے پورا، سارا اور مکمل اقتدار حاصل کرنے کی خواہش بتدریج نا قابل برداشت فسطائیت میں ڈھلتی گئی۔ سیاسی مخالفین کو بُرے ناموں سے پکارنے، قومی لیڈرز کی تضحیک اور اختلاف رائے رکھنے والے دوستوں کو سبق سکھانے کی روش نے ان کے دشمنوں کی تعداد بڑھا دی۔
سوشل ازم کے نعروں نے بائیں بازو کے جن سیاست دانوں کو ان کی طرف راغب کیا، ان میں بابائے سوشل ازم شیخ رشید، ڈاکٹر مبشر حسن، معراج محمد خان اور رانا مختار جیسے دانشور سمیت بائیں بازو کے نظریاتی کارکنوں کی قابل لحاظ تعداد شامل تھی‘ جنہیں بھٹو کی شخصیت میں ماؤ نظر آیا؛ تاہم رفتہ رفتہ شخصی استبداد کی طرف بڑھتی ہوئی بھٹو کی سوچ نے بائیں بازو کے دانشوروں کے علاوہ ایثار پیشہ سیاسی کارکنوں کو بھی مایوس کر دیا۔ شاید اسی طرز عمل کی بدولت پیپلز پارٹی رائے عامہ بنانے والے دانشوروں کی طلاقت لسانی اور قربانیاں دینے والے کارکنوں کے گرم خون سے محروم ہوتی گئی۔ ان کے عہد میں سیاسی مخالفین پہ عرصۂ حیات تنگ رہا، ان پہ ڈاکٹر نذیر اور خواجہ رفیق کو قتل کرانے کا الزام لگا۔ بھٹو نے بلوچستان میں نیپ کی منتخب حکومت تحلیل کی اور راولپنڈی میں نیشنل عوامی پارٹی کے جلسہ پہ فائرنگ کرا کے سینکڑوں کارکن شہید کرا دیئے۔ جے رحیم جیسے وہ فاضل ساتھی ایف ایس ایف کے ہاتھوں رسوا ہوئے، جنہوں نے، اسلام ہمارا دین، سوشل ازم ہماری معیشت اور جمہوریت ہماری سیاست کا فلسفہ پیش کیا۔ الغرض اختلاف رائے رکھنے والے مصطفیٰ کھر، حنیف رامے، ڈاکٹر مبشر حسن، معراج محمد خان، افتخار طاری، رانا مختار اور شکر گڑھ سے ملک سلیمان جیسے پارٹی رہنمائوں کو ذلت آمیز سلوک اور قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں؛ چنانچہ پانچ سالہ دور اقتدار کے اختتام پہ جب 1977ء کے انتخابات کا ناقوس بجا تو بھٹو کے پاس سرکاری اداروں پہ انحصار کے علاوہ کوئی سہارا باقی نہ بچا تھا۔ اب وہ سیاسی طور پہ تنہا اور دشمنوں میںگھر چکے تھے۔ الیکشن میں دھاندلی کو جواز بنا کے پی این اے کی تحریک نے ملک بھر میں ان کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی اور جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ الٹ کے جب مارشل لگایا تو انہیں ملک کی تمام سیاسی قوتوں کی حمایت حاصل تھی۔ بعد ازاں نواب احمد خان کے قتل کے الزام میں عدالتوں نے انہیں سزائے موت سنائی۔ 4 اپریل 1979ء کو بھٹو تختۂ دار پہ لٹکا دیئے گئے۔ رد عمل میں بھٹو کی باقیات نے مقتدرہ کے خلاف پُر تشدد تحریک چلائی۔ فرانس میں شاہنواز کی پراسرار موت، مرتضیٰ بھٹو کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت اور دہشت گردانہ حملے میں بے نظیر بھٹو کی شہادت اسی جدلیات کا تسلسل تھی۔ دریں اثناء سیاسی جماعتوں کی ہمنوائی میں پیپلز پارٹی جمہوریت بحالی کی تحریکوں کا حصہ بن کر کسی نہ کسی صورت، حصول اقتدار کے زینے چڑھتی، اترتی رہی۔ ادھر مرنے کے بعد بھی ان کے دشمنوں نے پیپلز پارٹی کے خاتمہ اور بھٹوز کی کردار کشی کی وہ مہم جاری رکھی‘ جو 1974ء میں شروع ہوئی تھی۔ لیکن حیرت انگیز طور پہ چالیس سال بعد اچانک کسی غیر مرئی طاقت نے غیر محسوس انداز میں ذوالفقار علی بھٹو کی دوبارہ امیج سازی کی مہم لانچ کر دی ہے۔ ان دنوں قومی دھارے کے میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا پہ بھی بھٹو کے پُر جوش خطبات کے کلپس اور ان کے عہد کے ترقیاتی کاموں کی وہ تفصیلات مل جاتی ہیں جن کا خود پیپلز پارٹی کی خاندانی قیادت کو بھی علم نہیں تھا، پراسرار ہاتھ بلاول بھٹو کی انہی خطوط پہ شخصیت سازی کر رہے ہیں جن پہ عمران خان کے امیج کو سنوارا گیا۔ شریف خاندان کا کڑا احتساب جاری ہے‘ دوسری جانب بلاول اور زرداری کے خلاف جعلی اکائونٹس کیس جیسی کارروائیوں کے ذریعے پیپلز پارٹی جیسی شریک اقتدار پارٹی کو اپوزیشن جماعت بنانے کی کاوش بھی جاری ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ 1971ء سے لے کر 1999ء تک قومی سیاست بھٹو اور اینٹی بھٹو گروہوں میں منقسم رہی‘ لیکن 1999ء کے بعد جمہوری سیاست نواز شریف اور اینٹی نواز شریف نظریے کے گرد گھومنے لگی۔ پنجابی پس منظر رکھنے والے نواز شریف صاحب کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی علامت بن جانا سندھی بھٹوز سنٹیمنٹ سے زیادہ خطرناک ہے، اس لئے نواز شریف سے جان چھڑانے کیلئے کہیں کوئی ایسی سوچ ضرور پنپ رہی ہے جو قومی سیاست کو پھر سے بھٹو اور اینٹی بھٹو عصبیتوں کے محور میں لانے کی متمنی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved