شاہ محمود قریشی کے جہانگیر ترین کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان پر انڈائریکٹ حملے اور جواباً کچھ مرکزی اور صوبائی وزراء سمیت پارٹی عہدیداروں کا جہانگیر ترین کے حق میں بیانات پروزیر اعظم صاحب نے سب کو فل سٹاپ لگانے کا حکم تو جاری کر دیا‘ لیکن یہ فل سٹاپ نہیں‘ بلکہ وہ ''کوما ‘‘ہے ‘جس کے بعد فقرہ آگے بڑھتا ہے۔شاہ محمود قریشی نے تحریک انصاف کی گرتی ہوئی ساتھ کو دیکھتے ہوئے گرم لوہے پر چوٹ لگاتے ہوئے‘ جس طرف اپنا پیغام بھیجا ہے ‘اس کی شاید وزیر اعظم عمران خان کو سمجھ نہ آسکی ہو۔ شاہ جی کا میڈیا ٹاک میں اُچھالا ہوا غبارہ دھماکوں کی صورت میں ابھی تک وزیر اعظم ہائوس سے بنی گالہ اور تحریک انصاف کے سر پر جگہ جگہ پھٹ رہا ہے۔
شاہ محمود قریشی کے جہانگیر ترین کو کوسنے کی یہ پالیسی اصولوں کی بنیاد پر نہیں‘ بلکہ اس غصے اور جھنجھلاہٹ کی وجہ سے ہے‘ جو کبھی ان کے وزیر داخلہ‘ تو کبھی پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے دور کئے جانے کے دکھ کا اظہار ہے۔شاہ جی کی منزل مرکزی وزیر بننے تک کبھی نہیںرہی ‘ان کی نظریں ہمیشہ سے ہی پنجاب کی وزارت اعلیٰ اور وزارت عظمیٰ پر رہی ہیں اور میری معلومات کے مطا بق؛ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے بعد کسی بھی مرحلے پر ان کی جگہ نئے وزیر اعظم کے انتخاب کیلئے میاں نواز شریف کا پلڑا ان کے حق میں جائے گا ‘جب اور جیسے ہی وزیر اعظم عمران خان کی جگہ تبدیل کرنے کی جانب کوئی بھی قدم بڑھانے کا سوچا گیا‘ جیسا کہ پی پی پی اس کیلئے تیار بھی ہو چکی تھی‘ لیکن یوسف رضا گیلانی آڑے آ گئے۔ گوکہ جاوید ہاشمی نے اپنے ایک دو خواجگان کی وساطت سے شاہ محمود سے دور رہنے کے پیغامات بھی میاں نواز شریف کو بھجوائے‘ لیکن ہاشمی صاحب کی ن لیگ میں مثال یا حیثیت اب اسی طرح ہے‘ جیسے دال میں کچھ کالاکی ہوتی ہے۔شاہ محمود قریشی کو جہانگیر ترین پر غصہ یا عداوت کا جگہ جگہ اظہار کرنے سے پہلے سوچنا چاہئے تھا کہ جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کو ضمنی انتخاب میں شکست دلوانے میں ان کا اتنا ہی ہاتھ تھا‘ جتنا ملتان کی صوبائی نشست سے سلمان نعیم سے شاہ جی کو شکست دلوانے میں جہانگیر ترین کا‘لیکن شاہ جی نے وار پہلے کیا تھا‘ جس کا بدلہ ترین صاحب نے چکا دیا۔
لودھراں سے صدیق بلوچ ڈی سیٹ ہوئے ‘تو اس وقت بھی شاہ جی کے مریدوں نے جہانگیر ترین کا ساتھ دینے کی بجائے اندرون خانہ صدیق بلوچ کا ساتھ دیا تھا‘ جس کا بہت سے حلقوں کو ذاتی طور پر علم ہے‘لیکن جب ترین صاحب کے ڈی سیٹ ہونے پر ان کے نو جوان بیٹے علی ترین سامنے آئے‘ تو ایک وضع دار سیا ستدان کی حیثیت سے چاہیے تو یہ تھا کہ شاہ جی جہانگیر ترین کی مخالفت ایک جانب رکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کی مدد کرتے‘ لیکن انہوں نے وہی کام کیا‘ جو وہ اس سے پہلے ترین صاحب کے خلاف کر چکے تھے۔جہانگیر ترین ‘اگر چاہتے تو2018ء کے عام انتخابات میں ان کے بیٹے زین قریشی کیلئے مشکلات کھڑی کر سکتے تھے‘ لیکن انہوں نے ایسا کرنا پارٹی مفاد کے خلاف سمجھا۔ ورنہ سلمان نعیم جیسے ایک عام نوجوان کارکن کی شاہ جی کے مقابلے میں صوبائی نشست پر کامیابی سب کے سامنے ہے۔
2018ء کے عام انتخابات کے بعد مرکز اور پنجاب میں جہانگیر ترین نے تحریک انصاف کی حکومت تشکیل دینے میں جو انتھک محنت کی ہے ‘وہ اس باغبان کی فطرت کے عین مطا بق تھی‘ جو اپنے باغ اور پودوں کو سر سبز اور پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ الفاظ پڑھتے ہوئے شاہ جی کے مریدین یا ان کے ساتھی سوچنا شروع کر دیں کہ ترین صاحب سے میرا نہ جانے کیا تعلق ہے؟ اگر میں یہ کہوں کہ زندگی میں آج تک میرا جہانگیر ترین یا ان کے بیٹوں سے ملنا تو دور کی بات‘ ان سے کبھی ہاتھ بھی نہیں ملایا ‘ ان کو کبھی قریب سے دیکھا بھی نہیں‘ تو کوئی مشکل سے یقین کرے گا ‘کیونکہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ گزشتہ دس بارہ برس سے عمران خان اور تحریک انصاف کیلئے تحریری جدو جہد کرنے والا کبھی ان سے ملا بھی نہ ہو؟ ایسے لوگ تو یہ بھی یقین نہیں کریں گے کہ میں نے آج تک بنی گالہ میں بھی قدم نہیں رکھا ۔وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ لاہور میں بھی چند نشستیں ان کے بہنوئی حفیظ نیا زی کی وجہ سے ممکن ہوئیں ‘جب وہ ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم تھے یا ایک ملاقات گارڈن ٹائون آفس میں اور ایک شفقت محمود کے گھر2013ء کے انتخابات سے پہلے ہوئی اور یہ بھی نہ جانے کس کی غفلت سے ممکن ہوئیں ‘ورنہ میں حکمرانوں ‘وزیر وں مشیروں سے دو رہنے والا شخص ہوں۔عمران خان کو آج وزیر اعظم کی حیثیت سے اقتدار میں آئے ہوئے دس ماہ ہونے کو ہیں‘ کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ وزیر اعظم ہائوس اور عمران خان کی کسی بھی پریس یا میڈیا بریفنگ میں مجھے دیکھا گیا ہو۔ ممکن ہے کہ اس کی وجہ چوہدری درانی گروہ ہو۔
میں ان لوگوں میں سے نہیں ‘جو کسی لالچ یا سہانے سپنے سجائے کسی کی مخالفت یاحمایت کرتے ہیں۔ سرکاری اداروں نے بھی گزشتہ بارہ برس سے اپنے ہر قسم کے پروگرام میں میرا داخلہ بند کر رکھا ہے‘ تو کیا میں اس غصے میں اپنے ملک اور اس کے اداروں کے حق میں لکھنا بند کر دوں؟ اس کا مطلب ہوا کہ میرا عشق میرا وطن نہیں‘ بلکہ چند ایک بااختیار ادارے ہیں؟یہاں پر تو لوگ کسی وزیر مشیر یا بڑے افسر کے حق میں ایک مضمون لکھنے کے بعداس کا طواف شروع کر دیتے ہیں‘ لیکن میں تو ان چند لوگوں میں سے ہوں‘ جنہوں نے بے لوث ہو کر تحریک انصاف کیلئے وہ کچھ کیا ہے‘ جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ بہت سے لوگ تو مجھے سکیورٹی فورسز کی تعریف اور بھارت جیسے دشمن کے خلاف برس ہا برس سے لکھنے پر ایسے ایسے خطابات سے نوازتے ہیں کہ ہنسی آتی ہے۔ اب ان لوگوں کو کس طرح بتائوں کہ میںکسی کیلئے نہیں ‘بلکہ ان شہیدوں اور غازیوں کیلئے لکھتا ہوں ‘جو روزانہ میرے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو رہے ہیں‘ وہ جو کبھی سیا چن کی برف پوش چوٹیوں تو کبھی سمندروں کی گہرائیوں اور سر کریک جیسے ویران جزیرے پر دشمن سے اپنی سمندری حدود کی حفاظت کرتے ہیں ان کیلئے لکھتا ہوں‘ جو مائنس تیس چالیس تک کی خون منجمد کردینے والی سردی میں زندگی بھر کی معذوری کا عذاب سہتے ہوئے کبھی اپنے ہاتھوں تو کبھی ٹانگوں اوربازوئوں کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ میں تو ان کیلئے لکھتا ہوں ‘جو بلوچستان‘ وزیر ستان میں رسم شبیری کی پیروی کرتے ہوئے بھارت کے سدھائے ہوئے جلادوں کو ان کے آقائوں سمیت صفحہ ہستی سے مٹاتے ہوئے اﷲ کی راہ میں اپنی گردنیں کٹوا تے ہیں۔ میرا قلم اور ذہن تو صرف ان کیلئے لکھتا ہے‘ جو آسمان کی وسعتوں میں دشمن کی برتری کو زمین چٹاتے ہوئے اپنا آپ قربان کر دیتے ہیں۔ میں کسی ادارے کو خوش کرنے یا ان کے بڑے افسران کے قریب بیٹھنے کیلئے نہیں لکھتاتو پھر یہ جہانگیر ترین کون سی چیز ہے ۔
جہانگیر ترین کا نام لے کر کی گئی لفظی گولہ باری کا یہ راکٹ دیکھا جائے تووزیر اعظم کے اس مورچے پر فائر کیا گیا ہے‘ جہاں سے وہ اپنے بد ترین سیا سی مخالفین کا مقابلہ کر رہے ہیں‘ اس لئے جہانگیر ترین کا نام استعمال کرتے ہوئے یہ سرجیکل سٹرائیک جہانگیر ترین پر نہیں‘ بلکہ وزیر اعظم پر کی گئی ہے‘ کیونکہ اب تک ہر ٹی وی ٹاک میں اینکرز کے ساتھ ساتھ نون اور فلوس نے یک جان دو قالب ہوکرعمران خان پر شاہ جی کے بیان کے حوالے سے اپنی بندوقوں کا رخ وزیر اعظم کی جانب کیا ہوا ہے ۔ شاہ صاحب کا یہ فوبیا نہ جانے تحریک انصاف پر اور کیا زخم لگا ئے گا۔