تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     14-04-2019

بلیک ہولز اورلبرلز کی خوشیاں…(1)

کائنات کے ایک بہت بڑے بلیک ہول(Supermassive black hole) کی تصویر منظرِ عام پر آنے سے ایک شور اٹھا ہے ۔ بلیک ہول نہیں بلکہ یہ اس کے ایونٹ ہورائزن کی تصویر ہے ۔ سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ بلیک ہول ہوتا کیا ہے ؟ انسان کی فطرت ایسی ہے کہ وہ unknownچیزوں میں کشش محسوس کرتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد انسان افریقہ سے نکلا اور انٹارکٹکا تک گیا۔ کوئی برفانی چوٹی ایسی نہیں ‘ جہاں انسانی قدم نہ پہنچے ہوں۔ان گنت اموات بھی انسان کو دنیا exploreکرنے سے روک نہیں سکیں۔اسی طرح ‘ جس چیز کی انسان کو سمجھ نہیں آتی‘ اس میں وہ اور زیادہ تجسس میں مبتلا ہو جاتاہے ۔ اسی لیے برمودا ٹرائی اینگل سے لے کر ہر نا معلوم انوکھی چیز میں وہ دلچسپی لیتا رہا ہے ۔ نامعلوم چیزوں کی یہی کشش ہے ‘ جو انسان کو کھینچ کر زحل کے چاند ٹائٹن تک لے گئی ۔ یہی نہیں بلکہ وائیجر 1کی صورت میں ایک مشن نظامِ شمسی کی حدود سے باہر جا چکا ہے ۔ 
بلیک ہول کو انسان دیکھ نہیں سکتا لیکن اس کی وجہ سے ایسے مناظر‘ ایسے phenomenonوجود میں آتے ہیں ‘ جو انسان کے لیے انتہائی دلچسپی کا باعث ہیں ۔ بلیک ہو ل ایک انتہائی کشش رکھنے والی چیز ہوتی ہے ‘جس میں مادے کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن ہماری آنکھ اسے دیکھ نہیں سکتی۔ اگر آپ کرّہ ٔارض پہ اتنا دبا ئوڈالیں کہ وہ سکڑ کر ایک گیند جتنی رہ جائے لیکن اس میں موجود مادہ اتنا ہی رہے تو پھر وہ انتہائی کثیف ہو جائے گی۔ پھر اس گیند کا ایک ذرّہ بھی ایک بہت بڑے پہاڑ سے زیادہ وزنی ہوگا ۔جیسا کہ لوہے کا ایک ٹکڑا اپنے حجم کے برابر روئی سے کہیں زیادہ وزنی ہوتا ہے ۔ 
تو بلیک ہولز میں اس قدر زیادہ مادہ اس قدر کم جگہ میں قید ہوتا ہے کہ اس کی کششِ ثقل اس قدر زیادہ ہو جاتی ہے کہ یہ روشنی کو بھی اپنے چنگل سے فرار ہونے نہیں دیتا ۔ہم کسی چیز کو تب ہی دیکھ سکتے ہیں ‘ جب اس پر پڑنے والی روشنی منعکس ہو کر ہماری آنکھ تک پہنچے ۔ تو جب روشنی پلٹ ہی نہیں سکے گی تو ظاہر ہے کہ اس چیز کو دیکھنا نا ممکن ہو جائے گا۔ گو کہ ہم اسے دیکھ نہیں سکتے لیکن ہمیں یقینی طور پر معلوم ہے کہ وہ وہاں موجود ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ چھت سے ایک ٹشو پیپر نیچے پھینکیں ۔ وہ ٹشو پیپر اپنے ہلکے وزن کی وجہ سے آہستہ آہستہ گرنے کی بجائے لوہے کی طرح تیزی سے زمین پہ گر کے ایک گڑھا پیدا کر دے تو ظاہر ہے کہ کوئی چیز اس پر اپنا وزن ڈال رہی ہے اور ہم اسے دیکھ نہیں پا رہے ۔ اسی طرح تقریباً سب کہکشائوں کے مرکز میں انتہائی عظیم الشان بلیک ہولز موجود ہیں ۔ ان کے وہاں موجود ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ بڑے بڑے سورج اس مرکز کے گرد طواف کر رہے ہیں ۔ 
دنیا میں نظر آنے والا کوئی بھی مظہر بغیر کسی وجہ کے وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاتھ سے جو بھی چیز چھٹتی ہے ‘ وہ زمین پہ جا گرتی ہے ۔ یہ مظہر بار بار ہونے کی وجہ سے ہمیں دلچسپی کا حامل نہیں لگتالیکن جو سوچنے والے دماغ تھے‘ انہوں نے سوچا کہ چیزیں نیچے کیوں گر رہی ہیں ‘ اوپر کیوں نہیں جا رہیں یا اپنی جگہ معلق کیوں نہیں ہو جاتیں ۔ تو وہ کششِ ثقل تک جا پہنچے ۔ اسی طرح انسان اپنے تجربات کی وجہ سے جانتا ہے کہ اگر ایک گیند ایک مرکز کے گرد گھوم رہی ہے تو اگر نظر نہ بھی آرہا ہو تو کوئی قوت موجود ہے ‘ جس نے اسے گھومنے پر مجبور کر رکھا ہے ۔ جب انسان نے سورج اور سیاروں کو دیکھا تو وہ ان کے مداروں کی حقیقت تک پہنچ گیا ۔ یہ کہ سورج کی کششِ ثقل نے زمین اور دوسرے سیاروں کو باندھ کر رکھا ہوا ہے ۔اور کہکشاں کی کششِ ثقل نے سورج کو باندھ کر رکھا ہوا ہے ۔ اس سلسلے میں سٹیفن ہاکنگ سب سے زیادہ کریڈٹ نیوٹن کو دیتا ہے کہ اس نے نہ صرف سیاروں کے مدار دکھائے بلکہ ان کی وضاحت کے لیے درکار ریاضی کے اصول بھی بیان کیے ۔ 
اسی طرح جو بلیک ہولز ہیں ‘ان کے گرد ستارے گردش کر رہے ہوتے ہیں بلکہ جو super massive black holesہیں ‘ ان کے گرد تو پوری پوری کہکشاں آہستہ آہستہ گھوم رہی ہے ۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ بلیک ہولز نے کہکشائوں کو ان کی موجودہ شکل اختیار کرنے میں مد د دی ہے ۔
ایونٹ ہورائزن آسان الفاظ میں وہ لکیر ہے ‘ جس سے آگے ایک بھی قدم رکھنے والی کوئی چیز بلیک ہول کی گرفت سے بچ کر واپس نہیں آسکتی۔ وہاں سے پھر روشنی بھی واپس نہیں آسکتی ۔ یہی وجہ ہے کہ ایونٹ ہورائزن سے آگے دیکھنا انسان کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ کرّۂ ارض کے مختلف کونوں میں موجود دوربینوں کی مدد سے ‘ فلکیات دانوں نے پہلی بار ایک بلیک ہول کے ایونٹ ہورائزن کی تصویر بنائی ہے ؛چنانچہ کائنات کے بارے میں انسانی علم میں اضافہ ہوا ہے ۔یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔
یہاں تک تو سب کچھ ٹھیک ہے لیکن اب ہمارے لبرل دوستوں کا کہنا ہے کہ مسلمان اب یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہمیں تو اس بات کا 1400سال پہلے ہی سے علم تھا ۔ یہاں مجھے کالج دور کا ایک واقعہ یاد آتاہے ۔ ایک دوست کہنے لگا کہ قرآن میں ہر واقعہ موجود ہے۔ اس نے کہا کہ قرآن میں نائن الیون کی طرف بھی اشارہ دیا گیا ہے ۔ میں نے کہا کیسے ؟ اس نے کہا کہ جڑواں مینار گرنے کا واقعہ نو گیارہ کو ہوا تھا۔پھر اس نے قرآن کی سورتوں کے نمبر اور آیات کے نمبر دکھانے شروع کیے اور ایک آیت دکھائی جس میں اونچی عمارتوں کا ذکر تھا ۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی باتوں پر مذاق تو اڑنا ہی ہے ۔ سیکولر حضرات کہتے ہیں کہ پہلے تو مسلمان کچھ کرتے ہی نہیں ۔ ساری ایجادات اور ساری دریافتیں تو مغرب کرتاہے اور جب وہ ایسا کر لیتاہے تو پھر آپ کہتے ہیں کہ قرآن میں پہلے سے اس کا ذکر موجود تھا ۔ یہ تو معاملے کا ایک پہلو ہے ۔ دوسرے بہت سارے پہلو بھی موجود ہیں۔ 
ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا کہ مسلمان ہر لحاظ سے پسماندہ ‘ جب کہ یورپ اور امریکہ ترقی یافتہ تھے۔ اور نہ ہی مغرب کی یہ برتری ہمیشہ برقرار رہے گی ۔ یہ جو پچاس کے لگ بھگ اسلامی ممالک آپ کو کرّہ ٔ ارض پہ نظر آرہے ہیں ‘یہ باقیات ہیں ‘ ایک عظیم سپر پاور کی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ مسلمان اب باقی زندگی پسماندگی میں ہی گزاریں گے ۔پھر یہ کہ مغرب اگر مسلمانوں کا ان کی زبوں حالی کی بنیاد پر مذا ق اڑائے تو بات کچھ سمجھ بھی آتی ہے ۔ مسلمانوں میں سے ہی کچھ یہ کہیں کہ ہم زیادہ پڑھے لکھے ہیں اور ہم باقی مسلمانوں کا مذاق اڑائیں گے ‘ یہ ایک ایسا phenomenonہے ‘ جس پر انتہائی غور و فکر کے باوجود مجھے سمجھ نہیں آسکی۔ آپ غور کریں کہ اگر سر سید احمد خان بجائے یونیورسٹی بنانے اورمسلمانوں کو انگریزی سکھانے کے ‘ خود ہی انگلش بول بول کر مسلمانوں پر طنز کرتے رہتے ۔ یا قائدِ اعظم بر صغیر کے مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کرتے ہوئے ایک الگ ملک حاصل کرنے کی بجائے ان سے کہتے کہ تم سب ہو ہی اس قابل کہ ہمیشہ محکوم رہوتو؟ (جاری ) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved