تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     25-04-2013

’ایوان ‘ سے گیا کون سلامت!

جب کسی رہنما کی مقبولیت کا سورج زوال پزیر ہوتا ہے تو بہت سے حلقے، جو پہلے اُس کے حلقہ ٔ ارادت میں ہوتے ہیں، کف چڑھائے ،غصے سے کھولتے ، گرجتے برستے گھیرے میں آئے اُس شخص پر جھپٹ پڑتے ہیں جسے حالات کی ستم ظریفی نے ہیرو سے زیرو بنا دیا ہو۔ عوامی رائے کو اس حد تک برانگیختہ کرنے میں میڈیا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ان اشتعال انگیز لمحوں میں اُس رہنما نے جو بھی اچھے کام کیے ہوتے ہیںوہ بھی فراموش کر دیے جاتے ہیں۔ صدر ایوب سے لے کر صدر مشرف تک ہم نے کتنوں کے ساتھ یہی سلوک کیا ہے۔ ہمارے ملک کی سیاسی بساط پر کیسے کیسے شاہ سوار ذلیل و خوار ہوئے ہیں؟ صدر ایوب کا دور پاکستان میں صنعتی ترقی کا سنہرا دور تھا۔ بھٹو کے اچھے کام بیک جنبشِ قلم فراموش کر دیے گئے اور جب اُن کو سپریم کورٹ نے پھانسی کی سزا سنائی تو (اُس وقت ) زیادہ تر رائے عامہ اُن کو واقعی قاتل سمجھ کر عدالتی فیصلے سے اتفاق کر رہی تھی۔ تاہم یہ ضیاالحق تھے جنہیں بھٹو کو پھانسی کے تختے تک لے جانے کی وجہ سے نفرت کا نشانہ بننا پڑا اور جب اُن کا جہاز بہاولپور کی فضائوں میں تباہ ہوا تو بہت کم ایسے تھے جن کو اُن کی ہلاکت کا واقعی دکھ ہوا ہو۔ جب بے نظیر بھٹو کو صدر اسحاق خان نے منصب سے ہٹایا تو رائے عامہ کا خیال تھا کہ وہ نوجوان رہنما واقعی ’’سیکورٹی رسک‘‘ تھیں۔منصب سے ہٹنے سے پہلے محترمہ ہر ویک اینڈ پر جب کلفٹن روڈ سے گزرتیں تو ہمارے گھر کی چھت پر بھی پولیس والے ایستادہ ہوتے تھے جبکہ وزیر ِ اعظم کی مرسڈیز کار لاتعداد کاروں کے قافلے کے ساتھ وہاںسے گزرتی۔اُس کے بعد پاکستانی سیاست کے منظر نامے پر اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے ایک اور ’’نوجوان ‘‘ ، محمد نواز شریف ، ابھرے۔اُن کا دور بدعنوانی اور اقربا پروری سے عبارت تھا۔ ایسی ہی فضول خرچیوں کی وجہ سے جب سرکاری خزانے میں خطرے کی سرخ بتی روشن ہو جاتی اور عوام کی قوت ِ برداشت جواب دے دیتی تو اسٹیبلشمنٹ کسی نہ کسی بہانے سے حکومت کو رخصت کرتی اور خود براجمان ہو جاتی۔ دوسری مرتبہ جب بے نظیر بھٹو نے منصب سنبھالا تو پہلے تجربے سے سبق سیکھتے ہوئے اس مرتبہ اپنے شوہر کو بھی ساتھ ہی رکھا۔ ان کے ذمے یہ کام لگایا کہ وہ وزیر ِ اعظم کے خلا ف ہونے والی سازشوں پر نظر رکھیں اور اُن کو کچل دیں۔ اس مرتبہ اسلام آباد کو آصف زرداری کے لیے قابل ِ قبول بنانے کے لیے اُن کے گھوڑوں کے لیے ائیر کنڈیشنڈ اصطبل بنائے گئے۔ ایک وفاشعار بیوی ، جو ہر طریقے سے اپنے شوہر ِ نامدار کو خوش رکھنے کی کوشش کرتی ہے، محترمہ نے زردای صاحب کو سرمایہ کاری کا قلم دان سونپ دیا۔جناح ایونیوپر واقع اپنے شاندار دفتر میں زرداری صاحب اُن کاموں میں مصروف ہو گئے جن کی بازگشت ہنوز باقی ہے۔ اس دوران جب مرتضی بھٹو کا قتل ہوا تو سب جانتے تھے اب محترمہ کے دن بھی گنے جا چکے ہیں۔ اُن کو ایک مرتبہ پھر اقتدار سے رخصت کر دیا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ پی ٹی وی کی نشریات میں وہ ’’محترمہ ‘‘ سے یک لخت ’’ بے نظیر ‘‘ بن گئیں۔ عقل حیران تھی کہ ’’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ‘‘۔ اُس وقت پاکستانی رائے عامہ اس جوڑے کو واقعی بدعنوان سمجھتی تھی۔ اُس وقت صدر فاروق لغاری کی نگران کابینہ کے مشیر مسٹر نجم سیٹھی نے بی بی سی کی نمائندہ جین کاربن(Jane Corbin) کو بتایا ۔۔۔’’میں محترمہ کو اپنا دوست سمجھتا تھا ؛ چنانچہ میں نے اپنا فرض سمجھ کر اُن کو بتایا کہ عوام اُن کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔ میںنے اُن کو بتایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ زرداری ایک چالاک انسان ہیں اور اُنھوںنے محترمہ کے عہدے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا کھیل کھیلا ہے؛ چنانچہ وہ بھی ایک طرح سے اُس کے گناہوں میں شریک ہیں۔ اس پر محترمہ آگ بگولہ ہوگئیں اور مجھ سے بہت غصیلے لہجے میں بات کی۔ وہ تنقید برداشت کرنے کی روادار نہ تھیں۔ ‘‘ جب میاں صاحب پر دوسری مرتبہ اقتدار کی دیوی مہربان ہوئی تو اس مرتبہ ان کے ساتھ (رستم ِ زما ں) سیف الرحمن بھی تھے جو احتساب کی تلوار تھامنے سے پہلے مزنگ چونگی ، لاہور، میں ادویات بیچا کرتے تھے۔ احتساب کمیشن نے محترمہ اور سابقہ مرد ِ اول کو گرفت میںلانے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کر ڈالے۔حسن وسیم افضل نے سرکاری خرچ پر سوئٹیزر لینڈ کے‘ جہاں مبینہ طور پر مس بھٹو اور زرداری نے ساٹھ ملین ڈالر جمع کرائے تھے، کئی چکر لگاتے ہوئے رقم کی بازیابی کی ناکام کوشش جاری رکھی۔ سیف الرحمن نے بہت سوں کو جیل میں ڈالا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ (نجم سیٹھی پر بھی اُسی دوران تشدد ہوا)۔ آخر کار نواز شریف کا اقتدار بھی اپنے انجام تک پہنچا، اور ایک مرتبہ پھر عوام نے کہا کہ ٹھیک ہی ہوا ہے۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے جب شریف برادران گرفتار ہوئے لوگوںنے سڑکوں پر آکر مٹھائیاں تقسیم کیں۔ اس کے بعد مشرف پاکستانی سیاست میں داخل ہوئے۔ میں اُس وقت امریکہ میں تھی جب مشرف نے عوامی رائے لینے کے لیے ریفرنڈم کرایا کہ کیا لوگ اُن کو اپنا صدر دیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں، ہم نیویارک گئے اور پاکستان مشن کے سامنے جہاں پاکستانی اپنی رائے دے رہے تھے، موجود رہے۔ اُس وقت امریکہ اور پاکستان میں لوگوں نے مشرف کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ شروع میںتو مشرف نے بڑی سادگی، دانائی اور احتیاط سے ریاست کو چلانا شروع کیا لیکن پھر 9/11 کا سانحہ پیش آگیا۔ اس نے راتوں رات مشرف کو امریکہ کے لیے انتہائی اہم شخص بنا دیا۔ اس وقت میرے سامنے یکم نومبر2001ء کی ’’نیویارک ٹائمز ‘‘ کی ایک کاپی پڑی ہے۔ اس کی ہیڈلائن ہے۔۔۔’’پاکستانی قوم تبدیل ہو گئی۔ پاکستانی رہنما نے امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے کی حامی بھر لی‘‘۔ امریکہ نے فوجی ساز و سامان کے علاوہ پاکستان کے دفاعی اداروںکو دس بلین ڈالر فراہم کیے جبکہ حکومت کو بھی مالی امداد ملی۔ اس کا مطلب ہے کہ مشرف نے امریکہ کے ساتھ اچھے طریقے سے ڈیل کی۔ تمام پتے مشرف کے ہاتھ میں تھے لیکن ، جیسا کہ ان کے آشیانے کی تعمیر ہی بربادی پر تھی، وہ اپنی انا کو کنٹرول نہ کر سکے او ر جنرل ضیاکے بعد پاکستانی معاشرے کے لیے سب سے زیادہ قابل ِ نفرت صدر قرار پائے۔ چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کو معزول کرکے گھرمیں قید کرنا مشرف کی فاش غلطی تھی۔ اس کے نتیجے میں سول سوسائٹی کے تعاون سے وکلا کی فقیدالمثال تحریک ابھری۔۔۔ باقی تاریخ ہے۔ اس سال ستمبر میں زرداری صاحب کی مدت ِ صدارت تمام ہو جائے گی۔ نومبر میں کیانی صاحب کی اور دسمبر میں چیف جسٹس پاکستان کی مدت بھی تمام ہو جائے گی۔ ان تینوں کے جانے سے پاکستان میں گزشتہ پانچ سال کے دوران طاقت کے لیے ہونے والی جدوجہد کا ایک باب تمام ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے رہنما مستقل مزاج نہیں۔ ارسلان افتخار چوہدری کا کیس ابھی تک نہیں نمٹا۔ سپریم کورٹ کے سامنے مشرف کیس بھی ایک امتحان سے کم نہیں۔ اگر انصاف کے تقاضے پورے نہ ہوئے تومیڈیا عدلیہ کو آڑے ہاتھوں لینے کے لیے کمر بستہ ہے۔ ہمارے لوگوں کی تفریح کے لیے کوئی نہ کوئی ہنگامہ گرم رہتا ہے۔ ہم عزت سے ’’رخصتی ‘‘ کب سیکھیں گے ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved