تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     15-04-2019

سُرخیاں‘متن اور اس ہفتے کی غزل

خیبرپختونخوا حکومت ‘کارکردگی بہتر بنائے: وزیر اعظم عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''خیبر پختونخوا حکومت‘ کارکردگی بہتر بنائے‘‘ جبکہ پنجاب حکومت سے یہ بات اس لئے نہیں کہی جا سکتی کہ اس کی کوئی کارکردگی ہے ہی نہیں‘ جسے بہتر بنانے کیلئے کہہ سکیں‘ اس لئے خیبرپختونخوا حکومت کو بھی پنجاب حکومت کی تقلید کرنی چاہیے‘ جبکہ وفاقی حکومت پہلے ہی اس فارمولے پر عمل کر رہی ہے‘ کیونکہ وہ سنہری مقولے 'یک کردن وصد عیب‘ پر عمل کر رہی ہے اور ایسے ہی بہت سے نادر روزگار مقولوں کی تلاش میں ہے؛ اگرچہ جو کچھ ہماری زبان سے نکل جائے وہ بذاتِ خود ایک مقولہ ہی ہوتا ہے ‘جنہیں جمع کر کے کتابی شکل دینے کیلئے الگ سے کام ہو رہا ہے‘ کیونکہ ہم زبانی کلامی پر یقین نہیں رکھتے‘ بلکہ اس کتاب کو ایکسپورٹ بھی کیا جائے گا‘ جس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ہماری برآمدات میں روز بروز جو کمی واقع ہو رہی ہے‘ اس کا تدارک ہو سکے گا اور معیشت کی حالت بہتر ہو جائے گی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صوبوں میں گڈگورننس کے معاملات پر بریفنگ لے رہے تھے۔
مائیں‘ بہنیں اور بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں: آصف علی زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''مائیں‘ بہنیں اور بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں‘‘ اس لئے‘ اگر ان کے ذریعے منی لانڈرنگ وغیرہ کر لی جائے‘ تو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اسی لئے فریال تالپور پر بھی یہ اعتراض اور انکوائری غلط ہے؛ البتہ اس کاروبار میں ان کا باقاعدہ حصہ ہونا چاہیے‘ بجائے اس کے کہ انہیں مفت میں ٹرخا دیا جائے اور اس کا اندازہ ان بیبیوں کے اثاثوں سے بھی لگایا جا سکتا ہے‘ تاہم منی لانڈرنگ کا قانون ہی سراسر غلط ہے کہ کالے دھن کو سفید کرنا تو ایک قابل ِتعریف عمل ہے ‘جبکہ عمارتوں پر سفیدی اس لئے کروائی جاتی ہے کہ وہ صاف ستھری اور زیادہ خوبصورت لگیں‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ہاں خوبصورتی کا معیار ہی مختلف ہے‘ خوبصورتی سے یاد آیا‘ بیچاری ایان علی پتا نہیں آج کل کن حالوں میں ہے اور کافی عرصے سے اس کی کوئی خیبر خبر نہیں آئی۔ آپ اگلے روز شہباز شریف کی صاحبزادیوں کے گھر پر کارروائیوںپر اپنا ردعمل ظاہر کر رہے تھے۔
ہر روز ایک نئے چیلنج کا سامنا ہوتا ہے: مریم نواز
مستقل نااہل‘ سزا یافتہ اور سابق وزیراعظم کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ہر دن ایک نئے چیلنج کا سامنا ہوتا ہے‘‘ لیکن ان میں بالآخر کامیابی اور سرخروئی میسر آتی ہے‘ جیسا کہ یکے بعد دیگرے سب کی ضمانتیں ہو رہی ہیں اور انتقامی کارروائیوں کی جگہ انصاف سے کام لیا جا رہا ہے اور ماشاء اللہ ساتھ ہی ساتھ پلی بار گین کے سلسلے میں بھی پیش رفت ہو رہی ہے اور والد صاحب سمیت ہم سب نے جو خاموشی اختیار کر رکھی ہے‘ اس کے نہایت مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں اور جونہی چچا جان حسین نواز وغیرہ سے مشورہ کر کے واپس آتے ہیں‘ چار پیسے حکومت کے ماتھے مار کر جان چھڑا لی جائے گی‘ جبکہ میں نے وزارتِ عظمیٰ کی باقاعدہ ریہرسل پھر سے شروع کر دی ہے اور حلف اٹھانے کے بعد پہلی تقریر کا رٹا لگانا شروع کر دیا ہے اور والد گرامی نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ بُرے دنوں کے بعد اچھے دن بھی آتے ہیں۔ آپ اگلے روز سوشل میڈیا کے ذریعے پیغام نشر کر رہی تھیں۔
ملین مارچ کا فیصلہ حتمی ہے‘ پیچھے نہیں ہٹیں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ملین مارچ کا فیصلہ حتمی ہے‘ پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘ کیونکہ حکومت کو اپنے ظالمانہ رویے پر غور کرنے کیلئے جتنی مہلت ضروری تھی‘دی گئی‘ اب اس سے زیادہ مدت گزر چکی ہے اور اس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی‘ جس سے پتا چلتا ہے کہ اس نے جُوں گولی کا استعمال شروع کر دیا ہے‘ جبکہ بیچاری جوؤں کی جان لینے کی بجائے میری المناک صورتحال پر غور کرنا‘ اس کیلئے بہت آسان تھا۔ اوپر سے اپوزیشن اکٹھی ہونے کا نام نہیں لے رہی ‘جبکہ زرداری صاحب کا رویہ نہایت مثبت ہے اور وہ حسب ِتوفیق خاطر خدمت بھی کرتے رہتے ہیں ‘جبکہ نواز شریف کا حال تو یہ ہے کہ ع
مُکے تے مِل ماہیا
خدا انہیں ٹھیک ہدایت دے کہ اگر زرداری کے ساتھ صلح کرنے پر تیار نہیں ہوئے تو میرا ہی کچھ کر گزریں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی غزل:
لگتا ہے کہ یہ دن ہی نہیں رات سے باہر
یا بات کوئی اور بھی ہے بات سے باہر
مطلوب ہمیں اپنی شفاعت ہے یہاں بھی
جاتے جو نہیں سایۂ سادات سے باہر
کچھ تُو بھی ہُوا دعوتِ شیراز سے غافل
کچھ ہم بھی رہے تیری مدارات سے باہر
مر جائیں گے ہم اور تجھے پھر ہو گی میسر
اک تازہ ہوا اپنے خیالات سے باہر
کب سے تری آواز کو ترسا بھی کیے ہم
نکلے بھی نہیں تیری ہدایات سے باہر
کچھ اُس کی حدیں بھی ہیں مقرر مرے آگے
کچھ میں بھی نکلتا نہیں اوقات سے باہر
ہم خود ہی وہاں سیر کو جاتے نہیں‘ ورنہ
باغات بہت ہیں ترے باغات سے باہر
خود سے میں یہی سوچ کے باہر نہیں نکلا
کچھ بھی نہیں موجود مری ذات سے باہر
اتنی سی رسائی بھی ظفرؔ‘ کم تو نہیں ہے
پھرتے ہیں ابھی اُس کے مضافات سے باہر
آج کا مطلع
ایک الجھے ہوئے خواب ِ تماشا سے نکل آئے
جب تو نے کہا ہم تری دنیا سے نکل آئے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved