برطانیہ کی تاریخ میںگزشتہ جمعرات ‘سیا ہ ترین دن تھا۔اس روزہر جانب قانون اور انصاف کے چراغ کی روشنی میں اقوام عالم کے متفقہ طور پر منظور کئے گئے‘ قانون کو امریکی و برطانوی ٹھوکروں سے توڑ دیا گیا۔ تاریخ انسانی میں یہ دن میگنا کارٹا کی موت بن کر برطانیہ کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بن گیا ۔ اس دن برطانوی قانون ہار گیا اور امریکی فاشزم کا طاقت ور مکا جیت گیا۔ شرافت اور اصول ہار گئے اور نشے میں ڈوبی ہوئی بدتمیزی جیت گئی۔ سسلین مافیا اور گاڈ فادر جیت گیا اور میگنا کارٹا‘منہ کے بل گر گیا۔ اس دن وکی لیکس کے جولین اسانچی کو لندن میں اکویڈور کے سفارت خانے سے جہاں وہ سیا سی پناہ لئے ہوئے تھا ‘برطانوی پولیس کے چھ اہلکار عمارت کے اندر گھس کر اس کے ہاتھ پائوں باندھ کر اورا سے گھسیٹتے ہوئے باہر لائے‘ تو اس کو دیکھنے والوں کوایسے لگا‘ جیسے برسوں سے محفوظ کئے گئے کسی مردے کو قبر سے نکال کرلایا جا رہا ہو۔اس روز ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کورٹ لندن کے باہر وکی لیکس کے ایڈیٹر انچیف کرسٹن رافنسن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ '' آج کا دن دنیائے صحافت کا سیاہ ترین دن ہے‘‘۔
الغرض اس دن انسانی حقوق ‘ آزادی صحافت اور شہری آزادیوں کے تمام دعوے تاج برطانیہ اور اس کی پارلیمنٹ سے کچھ فاصلے پر امریکی حکم کے سامنے ناچنے والے لندن پولیس کے چھ پولیس کانسٹیبلوں کے ہاتھوں چکنا چور ہو گئے‘ جب ایک بوڑھے بیمار اور لاغر شخص کو بے دردی سے ایکواڈور کے سفارت خانے کی عمارت سے گھسیٹ کر باہر لایا جا رہا تھا ۔ اس اذیت ناک منظر نے ڈیڑھ سو برس قبل کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی یاد تازہ کر دی‘ جب انگریز صاحب بہادر اپنے سامنے سے گزرنے والے کسی بھی ہندوستانی کو چھڑی یا ہنٹر سے یہ کہتے ہوئے پیٹنا شروع کر دیتے کہ گزرتے ہوئے ہم کو سلام کیوں نہیں کیا یا اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز صاحب کو نظریں اٹھا کر کیوں دیکھا ۔ نڈھال لاغر اور بیمار جولین اسانچی کے ساتھ برطانوی پولیس کی غنڈہ گردی اور اقوام متحدہ کے منظور کر دہ سیا سی پناہ گزینوں کے حقوق اور انصاف کی اس پامالی کو دیکھ اس دن یقینا چرچل بھی اپنی قبر میں تڑپ اٹھا ہو گا۔ وہ چرچل‘ جس نے جنگ عظیم دوم میں جرمن طیاروں کی بم باری سے برطانیہ کی تباہی ‘ خوراک لباس اور پانی کی کمی پراپنی حکومت کے وزراء سے پوچھا تھا : '' کیا برطانیہ میں لوگوں کو انصاف مل رہا ہے؟‘ جب انہیں بتایا گیا کہ برطانیہ کے ہر شہری کو مکمل اور شفاف انصاف مل رہاہے ‘تو جرمن طیاروں کی گھن گرج میں چرچل نے کہا: ''پھر بے فکر ہو جائو‘ برطانیہ کو کوئی شکست نہیں دے سکتا ‘‘۔آج اسی پارلیمنٹ کے سائے میں چرچل کی قبر کے پاس انصاف کی دھجیوں کو امریکی بوٹوں تلے بکھیرتے ہوئے دنیا نے اس طرح دیکھ لیا کہ برطانوی انصاف کاترازو ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں پر چڑھائے ہوئے پیتل کے مکے کی ایک ہی ضرب سے درد و کرب سے کراہتا ہوا زمین بوس پڑا تھا۔
برطانیہ کی جمہوریت اور انصاف کے ماتھے پر جولین اسانچی کی گرفتاری کے کلنک کا ٹیکہ بن کر ا س طرح چپک کر رہ جائے گا‘ جسے تاریخ کے اوراق نے صدیوں کیلئے اپنے اندر محفوظ کر لیا ہے۔ کل کو دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی بھی سٹیج پر برطانیہ کس منہ سے قانون انصاف اور انسانی حقوق کی تلقین کر سکتا ہے۔اولین ا سانچی کو جب ایکواڈور کے سفارت خانے سے باہر لایا گیا تو سورج اور آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ جولین اسانچی نے 2012ء کے بعد 2019 ء اپریل میں سات سال بعد سورج اور دن کی روشنی دیکھی تو ارد گرد کے منا ظر کو دیکھ کر ایسا گھبرایا کہ اس کی اند رکو دھنسی ہوئی آنکھوں سے لگتا تھا؛جیسے مدتوں بعد وہ کسی غار سے نکلا ہو۔ جی ہاں‘ سات سال تک وہ ایکواڈور کے سفارت خانے کے ایک تنگ سے کمرے تک محدود رہا‘ اسے باہر کی دنیا کی کوئی خبر نہیں تھی۔ سات سال بعد سفارت خانے کی عمارت سے برطانوی پولیس ہاتھ پائوں باندھے گھسیٹتے ہوئے ‘ ایسے لے جا رہی تھی‘ جیسے وہ القاعدہ یا داعش کا کوئی بہت بڑا دہشت گرد ہو۔
تاج برطانیہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دو ہفتے قبل بکنگھم پیلس آنے کیلئے دعوتی پیغام بھجوایا تو ٹرمپ نے شرط رکھ دی کہ ان کے لندن آنے سے پہلے جولین اسانچی ایکواڈور کے سفارت خانے سے امریکی جیل میں ہونا چاہیے۔اس شرط کے سامنے سر نگوں ہوتے ہوئے انگریز کی شان سمجھا جانے والا علامتی ہی سہی ‘تاج ِبرطانیہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گیا۔برطانیہ اور ایکوا ڈرو کے انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے تمام اصول ‘وائٹ ہائوس کے مُکیّ کے سامنے ڈھیر ہو گئے۔ جولین اسانچی 2012ء سے ایک سیا سی پناہ گزین کی حیثیت سے ایکواڈور کے سفارت خانے میں موجود تھا‘ جسے اقوام عالم کے منظور کر دہ اس قانون کا پورا پورا تحفظ حاصل تھا‘ جس میں کسی بھی سیا سی پناہ گزین کو ایک آزاد انسان جیسا تحفظ دیا جاتا ہے اور اس معاہدے اور قانون پر حکومت برطانیہ نے بھی دستخط کئے ہوئے ہیں۔ جب اس عالمی معاہدے اور قانون کو تاج برطانیہ کی پولیس گریبان سے کھینچتے ہوئے سفارت خانے کی عمارت سے باہر لے جا رہی تھی‘ تو '' میگنا کارٹا‘‘ دنیا بھر سے مارے شرم کے منہ چھپاتا پھر رہا تھا۔ اس دن ایکواڈور اور برطانیہ نے جانتے ہوئے کہUN made this clear in the legal ruling of its working party on Arbitrary Detention.
ہاتھوں میں چڑھائے ہوئے وائٹ ہائوس کے پیتل کے مُکیّ کو دیکھتے ہی جولین اسانچی امریکی قدموں میں ڈھیر کر دیا‘ جبکہ دوسری طرف پا کستان نے حکومت برطانیہ کو ایک مرتبہ نہیں‘ بلکہ سینکڑوں بار لکھ کر بھیجا ‘ان سے بار بار درخواست کرتے ہوئے اسحاق ڈار اور چند دوسرے اہم ترین مفرور لوگوں کو جو پاکستان کی عدالتوں سے مفررو قرار دئیے جا چکے‘ جو پاکستان جیسے ترقی پذیر اور غریب ملک کے خزانوں کو لوٹ کر لندن میں عیش و آرام کر رہے ہیں‘ پاکستان کے حوالے کرنے کی سینکڑوں درخواستوں کو برطانیہ نے ردی کی ٹوکریوں میں پھینک رکھا ہے۔ یہ وہی برطانیہ ہے‘ جو منی لانڈرنگ کے نام پر پاکستان پر پابندیوں کی قرار دادوں پر دستخط کرتا ہے۔ یہ وہی برطانیہ اور امریکہ ہے‘ جس نے بم دھماکوں کے ذریعے بلوچستان کے بے گناہ انسانوں کا خون پینے والے ڈریکولا جیسے دہشت گردوں کواپنے ہاں اس طرح پناہ دی ہوئی ہے اور ہر سال کروڑوں ڈالرز انہیں عیا شیوں کیلئے فراہم کئے جاتے ہیں ۔
جولین کا قصور یہ تھا کہ اس نے Collateral Murder کی ویڈیوز میں عراق اور افغانستان میں امریکی وار کرائمز کے تمام ڈاکومنٹس وکی لیکس کے نام سے دنیا کے سامنے لا کر امریکہ کو شیشہ دیکھایا تھا اورستم ظریفی دیکھئے کہ یہی امریکہ آج کمزور ممالک کو اپنے سامنے سر نہ جھکانے پر انسانی حقوق اور دہشت گردی کے نام پر نت نئی پابندیوں کا شکار کر رہا ہے۔ جولین چاہتا تو اپنے پاس مواد کے بدلے امریکہ سے منہ مانگی قیمت وصول کرسکتا تھا‘ لیکن اس نے کروڑوں ڈالر ٹھکرا کر صحافت کا پرچم بلند رکھا۔ امریکن سول لبرٹی یونین نے جولین کی گرفتاری پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ''امریکہ نے جولین کے خلاف‘ اگر مقدمہ چلایا تو یہ غیر آئینی ہو گا‘ جس سے دنیا بھر کے جرنلسٹس کے خلاف جرائم پر مبنی مقدمات چلانے کے دروازے کھل جائیں گے‘‘ ۔ بقول بلھے شاہ:؎
جھوٹھ آکھاں تے کجھ بچدا اے‘ سچ آکھیاں بھامبڑ مچدا اے
جی دوہاں گلاں توں جچدا اے‘ جچ جچ کے جہوا کہندی اے