تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     16-04-2019

بھارتی انتخابات اور قومی شناخت کی بحث

بھارت کے سترہویں الیکشن گیارہ اپریل سے انیس مئی تک سات مراحل میں منعقد ہو نے جا رہے ہیں۔پہلا مرحلہ گیارہ اپریل کو مکمل ہوا جس میں بیس بھارتی ریاستوںمیں 91نشستوں پر الیکشن ہوا۔اطلاعات کے مطابق اس دن انتخابی جھگڑوں کی وجہ سے چار افراد مارے گئے۔دوسرا مرحلہ اٹھارہ اپریل کو ہوگا جس میں تیرہ بھارتی ریاستوں میں 97نشستوں پر معرکہ ہوگا۔شاید یہ امر بہت سے لوگوں کے لئے باعث حیرت ہو کہ جب تک الیکشن کے تمام مراحل مکمل نہیں ہو جاتے ،ووٹوں کی گنتی ہوگی نہ ووٹنگ مشینیں کھولی جائیں گی۔اس مرتبہ ووٹ23مئی کو گنے جائیں گے۔سیاسی جماعتیں توووٹوں کی گنتی میں تاخیر پر ہی انتخابی نتائج پر سوالات اٹھاتی ہیں۔جمہوریت میں ہر الیکشن اہم ہوتا ہے کیونکہ اس سے عوام کو اپنے حکمران چننے کاموقع ملتا ہے تاہم بھارت کے حالیہ الیکشن محض اپنے حکمران چننے کی مشق ہی نہیں ہے بلکہ بھارت کی ثقافتی اور تہذیبی شناخت کے تعین میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔یہ بھارت کی سیاسی شناخت کے لئے آدرشی معرکے سے بھی آگے کی بات ہے۔بھارت کی قومی شناخت کا ایک نظریہ مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو کا وضع کردہ ہے جوسیکولر اور کثیر قومی ہے جس میں مذہب،ذات پات اور عقیدے کا کوئی عمل دخل نہیں ۔ اس وقت کانگرس اور کئی دیگر سیاسی جماعتیں بھارتی شناخت کے اس نظریے کی علمبردار ہیں۔حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی قومی شناخت کے اس نظریے کو مسترد کرتی ہے کیونکہ یہ ہندو کلچر اور تہذیب کے ورثے پر استوار نہیں ہے۔بی جے پی عالمی سطح پر راشٹریہ سوام سیوک سنگھ(RSS)کے فروغ کی علمبردار ہے جو ہندتوا کے نام پر تنگ نظری،قدامت پسندی اور خالصتاً ہندومت پر مبنی شناخت کی حامی ہے ۔بھارت کے انتہائی دائیں بازو اورسخت گیر طبقے سے یہ امید ہے کہ وہ انتہائی متنوع بھارت میں نفاق و انتشار کی راہ اپنائے گا۔
جہاں تک ریاست کے اپنے شہریوں کے ساتھ تعلق اور باہمی تعامل کی بات ہے بھارت خود کو سیکولرازم کا علمبردار کہتا ہے مگر بھارتی سماج نان سیکولر ہے جو انتہائی دائیں بازو اور مذہبی بنیادوں پر کھڑا ہے۔اس لئے بی جے پی کو یہ راستہ آسان لگا کہ وہ اپنی انتخابی قوت بڑھانے کے لئے دائیں بازو کے الٹرا نیشنلزم اور ہندو کلچرل شناخت پر زور دے۔اگر بی جے پی 2019ء کے الیکشن میں لوک سبھا میں اپنی اکثریت برقرار رکھتی ہے یا اس کی واحد اکثریتی جماعت بن کر ابھرتی ہے تو یہ انتہائی دائیں بازو کی قوم پرستانہ اور سخت گیر ہندو شناخت کے فروغ کے لئے ریاستی مشینری اور وسائل کو استعمال کرے گی۔ تعلیم ،ریاستی سرپرستی کے استعمال اور میڈیا کے سماجی اثرات کی بدولت نئی نسل بھی مذہبی بنیاد وں پر استوار قومی شناخت کے قالب میں ڈھل جائے گی۔بھارت کے پندرہویں وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندر مودی کے آخری پانچ برسوں (مئی 2014ء سے مئی 2019) سے اس امر کی عکاسی ہوتی ہے کہ بی جے پی کی حکومت نے غربت، بے روزگاری اور ترقی پر دھیان دینے کے بجائے اپنی توانائی قومی شناخت کے ایشو پر صرف کی ہے۔ریاستی سرپرستی میں بھارت کی تاریخ از سر نو لکھنے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں زیادہ فوکس کٹر ہندو اقدار اور ورثے پر ہے اور اس مقصد کے لئے زیادہ تر انحصار مذہبی مکالمے اورتکلم پر کیا جا رہاہے۔بی جے پی کو RSSاور ہندوپرستی کی علمبردار جماعتوں اور گروپوں کی حمایت حاصل ہے جو خود کو'' سنگ پریوار‘‘ کہتی ہیں۔آرایس ایس کے لاٹھی بردار نوجوان مذہبی اور ثقافتی فوجدار بن کرہندی بولنے والی ریاستوں کے شہروں میں دندناتے رہے ۔گائو رکھشا مہم پر بہت زور تھا اور بعض نظریاتی سائنسدانوں نے گائے کے پیشاب کے حوالے سے ایسی باتیں کرنا شروع کر دیں کہ یہ سونا حاصل کرنے اور کئی بیماریوں میں شفا کا باعث ہے۔غیر مقلد ہندو خاص طور پر مذہبی اقلیتیں ان گائو رکھشا یونٹوں اور کٹر ہندو فوجداروں کا نشانہ بنتی ہیں۔بہت سے مسلمانوںکو گائے ذبح کرنے ،فروخت کرنے یا اس کا گوشت کھانے کے الزام میں سڑکوںپرتشدد کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔بھارتی ریاست جس نے اس شدت پسندی کی حوصلہ افزائی کی تھی مذہبی اقلیتوں اور نچلی ذات کے ہندوئوں کو تحفظ دینے کے لئے تیار نہیں تھی۔مسیحی اور سکھ بھی ان خدائی فوجداروں کے اشتعال کا نشانہ بن چکے ہیں۔1980ء میں جنا سنگھ کے کارکنوں نے بی جے پی کی بنیاد رکھی تھی جو ایک دائیں بازو کی ہندو جماعت تھی اور قیام پاکستان کے بعد کئی سا ل سے اکھنڈ بھارت کی علمبردار تھی۔پھراسے جنتا پارٹی میں مدغم کر دیا گیا جسے 1977ء میں ان سیاسی رہنمائوں نے تشکیل دیا تھا جو وزیر اعظم اندرا گاندھی کی نافذ کردہ ایمر جنسی کے مخالف تھے۔جنتا پارٹی نے مارچ1977ء کے الیکشن جیت لئے اور مرار جی ڈیسائی کی قیادت میں مرکز میںپہلی غیر کانگرسی حکومت قائم کی ۔جنتا پارٹی کی اندرونی لڑائی اور نظریاتی کشمکش کی وجہ سے انہیں ایک موثر حکومت بنانے میں مشکلات کا سامنا رہا۔1979ء میں مرار جی ڈیسائی کی جگہ چرن سنگھ کو وزیر اعظم بنا دیا گیامگر ان کا بھی جنتاپارٹی کے ساتھ نبھاہ نہ ہو سکا۔
جنوری 1980ء میں ہونے والے الیکشن میں اندرا گاندھی دوبارہ بر سر اقتدار آگئیں ۔جنتا پارٹی رفتہ رفتہ بکھر گئی گو کہ اس کی باقیات کئی سال تک سیاست میں سرگرم رہیں۔جنا سنگھ کے کارکنوں نے ایک مرتبہ پھر اسے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے زندہ کرنے کا فیصلہ کیاجو 1984ء میں لوک سبھا کی صرف دو نشستیں جیت سکی ۔1989ء کے الیکشن میں اسے پچاسی اور 1991ء کے الیکشن میں ایک سو انیس نشستیںملیں ۔1996ء کے الیکشن میں بی جے پی واحد اکثریتی جماعت بن کر ابھری مگر اٹل بہاری واجپائی بطور وزیر اعظم چودہ دن سے زیادہ نہ نکال سکے۔1998ء کے الیکشن کے بعد وہ دوبارہ وزیر اعظم بن گئے ۔1999ء کے الیکشن میں واضح کامیابی کے بعد واجپائی نے لوک سبھا میں اپنی پانچ سالہ مدت (1999-2004) پوری کی۔بی جے پی کو یہ سیاسی کامیابی اس لئے ملی کیونکہ اس نے 1990ء کے عشرے میں ہندومت کے آدرشوں خاص طور پر ہندتوا کی تحریک پر بہت زیادہ انحصار کیا تھا۔چونکہ ہندو سماج میں مذہب کی جڑیں بہت گہری ہیں اس لئے آئین میںسیکولرزم کے تمام تردعوے بھی ہندتوا کلچر اور شناخت کے نام پر ہونے والے ہندوشدت پسندی کے احیا کو نہ روک سکے۔
بابری مسجد کی تحریک اور ''رتھ یاترا‘‘نے بھارت کی ہندی بولنے والی ریاستوں میں بی جے پی کی پوزیشن مستحکم کر دی۔رتھ یاترا میں ایل کے ایڈوانی نے بہت اہم کردار ادا کیا۔انہوں نے 2011ء میں کرپشن اور کالے دھن کے خلاف ایک اور38روزہ رتھ یاترا شروع کرکے ہندو پرستی کومزید تقویت بخشی۔یہ یاترابہار سے شروع ہو کر کئی ریاستوں سے ہوتی ہوئی اختتام پذیر ہوئی تھی۔ایل کے ایڈوانی اور واجپائی کے عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے جس بات نے نریندر مودی کو 2014ء کے الیکشن میں مرکز نگاہ بنا دیا تھا وہ بطور وزیر اعلیٰ گجرات ان کی موثر کار کردگی،ہندتوا روایت کے ساتھ اپنی پہچان اور سنگھ پریوار کی حمایت تھی۔ان کی حمایت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ کاروباری اور صنعتی اشرافیہ بھی تھی جس نے یہ محسوس کیا کہ ہندتوا سے متاثر دائیں بازو کی حکومت ملک میںبہتر کاروباری ماحول پیدا کر سکے گی۔کانگرس پارٹی نے 2014ء کے الیکشن میں بہت بری کار کردگی کا مظاہرہ کیا اور لوک سبھا میںصرف چوالیس نشستیں حاصل کر سکی۔اس کی اہم وجوہات میں موثر سیاسی جماعت کے طور پر اس کی متزلزل شہرت،کرپشن کے الزامات اور سیاسی قیادت کا بحران ہیں حالانکہ 1998میں پارٹی کی قیادت سونیا گاندھی کے سپرد کر دی گئی تھی۔2017ء میں کانگرس کی قیادت ان کے بیٹے راہول گاندھی کے ہاتھ میں دے دی گئی۔کانگرس راہول کی قیادت میں پہلی مرتبہ الیکشن میں حصہ لے رہی ہے ۔حالیہ الیکشن میں پارٹی کی کارکردگی سے مستقبل میں ان کی سیاسی قیادت کا تعین ہوگا نیز یہ کہ کیا کانگرس پارٹی ہندتوا پر استواربھارت کے تہذیبی اور تاریخی شناخت کے سفر کو روک سکتی ہے یا نہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved