تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     16-04-2019

رہوڈ آئی لینڈ سے اسلامیہ جمہوریہ تک

چوہدری الیاس نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے کہا: کہاں ہم گنہگار اور کہاں ہجرت؟ ہم بلا کسی شرعی جواز کے دنیاوی ترقی اور بہتر مستقبل کے لئے دیار غیر میں آنے والے لوگ اور یہ ہمارا ٹھکانہ بقول شخصے ''عالم کفر‘‘۔ ہم اسے کسی مقدس نام سے پکارنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے‘ مگر پھر بھی اس کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ امریکہ کی سب سے چھوٹی ریاست رہوڈ آئی لینڈ ہے۔ رقبے کے اعتبار سے سب سے چھوٹی۔ محض تین ہزار مربع کلو میٹر سے تھوڑی سی زیادہ۔ پوری ریاست کی لمبائی ستر کلو میٹر اور چوڑائی ساٹھ کلو میٹر کے لگ بھگ ہے۔ پراویڈنس اس کا صدر مقام ہے اور پوری ریاست کے کسی بھی مقام سے پراویڈنس آنے میں آدھا پونا گھنٹہ لگتا ہے۔ یہاں ایک چھوٹا سا شہر ہے بیرنگٹن۔ یہ ایک حیرت انگیز شہر ہے۔ پراویڈنس سے محض دس گیارہ کلو میٹر کے فاصلے پر۔
الیاس چوہدری‘ پاکستان ایسوسی ایشن روڈ آئی لینڈ کا صدر ہے۔اس سے میں نے پوچھا :چوہدری صاحب‘ اس شہر میں ایسی کیا بات ہے کہ آپ اسے ایک حیرت انگیز شہر قرار دے رہے ہیں؟ چوہدری الیاس کہنے لگا: نا صرف حیرت انگیز‘ بلکہ اپنی نوعیت کا ایک بہت ہی مختلف شہر۔ ایسے شہر کا تصور عالم کفر میں بہت ہی حیرت انگیز ہے۔ میں نے کہا: چوہدری صاحب آپ زیادہ سسپنس پیدا نہ کریں اور بتائیں کہ آخر اس شہر میں کیا چیز ہے ‘جو اسے دوسرے شہروںسے ممتاز یا منفرد کرتی ہے؟ چوہدری کہنے لگا: ویسے تو یہ چھوٹا سا شہر‘ بلکہ آپ اسے بڑا قصبہ کہہ لیں ‘اپنے تعلیمی معیار کے اعتبار سے اور سکولوں و کالجوں کی درجہ بندی کے حساب سے امریکہ میں کافی اونچا ہے اور اس وجہ سے لوگ اپنے بچوں کی تعلیم کی غرض سے اس قصبے میں رہنا پسند کرتے ہیں اور اس چھوٹے سے علاقے میں جائیداد کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ گھر بہت مہنگے ہیں۔ ٹیکس کی شرح بلند ہے اور یہاں رہنا خاصا مہنگا کام ہے ‘لیکن یہ سب کچھ زیادہ غیر معمولی نہیں۔ ایسے قصبے یا شہر آپ کو امریکہ میں سینکڑوں کی تعداد میں مل سکتے ہیں‘ لیکن اس شہر کی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس پورے شہر میں کوئی شراب خانہ نہیں‘ کوئی جوا خانہ نہیں‘ کوئی نائٹ کلب نہیں اور کسی دکان پر شراب فروخت نہیں ہوتی۔ ٹاؤن کی انتظامیہ نے ان چیزوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ آج سے نہیں‘ ایک عرصے سے یہ سب کچھ بند ہے۔ کسی دکان کو شراب فروخت کرنے کا لائسنس ‘جسے ''آف لائسنس‘‘ کہا جاتا ہے‘ جاری نہیں ہو سکتا؛ حالانکہ یہ لائسنس حاصل کرنا امریکہ میں کوئی خاص مسئلہ ہی نہیں۔ ویسے بھی پورے امریکہ میں کسی بڑی دکان‘ سپر سٹور‘ پٹرول پمپ پر موجود سٹور یا سیون الیون وغیرہ ننانوے فیصد آف لائسنس کا کام کرتے ہیں اور یہ اس سوسائٹی کا حصہ ہے‘ لیکن بیرنگٹن میں یہ سب کچھ موجود نہیں ہے۔ سارا شہر شراب کی فروخت‘ شراب خانہ اور جوا خانہ وغیرہ سے مکمل پاک ہے‘ بلکہ پوری ریاست رہوڈ آئی لینڈ میں کافی عرصہ سے اب کسی نئے شراب خانے کا لائسنس جاری نہیں ہوا۔ ایک لائسنس جاری ہوا تھا اور وہ لائسنس گارڈن فاکس کو لے ڈوبا۔
میں نے پوچھا: یہ گارڈن فاکس کون ہے؟ چوہدری کہنے لگا: گارڈن فاکس رہوڈ آئی لینڈ کی اسمبلی یعنی House of Representativesکا سپیکر تھا۔ پیشے کے اعتبار سے اٹارنی گارڈن فاکس‘ رہوڈ آئی لینڈ کی اسمبلی کا بائیس سال لگاتار ممبر رہا۔ پہلی بار 1992ء میں منتخب ہوا تھا اور پھر اس کے بعد مستقل اسمبلی کا ممبر رہا۔ اس کا حلقہ انتخاب پرایڈونس ‘یعنی رہوڈ آئی لینڈ کا صدر مقام تھا۔ وہ سیاسی طور پر امریکہ کی ڈیمو کریٹک پارٹی سے وابستہ تھا۔ وہ رہوڈ آئی لینڈ کی اسمبلی کا 2010ء سے لے کر 2014 ء تک چار سال سپیکر بھی رہا۔ بہت پاپولر سیاسی لیڈر تھا۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ سیاست بھی ٹھیک جا رہی تھی اور اٹارنی والا پیشہ بھی ٹھیک تھا۔ پیشہ ورانہ معاملات بھی ٹھیک چل رہے تھے؛ حتیٰ کہ اس کا نائب کلب بھی ٹھیک جا رہا تھا‘ لیکن انسان کی طبیعت میں جو پیسے کی حرص ہے‘ وہ بندے کو خوار کر کے رکھ دیتی ہے۔ موصوف نے الیکشن کے لئے ملنے والے عطیات میں سے رقم ذاتی استعمال کے لئے نکال لی۔ امریکی قانون کے مطابق آپ اپنی الیکشن مہم کے لئے پبلک سے عطیات لے سکتے ہیں ‘مگر یہ عطیات ‘کیونکہ آپ کو صرف الیکشن کے اخراجات کے لئے دیئے جاتے ہیں‘ لہٰذا ان عطیات کو ذاتی استعمال میں نہیں لایا جا سکتا‘ مگر موصوف نے 108000 ڈالر کی رقم ان عطیات میں سے گول کرلی اور ذاتی استعمال میں لے آیا۔ ابھی یہ معاملہ چل ہی رہا تھا کہ معلوم ہوا کہ اس نے اپنے ایک جاننے والے کو ریاست میں نائٹ کلب کا لائسنس جاری کروانے کے عوض 52000ڈالر کی رشوت وصول کی ہے اور اپنے ذاتی اثر و رسوخ اور اپنے سپیکر کے آفس کو اس کام کے لئے استعمال کرتے ہوئے ‘اسے یہ لائسنس جاری کروا دیا۔ اس پر بڑا ہنگامہ ہوا‘ کیونکہ یہ ایک غیر معمولی حرکت تھی۔ ریاست میں ایک عرصے سے کسی نئے نائٹ کلب کو لائسنس جاری نہیں ہوا تھا اور اس لائسنس کے اجراء پر کافی لے دے ہوئی۔
بالآخر اس معاملے پر بھی تحقیقات شروع ہو گئیں۔ FBI نے اس کے دفتر پر چھاپہ مارا اور ریکارڈ قبضے میں لے لیا۔ ایف بی آئی نے درج بالا دونوں جرائم کو ریکارڈ سے ثابت کر دیا اور معاملہ عدالت میں چلا گیا۔
اس سے قبل 2004 ء میں گارڈن فاکس کو اس کی لاء فرم کی ایک کلائنٹ کمپنی کو بیس سال کے لئے 770 ملین ڈالر کا ایک کنٹریکٹ دلانے میں مدد دینے کے جرم میں دس ہزار ڈالر کا جرمانہ بھی ہو چکا تھا۔ عدالت میں اس کو دو آپشن دی گئیں کہ یا وہ اپنا جرم تسلیم کر کے تھوڑی سزا بھگتے یا پھر اپنا کیس لڑے اور عدالت اسے سزا سنائے۔ اس نے پہلی آپشن قبول کرتے ہوئے اپنا جرم تسلیم کر لیا اور اسے تین سال کی قید کی سزا سنا دی گئی‘ اسے گیارہ جون 2015 ء کو فیڈرل پریزن فلاڈیلفیا بھیج دیا گیا۔ اس وقت مرکز میں اس کی ڈیمو کریٹک پارٹی کی حکومت تھی اور اوبامہ صدر تھا۔ اس نے مقدمہ چلتے ہی 22مارچ 2014ء کو اسمبلی کی سپیکر شپ سے استعفیٰ دے دیا۔
اس کی پارٹی نے نہ کوئی ہنگامہ کیا اور نہ ہی کوئی بیان جاری کیا کہ اسے سیاسی طور پر انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وہ اسمبلی کا ممبر تھا اور اسمبلی میں اس کی پارٹی کی اکثریت تھی‘ تاہم بعد میں آنے والے سپیکر نے اس کے لئے کوئی پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کئے۔ اس کی سزا کو صدر ِامریکہ نے ''پارڈن‘‘ بھی نہ کیا اور موصوف اپنی یہ تین سالہ سزا پنسلوینیا کی فیڈرل جیل میں بھگت کر فروری 2018ء کو رہا ہو گیا۔ رہائی پر نہ تو اس نے باہر نکل کر دو انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنایا اور نہ ہی اس کی پارٹی کے کارکنوں نے جیل کے باہر اس کا استقبال کرتے ہوئے اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔ وہ خاموشی سے جیل سے گھر آیا اور سیاست سے آئندہ کے لئے آؤٹ ہو گیا۔ اسے اس کے آبائی تعلیمی ادارے رہوڈ آئی لینڈ کالج نے 2010ء میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی تھی‘ لیکن 2015 ء کو کالج نے یہ اعزازی ڈگری یہ کہتے ہوئے واپس لے لی کہ ''گارڈن فاکس اس کے لئے درکار بنیادی اخلاقی اقدار سے عاری ہے‘‘۔
امریکہ میں کوئی میثاق ِجمہوریت نہیں ‘لیکن جمہوریت ہے کہ جمہوریت کے لئے کسی میثاق کی نہیں ‘اخلاقیات کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے ہاں سیاست میں صرف ایک یہی چیز نہیں ہے۔ ویسے پروڈکشن آرڈر موجود ہیں۔ انڈر ٹرائل ملزمان پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ چور‘ جیل سے نکل کر وکٹری کا نشان بناتے ہیں اور کارکن ان پر پھول کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں۔ کوئی مجرم سیاست سے از خود تائب ہونے پر تیار نہیں۔ اس کے باوجود یہ مملکت ِخداداد پاکستان ''اسلامیہ جمہوریہ‘‘ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved