نیوزی لینڈ کی مساجدمیں نماز جمعہ کے دوران اہلِ ایمان دہشت گردی کے نتیجے میں شہادت پاگئے۔ سیرت پاک میں بھی کئی ایسے واقعات ملتے ہیں کہ صحابہ کرام کو دھوکے سے شہید کیا گیا۔ واقعہ بئرمعونہ ایسای ہی ایک موقع تھا جب ستر قیمتی ہیروں کا موت سے آمناسامنا ہوا۔ ۶۸ صحابہؓ شہید ہوگئے‘ جبکہ دو بچ گئے۔صفر ۴ھ میں نجد کے سرداروں میں سے ایک سردار ابوبراء عامر بن مالک آنحضور کے پاس آیا۔ یہ شخص بنو عامر کے معزز لوگوں میں سے تھا۔ مگر قبیلے کی حقیقی قیادت اس کے بھتیجے عامر بن طفیل بن مالک کے ہاتھ میں تھی۔ آپؐ سے بڑے ادب و احترام سے پیش آیا۔ آنحضوؐر نے اس کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی تو اس نے اسلام قبول کرنے کی بجائے کہا: آپ اپنے منتخب ساتھیوں کا ایک وفد میرے ساتھ بھیج دیں ‘تاکہ یہ اہل نجد کو اسلام کی دعوت پیش کریں اور لوگ اسلام میں داخل ہو جائیں۔ آنحضوؐر نے فرمایا میں اہل نجد کے بارے میں مطمئن نہیں ہوں۔ میرے ساتھیوں کو وہاں خطرہ پیش آ سکتا ہے۔ اس پر ابوبراء نے کہا: آپ اس کی فکر نہ کریں‘ یہ تمام لوگ میری امان میں ہوں گے۔
اس گفتگو کے بعد آنحضوؐر نے اپنے چیدہ چیدہ ساتھیوں کا ایک وفد ترتیب دیا ‘جو سب صاحب علم اور نوجوان تھے۔آپؐ کے دامن میں سبھی قیمتی ہیرے تھے اور یہ انہی میں سے بڑی شان کے مالک نفوسِ قدسیہ ہیں۔ اﷲ کے نبی کو یہ خدشہ تھا کہ ان کے ساتھیوں کے ساتھ کوئی حادثہ نہ ہو جائے‘ مگر بعد میں انہوں نے ابوبراء کی یقین دہانی پر یہ وفد بھیج دیا۔ موت ان لوگوں کے انتظار میں تھی۔ رسول رحمتؐ خود ان کو رخصت فرما رہے تھے۔ اس واقعہ کو جب بھی پڑھا جائے یہ حقیقت ذہن میں راسخ ہو تی چلی جاتی ہے کہ کلی علم غیب اﷲ تبارک و تعالیٰ ہی کی صفت ہے‘ نیز قضا و قدر کے اٹل فیصلے نافذ ہو کر رہتے ہیں۔ ان سے کوئی مفر نہیں‘ اس لیے بندہ مومن کا قضا و قدر کے بارے میں ایمان اسے ہر مصیبت اور حادثے پر صبر و تسکین کی دولت عطا کرتا ہے۔
مدینہ سے اپنے پیارے ساتھیوں کو رخصت کرتے ہوئے آنحضوؐر نے سیدنا منذر بن عمروؓ کو امیر مقرر فرمایا۔ وفد کے تمام لوگ قرآن کے حافظ اور عالم تھے۔ جب یہ لوگ بنو سلیم اور بنو عامر قبائل کے درمیان واقع بئر معونہ کے چشمے پر پہنچے تو وہاں انہوں نے قیام کیا۔ یہاں سے مشہور صحابی حضرت حرام بن ملحانؓ کو عامر بن طفیل کے پاس آنحضوؐر کے خط کے ساتھ بھیجا گیا۔ اس بدبخت نے خط پڑھے بغیر ان کو دیکھتے ہی حملہ کرکے شہید کر دیا‘ پھر اس نے اپنے قبیلے بنو عامر میں منادی کرائی کہ بئر معونہ پر مقیم ایک کارواں کو تہہ تیغ کر دیا جائے۔ بنو عامر نے یہ سننے کے بعد کہ یہ لوگ ابوبراء کی امان میں ہیں‘ حملہ کرنے سے انکار کر دیا۔ بنو سلیم کے قبائل عصبیہ‘ رعل اور ذکوان کے لوگوں نے عامر بن طفیل کا ساتھ دیا اور ایک بڑی جمعیت کے ساتھ بئر معونہ کی طرف بڑھے۔
صحابہ کرام اپنے ساتھی حضرت حرام بن ملحانؓ کے انتظار میں تھے کہ وہ کیا جواب لے کر آتے ہیں کہ اچانک انہوں نے اپنے آپ کو دشمنوں کے گھیرے میں پایا۔ اس صورت حال میں بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ دھوکہ اور غدر کرنے والوں کو اسلام کا پیغام تلواروں کی چھاؤں میں پہنچایا۔ ابوبراء نے ان کو بچانے کی کوشش کی‘ مگر اس کی کوئی نہ سنی گئی۔ صحابہ کرام ایک ایک کرکے شہید ہو گئے۔ حضرت عمرو بن امیہ کو جو زخمی ہو چکے تھے‘ عامر بن طفیل نے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ میری ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی تھی۔ زخمیوں کے درمیان حضرت کعب بن زید بچ رہے اور دشمنوں کے چلے جانے کے بعد وہ بھی زندہ سلامت مدینہ واپس پہنچ گئے۔
حضرت منذر بن عمرو اپنے ساتھیوں کے شہید ہو جانے کے بعد ابھی زندہ تھے۔ انہیں عامر بن طفیل نے پیشکش کی‘ اگر وہ چاہیں تو انہیں امان دے دی جائے۔ انہوں نے فرمایا؛ جہاں میرے ساتھی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔ وہیں میں بھی اپنی جان قربان کر دوں گا‘ جس جگہ حضرت حرام بن ملحانؓ کو شہید کیا گیا تھا‘ منذر بن عمرؓو بھی دشمن سے لڑتے بھڑتے اسی مقام پر شہید ہوئے۔ جب آنحضوؐر کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپؐ نے فرمایا کہ منذر نے موت کے سامنے بزدلی نہیں دکھائی۔ موت آنکھوں کے سامنے تھی‘ مگر وہ جوانمرد اپنی بات پر ڈٹا رہا۔
مؤرخین نے اس واقعہ کی تفصیلات لکھتے ہوئے حضرت عامربن فہیرہ کی شہادت کا واقعہ بھی نقل کیا ہے۔ انہیں بنی کلاب کے ایک شخص جبار بن سلمیٰ نے شہید کیا۔ جب نیزہ ان کے جسم کے پار ہوا تو انہوں نے جوش ایمانی سے نعرہ لگایا ''خدا کی قسم میں کامیاب ہو گیا‘‘ شہید وفا کے انہی الفاظ نے ان کے قاتل کو ہلا کر رکھ دیا۔ مؤرخ ابن سعد کے مطابق ؛عامر بن فہیرہ کی شہادت کے بعد اﷲ کے فرشتوں نے ان کا جسم آسمان کی طرف اٹھا لیا۔ عامر بن فہیرہ کے قاتل جبار بن سلمیٰ نے ان کے آخری الفاظ کو سن کر اسلام قبول کر لیا۔ سچ ہے کہ مبلغ تبلیغ کرنے کیلئے گیا تھا اور اس نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا۔تاریخی روایات کے مطابق؛ آنحضور کو اس واقعہ کی اطلاع اﷲ کے حکم سے جبریلؑ نے پہنچا دی تھی۔ آنحضوؐر کے دل پر اس واقعہ کا اتنا شدید اثر ہوا کہ آپؐ نے پورا ایک مہینہ قاتلوں کے خلاف صبح کی نماز میں مسلسل قنوت نازلہ پڑھی۔ اس کا تذکرہ صحیحین میں بھی ملتا ہے۔ انس بن مالکؓ کے بقول بئر معونہ کے واقعہ سے آنحضورؐ جس قدر غمزدہ ہوئے ‘اس کی کوئی دوسری مثال آپؐ کی زندگی میں نہیں ملتی۔
بئر معونہ کے مقام پر امت مسلمہ کے بہت سے روشن ستارے فلک دنیا سے محو ہو کر افق جنت پر طلوع ہو گئے۔ انہی میں حارث بن صمہ جیسا جری مجاہد تھا‘ جس کی بہادری کے واقعات کا تذکرہ غزوۂ احد کے باب میں تمام سیرت نگاروں نے کیا ہے۔ مدینہ منورہ میں اس حادثے کے بعد غم کے بادل چھا گئے۔ آنحضور ؐاور تمام صحابہ سخت دل گیر تھے۔ احد کے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے تھے کہ یہ نئے زخم لگ گئے۔ ستر صحابہ احد میں شہید ہوئے تھے اور ستر کے قریب ہی یہاں قربان ہو گئے۔ یہ اتنی بڑی آزمائش تھی کہ اس کے سامنے استقامت کا مظاہرہ وہی لوگ کر سکے‘ جو اﷲ کے ہاتھ اپنا سب کچھ فروخت کر چکے تھے۔ اس واقعہ کی اطلاعات دور و نزدیک پھیلیں اور اسلام دشمنوں نے خوب بغلیں بجائیں۔ ان کا خیال تھا کہ اسلام کا چراغ گل ہو جائے گا‘ مگر ان کے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے۔ سرور عالمؐ کا حوصلہ اس صدمے کے باوجود پست نہیں ہوا اور آپ نے مسلسل اسلام کا پرچم بلند کرنے کیلئے اس کے متصلاً بعد کئی جرأت مندانہ اقدام کیے۔
حضرت عمرو بن امیہ ضمری واقعہ بئر معونہ کے بعد واپس مدینہ آ رہے تھے۔ مدینہ سے کچھ فاصلے پر انھیں دو آدمی ملے جو عامر بن طفیل کے قبیلے بنو کلاب میں سے تھے۔ حضرت عمرو بن امیہ‘ عامر اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر نازل ہونے والی ناگہانی مصیبت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے اور انتقامی جذبات سے مغلوب تھے۔ موقع پا کر انھوں نے ان دونوں کو قتل کر دیا۔ مدینہ پہنچ کر انہوں نے جہاں بئر معونہ کا واقعہ بیان کیا وہیں اپنے ہاتھوں قتل ہونے والے بنو کلاب کے دو افراد کا بھی تذکرہ کیا۔ آنحضوؐر نے بئر معونہ کے شہدا کی خبر جبریلؑ کی زبانی پہلے بھی سن لی تھی۔ اب مزید حالات معلوم ہوئے تو آپ کو بہت صدمہ پہنچا۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے حضرت عمرو بن امیہ سے کہا کہ تم نے بہت برا کیا کہ ان دو آدمیوں کو قتل کر دیا؛ حالانکہ میں انہیں امان دے چکا تھا۔
آنحضوؐر نے دونوں مقتولین کا خون بہا اسلامی حکومت کی طرف سے ادا فرمایا اور یہ رقم ان کے ورثاء کو بھجوا دی۔ اس اسوۂ نبوی ؐسے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ کسی سے دوستی ہو یا دشمنی‘ اپنے وعدہ کا پاس بندۂ مومن کی بنیادی صفت ہے۔ سخت ترین غم اور غصے کی حالت میں بھی عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا اسلام ہی کی امتیازی شان ہے۔
عامر بن طفیل نے جو مذموم حرکت کی تھی اس کا ابوبراء کو بھی بڑا افسوس تھا اور سیرت الحلبیہ کے مصنف نورالدین علی بن ابراہیم کے بقول وہ اس واقعہ کے بعد شرم اور ندامت کے مارے اپنے گھر میں گوشہ نشین ہو گیا اور تھوڑے ہی عرصہ بعد مر گیا۔ ابوبراء کے بیٹے ربیعہ بن عامر بن مالک نے اپنے چچا زاد عامر بن طفیل کے ظلم کے خلاف احتجاج کیا اور قبیلے کی مجلس میں اس پر نیزے سے حملہ آور ہوا؛ اگرچہ یہ حملہ ناکام رہا کیونکہ لوگوں کی مداخلت کی وجہ سے نیزے کا وار ٹھیک ہدف پر لگنے کی بجائے عامر بن طفیل کی ران میں لگا۔ عامر بن طفیل کو بھی اپنی حرکت شنیعہ کا احساس ہو گیا تھا ۔ اس نے کہا کہ اگر میں مر بھی گیا تو اس سے میرا قصاص نہ لینا۔ میرا خون میرے چچا زاد کی نذر سمجھنا۔ ربیعہ بن مالک کے بارے میںقریباً تمام مؤرخین نے یہ واقعہ لکھا ہے کہ وہ آنحضوؐر کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے تھے اور اس درد ناک واقعہ پر آنحضوؐر سے تعزیت بھی کی تھی اور اپنی اور اپنے والد کی طرف سے معذرت بھی پیش کی۔دونوں باپ بیٹا اسلام میں داخل ہوگئے تھے۔