تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     16-04-2019

لوگ تیار بیٹھے ہیں!

مولا بخش چانڈیو کو اللہ نے وہ ہُنر بخشا ہے‘ جو ہم جیسوں کی روزی روٹی برقرار رکھنے کا وسیلہ ثابت ہوتا رہا ہے۔ شیخ رشید‘ رانا ثناء اللہ خان‘ طلال چودھری‘ شہریار آفریدی‘ قمر زمان کائرہ‘ چودھری شجاعت حسین‘ فیصل رضا عابدی‘ منظور حسین وسان اور اسی قبیل کی دیگر بہت سی شخصیات کی طرح مولا بخش چانڈیو بھی باتوں باتوں میں ایسی بات کہہ جاتے ہیں کہ عوام دنگ رہ جاتے ہیں اور ہم شکر ادا کرتے ہیں کہ کچھ تو ایسا سُنائی دیا‘ جس کی مدد سے اشہبِ خیال کو ایڑ لگائی جاسکتی ہے۔ ذہن کو چند لمحات کے لیے جھنجھوڑ دینے والی بات سُن کر لکھنا سہل اور پُرلطف ہو جاتا ہے۔ 
گزشتہ دنوں ایک ٹی وی ٹاک شو میں پی پی پی کے ترجمان مولا بخش چانڈیو نے قوم کے خیالات کی بھی ترجمانی کرتے ہوئے فرمایا ''یہ لوگ (یعنی وزیر اعظم عمران خان اور اُن کے رفقائِ کار) کچھ نہیں کرسکتے۔ ان میں کچھ وہ ہیں جو خوش خبریاں سُناتے رہتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں ‘جنہیں تنقید سے فرصت نہیں۔‘‘ مولا بخش چانڈیو نے مزید جو کچھ کہا؛ اُس کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ سب کچھ یونہی چلتا رہے گا‘ عوام کچھ سمجھ نہیں پائیں گے اور مینڈیٹ کی میعاد گزر جائے گی۔ حکومت کی صفوں سے اُبھرنے والی آوازوں میں یا تو خوش خبریاں ہیں یا پھر پیش گوئیاں۔ منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے کبھی کبھی تنقید کے ڈونگرے بھی برسائے جاتے ہیں یا کسی کو وعید سُنادی جاتی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ معیشت کی بحرانی کیفیت ٹل گئی‘ اب ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ دوسری طرف کابینہ کے ایک اور رکن حامد اظہر نے کہہ دیا کہ قومی معیشت کو سنبھلنے میں ڈیڑھ سال لگے گا اور تب تک عوام کو بحرانی کیفیت کا بوجھ برداشت کرنا ہوگا۔ ان دونوں بیانات میں تضاد بالکل واضح ہے۔ کم از کم بیانات میں ہم آہنگی ہی کا اہتمام کرلیا جائے۔ 
ایسا نہیں ہے کہ حکومت کی صفوں میں سبھی دلوں پر بجلیاں گرانے والے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں‘ جو ہر معاملے کے کسی نہ کسی پہلو سے بھرپور حِظ اٹھانے کا طے کرکے اس دنیا میں آئے ہیں۔ اُن کے سامنے کوئی بھی بات کیجیے‘ وہ ہنسنے ہنسانے کی گنجائش پیدا کرلیتے ہیں۔ ہمارے وزیر ریلوے بھی کچھ ایسے ہی واقع ہوئے ہیں۔ ملک چاہے کسی بھی ٹریک پر چلتا رہے‘ شیخ رشید کی اپنی لائن ہے‘ جس سے وہ ذرا بھی اِدھر اُدھر نہیں ہوتے۔ عمومی سطح پر اُنہیں صرف اس بات سے غرض ہے کہ ؎ 
میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا 
ہر فکر کو دھویں میں اڑاتا چلا گیا 
کے مصداق پریشان کرنے والی ہر بات کو لطیفے یا جُگت کی نذر کردیا جائے ‘تاکہ قوم آنے والی مشکلات کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہونے کی بجائے اپنے آپ کو ہلکی پھلکی محسوس کرے۔ وزیر ریلوے نے پیش گوئی کے سے انداز سے کہا ہے کہ 30 جون سے پہلے سارے چور ''اندر‘‘ ہوں گے۔ دو دن قبل حسن ابدال میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید نے کہا ''حکومت میں ایک گروہ این آر او کا حامی ہے۔ میرے موکل بہت تیز ہیں۔ سوچ رہا ہوں تعویذ لکھنے اور بانٹنے کا کام شروع کردوں۔ سات آٹھ سال سے میں نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا ہے۔ عمران خان مجھ سے زیادہ سچّے ہیں۔ آصف زرداری اچھے آدمی ہیں‘ پیسے دے دیں گے‘‘۔ 
دیکھا آپ نے؟ اسد عمر اور دیگر وزراء کی زبانی معیشت کے حوالے سے دل دہلا دینے والی باتیں سُن کر آپ اپنے سَر‘ بلکہ پورے وجود پر جو بوجھ محسوس کر رہے تھے‘ وہ شیخ رشید نے ایک جھٹکے میں گِرا دیا‘ ملمّع ایک ہی رگڑ میں اتار پھینکا۔ مولا بخش چانڈیو کی بات درست ہے۔ جب سے حکومت قائم ہوئی ہے ۔اس سے وابستہ چند شخصیات بات بات پر قوم کو خوش خبریاں سُناکر بہلانے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ پہلے بھی حکومتیں وعدوں اور دعوؤں ہی سے بہلاتی آئی ہیں۔ عوام کو زیادہ دکھ اس بات سے پہنچ رہا ہے کہ ملک کو بدلنے کے دعوے کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں میں قدم رکھنے والے اب تک کوئی بھی بامقصد منصوبہ شروع کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ 
سب سے زیادہ الجھا ہوا معاملہ معیشت کا ہے۔ عوام محسوس کر رہے ہیں کہ معیشت کا کوئی سِرا اب تک حکومت کے ہاتھ میں آیا ہی نہیں۔ چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے غیر معمولی رابطوں اور اچھی خاصی امداد مل جانے پر بھی اب تک معیشت کی بحالی کے حوالے سے پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ سٹاک مارکیٹ تذبذب اور ضعف کے دائرے میں گھوم رہی ہے۔ 
میڈیا نے 6 ماہ تک صرف اچھی باتیں کرنے کی ہدایت پر بہت حد تک عمل کیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ حکومت ٹیک آف کب کرے گی۔ اپوزیشن والے لنگوٹ کس کر میدان میں آنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے رابطہ مہم تیز کردی ہے۔ پہلے وہ جاتی امرا میں سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملے اور اُس کے بعد کراچی میں سابق صدر مملکت آصف زرداری سے ملاقات کی۔ان ملاقاتوں میں کیا باتیں ہوئی ہوں گی اس کا اندازہ کوئی بھی لگا سکتا ہے۔ مولانا کو کسی سے ''بے فضول‘‘ ملنے کی عادت تو ہے نہیں! ایسی ملاقاتوں کو ؎ 
آ عندلیب! مل کے کریں آہ و زاریاں 
تو ہائے گل پکار‘ میں چِلّاؤں ہائے دل 
کے کھاتے میں تو رکھا نہیں جاسکتا۔ فضل الرحمن سے ملاقات کے بعد آصف زرداری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ اب کپتان کو جانا پڑے گا۔ مولانا بھی ''عندیہ‘‘ دے چکے ہیں کہ وہ حکومت کا بوریا بستر گول کرنے کے بعد ہی سکون کا سانس لیں گے۔ نواز شریف اگر حکومت کی بساط کے لپٹنے کے خواہش مند نہ بھی ہوں تو یہ بات بہرحال اُن کے لیے تسکین کا باعث ہوگی کہ عمران خان اینڈ کمپنی پر کچھ دباؤ بڑھ جائے اور عدالتی کارروائیوں کے حوالے سے سکون کا سانس لیا جاسکے۔ 
میچ ابتدائی اوورز ہی میں بہت نازک موڑ پر آگیا ہے۔ عمران خان کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ جب وہ قومی ٹیم میں تھے تب ایسی نازک صورتِ حال کئی بار پیدا ہوئی کہ سکور بورڈ پر صفر تھا اور تین وکٹیں گر جانے پر چوتھے بیٹسمین نے آکر اپنا اور ٹیم کا کھاتا کھولا! کچھ ایسا ہی معاملہ اس وقت دکھائی دے رہا ہے۔ عمران خان کی ٹیم نے چند ابتدائی اوورز ضائع کردیئے ہیں۔ میچ تھوڑا سا اِدھر اُدھر ضرور ہوا ہے‘ ہاتھوں سے نکلا نہیں ہے۔ اب بہت سنبھل کر کھیلنا ہے۔ اوورز کو میڈن گزارنے کی گنجائش نہیں۔ چھکّے مارنے کی کوششیں بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ ایسے میں ابھی کئی اوورز تک گراؤنڈیڈ شاٹس کھیلنے ہیں ‘تاکہ کیچ لینے کی خواہش رکھنے والوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔ 
لوگ تیاری کی حالت میں ذرا سا موقع ملنے کے منتظر ہیں۔وزیر اعظم عمران خان اور اُن کے رفقاء کیلئے سب سے بڑا چیلنج ناقدین اور دشمنوں کی توقعات پر پانی پھیرنا ہے۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے انہیں صلاحیت‘ سکت‘ تحمل‘ شائستگی اور خدا جانے دوسری کون کون سی صفات کا مظاہرہ کرنا ہے۔ اور ہاں! سب سے بڑھ کر یہ ثابت کرنا ہے کہ اندرونی سطح پر اختلافات یا تو بالکل نہیں ہیں یا پھر انتہائی غیر اہم نوعیت کے ہیں۔ اب کھیل اُس مقام پر ہے‘ جہاں کسی بھی غلطی کی گنجائش نہیں۔ محض ایک وکٹ کے گرنے سے بھی پانسا پلٹ سکتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ کسی کو ہلکا نہ لیا جائے۔ ایسا کرنا بہت بھاری پڑسکتا ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved