جام اقبال میرا ہاتھ پکڑے تیز قدموں سے چلتے ہوئے ایسی جگہ پہنچے جو کوٹ سلطان شہر سے کچھ فاصلے پر تھی۔ وہاں ایک چار دیواری ہماری منتظر تھی جس کے اندر وہ لڑائی ہونا تھی۔
اس چار دیواری کا صرف ایک گیٹ تھا جس پر ہجوم اندر جانے کے لیے ایک دوسرے کو دھکے دے رہا تھا۔ ہر طرف بندے ہی بندے تھے‘ جو اس لڑائی کو کسی صورت مِس نہیں کرنا چاہتے تھے۔ جن کے پاس ٹکٹ تھے وہ بھی اندر نہیں جا پا رہے تھے اور میں یہاں امیدیں لگائے ہوئے تھا کہ جام اقبال کے پاس کوئی گیدڑ سنگھی ہے جس کی مدد سے وہ مجھے ضرور اندر بھیجیں گے۔ میرے چہرے پر پھیلتی مایوسی دیکھ کر جام اقبال ہنس کر بولے: فکر نہ کرو‘ کچھ کرتا ہوں۔ اتنی دیر میں اعلان ہوا: ریچھ اور کتے کی لڑائی شروع ہونے والی ہے۔ میری بے چینی مزید بڑھ گئی تھی۔ اتنے قریب آ کر بھی میں لڑائی نہیں دیکھ پائوں گا۔ کیا مجھے اگلا پورا ایک سال انتظار کرنا پڑے گا‘ جب یہ میلہ ہو گا اور میں پھر آئوں گا۔ پھر ایک خیال میرے ذہن میں آیا کہ اگر اگلے سال بھی اسی طرح رش ہوا تو پھر کیا ہوگا؟ کیا وہ دن کبھی نہیں آئے گا جب میں ریچھ اور کتوں کی لڑائی دیکھ پائوں گا۔
جام اقبال گہری سوچ میں غرق جبکہ میں یہ سوچنے میں مصروف تھا کہ مجھے پتا نہیں کیوں یہ شوق چرایا تھا۔ شاید اس کی وجہ ہمارے گائوں سے کچھ فاصلے پر واقع جنگلوں میں وہ شکار تھے جو سؤر مارنے کے لیے ہر سال ہوتے تھے۔ ان سؤروں کے پیچھے بھی شکاری کتے لگائے جاتے تھے۔ یہ شکار بھی کسی میلے سے کم نہیں ہوتا تھا۔ اس شکار کی ضرورت اس وقت پیش آتی جب سؤر بھوک سے تنگ‘ جنگل سے نکل کر آبادیوں کا رخ کرتے۔ اگرچہ کسی پر حملہ آور نہ ہوتے‘ لیکن گنے کی فصل اجاڑ دیتے تھے‘ لہٰذا کوشش ہوتی تھی‘ پہلے سؤر کو گنے کی فصل سے باہر نکالا جائے اور پھر اسے باہر دوڑا کر اس کے پیچھے کتے چھوڑے جائیں۔ پورے علاقے میں منادی ہوتی تھی فلاں دن سؤروں کا شکار کیا جائے گا۔ اس وقت ہمارے گائوں کے قریب اچلانہ خاندان سے تعلق رکھنے والے اللہ بخش‘ جو بکو اچلانہ کے نام سے مشہور تھے‘ کے پاس ایک تیز رفتار گھوڑا اور بندوق ہوتی تھی۔ شکاری ہونے کے علاوہ ان کی مشہوری کی وجہ ان کا سونے کا دانت تھا۔ ان کے ساتھ اپنا کتا بھی ہوتا تھا۔ بکو اچلانہ کے بغیر سؤر کے شکار کا تصور نہیں تھا۔ وہ گھوڑے پر سوار ہوکر مجمع میں آتے تو رنگ جم جاتا تھا۔ پورا مجمع انہیں دیکھ کر مرعوب ہوتا کیونکہ علاقے میں صرف ان کے پاس سونے کا دانت‘ گھوڑا‘ بندوق اور شکاری کتا تھا۔ اگرچہ میرے اپنے ماموں منظور کے پاس بھی بندوق تھی اور نشانہ بھی اچھا تھا لیکن وہ اس طرح کے شکار میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ یوں بکو اچلانہ کی اپنی شان اور ٹور تھی۔ انہیں گھوڑے پر سوار‘ کندھوں پر بندوق اٹھائے اپنے کتے کی ہمت بڑھاتے تیز رفتاری سے سؤر کے پیچھے جاتے دیکھ کر ہم بچے ان کے فلمی رومانس میں رہتے۔
کسان بتاتا تھا‘ فلاں کھیت میں جانور چھپا ہوا ہے۔ پہلے کسی بندے کو کہا جاتا تھا کہ گھی کے ٹین کو ڈھول کی طرح بجا کر فصل کے اندر جائے۔ سب لوگ شکار سے لطف اندوز تو ہونا چاہتے تھے لیکن کوئی یہ خطرہ مول لینے کو تیار نہ ہوتا کہ وہ اکیلا گنے کے کھیت میں جائے اور جانور کو باہر نکال کر لائے تاکہ کتے اس کا شکار کر سکیں۔ سؤر سے خوف کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس کے دانت بہت نوکیلے اور تیز دھار ہوتے تھے۔ کسی کو بھی ایک لمحے میں کاٹ کر رکھ دیتے تھے۔ ہمارے گائوں کا قاضی فرید بڑا بہادر تھا۔ ابھرتے ہوئے قد کا مالک‘ بھاری بھرکم جسم‘ چہرے پر گہری مونچھیں‘ کندھوں پر ایک لمبی چادر اوڑھے اور سر پر سفید پٹکا (پگ)‘ پائوں میں موچی کی بنائی ہوئی روایتی جوتی۔ ہر دفعہ اسے ہی بہادری دکھانا پڑتی تھی۔ وہ اکیلا کتوں کے ساتھ کھیت میں داخل ہوتا۔ کچھ دیر بعد بھونکنے کی آوازوں سے ہمیں اندازہ ہو جاتا کہ کتے شکار تک پہنچ گئے ہیں۔ قاضی فرید کا اونچا نعرہ‘ جس میں خوف اور جوش کی ملاوٹ ہوتی‘ بلند ہوتا‘ جس کا مطلب سب سمجھ جاتے کہ اب جانور کھیت سے نکل کر باہر آرہا ہے۔ ہم سب بچے بھی خوفزدہ ہو کر بھاگ کھڑے ہوتے۔ جن کے پاس اپنے کتے ہوتے‘ وہ ہاتھوں میں رسیاں تھامے اس انتظار میں ہوتے کہ جانور باہر نکلے اور وہ کتے اس پر چھوڑیں۔ دوسری طرف بکو اچلانہ اپنے گھوڑے پر چوکنا انتظار کر رہے ہوتے تھے کہ جانور باہر نکلے تو وہ اپنا گھوڑا اس کے پیچھے لگائیں۔ ہر طرف عوام کا ہجوم ہوتا‘ جو فرید قاضی کا نعرہ سننے کے بعد جہاں پورے بدن میں سنسنی محسوس کر رہا ہوتا‘ وہاں ڈر بھی رہا ہوتا کہ کہیں سؤر ان کی طرف رخ نہ کر لے اور نوکیلے دانتوں سے کاٹ کر نہ رکھ دے۔ پھر وہ لمحہ آن پہنچتا۔ جانور کھیت سے برآمد ہوتا۔ اس کے پیچھے بھاگتے اور بھونکتے شکاری کتے اور ان کے پیچھے اپنی دھوتی سنبھالتا فرید قاضی۔ فرید قاضی کی بہادری اس لیے مشہور ہوئی کہ ایک دفعہ شکار کے دوران سؤر سیدھا اس کی طرف آیا۔ وہ وہیں کھڑا رہا۔ سب نے آوازیں دیں: بھاگو‘ یہ تمہیں کاٹ پھینکے گا‘ لیکن فرید قاضی ٹس سے مس نہ ہوا۔ سب سانس روکے کھڑے تھے کہ قاضی کی آج خیر نہیں‘ لیکن جونہی سؤر قریب آیا‘ فرید قاضی نے چھلانگ لگائی اور اس کی پیٹھ پر سوار ہو گیا۔ جانور کو لمبے کانوں سے پکڑ کر ایسے اس پر سواری کرنے لگا‘ جیسے گھوڑے پر سوار ہو۔ اس کے بعد قاضی کی بہادری کے چرچے ہر طرف ہونے لگے۔ اب بے چارے فرید قاضی کو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی بہادری ثابت کرنی پڑتی تھی۔ ہر خطرے والا کام اس کے ذمے لگایا جاتا تھا۔
اب صورتحال یہ ہوتی کہ خوفزدہ سؤر‘ جس کے پیچھے کتے لگے ہوتے‘ جان بچانے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہوتا تھا۔ کتے اس تک پہنچتے تو وہ دائیں بائیں سر مارتا تاکہ انہیں زخمی کر دے۔ کتے اس پر لپکتے تو وہ اور تیز ہو جاتا‘ لیکن آخرکار کتے اسے گھیر ہی لیتے۔ وہ کچھ دیر ان کتوں سے لڑتا۔ زندہ رہنے کی جستجو اس پر حاوی ہوتی۔ کچھ دور تک وہ بھاگتا رہتا۔ کتے اسے بھنبھوڑتے رہتے‘ لوگوں کے ہجوم‘ نعروں اور شور کے درمیان آخر وہ زخمی ہو کر سب کوششیں ترک کر دیتا۔ مہر بکو اچلانہ کا گھوڑا بھی کچھ فاصلے پر رک جاتا۔
اس لمحے میں خود کو شدید ڈپریشن محسوس کرتا۔ میرا دل چاہتا‘ میں اسے کسی طرح کتوں سے چھڑائوں اور اسے بھگا دوں۔ اس بے چارے کو مارنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس کے بھی بچے ہوں گے۔ اس کے بھی اماں بابا ہوں گے۔ بھائی بہن ہوں گے۔ جب دوسرے لوگ اور بچے خوشی سے نعرے لگا رہے ہوتے اور سؤر ان کتوں کے درمیان زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہوتا تو مجھے سمجھ نہ آتی کہ یہ سب اتنے خوش کیوں ہو رہے ہیں۔
میرے ایک کزن نے مجھے افسردہ دیکھ کر کہا: یار دیکھو یہ کھیت کھا جاتے ہیں۔ یہ کسانوں کا نقصان کرتے ہیں۔ اگر ہم نہیں ماریں گے تو پھر یہ کھیت اجاڑ دیں گے۔ ہم سب بھوکے مریں گے۔ وہ دیر تک مجھے تسلیاں دیتا رہتا۔ پھر میں اس سے پوچھتا: اگر یہ گنے نہیں کھائیں گے تو پھر زندہ کیسے رہیں گے؟ انہیں بھی ہماری طرح بھوک لگتی ہو گی۔ آخر انہوں نے اور ان کے بچوں نے بھی کچھ کھانا ہے۔
وہ ہنس پڑتا اور کہتا: تم کیسی باتیں کرتے ہو۔ تم چاہتے ہو یہ سب کھیت تباہ کر دیں‘ بلکہ الٹا ہم انہیں دعوت دے کر بلایا کریں کہ آئیں جناب اپنا کھانا کھائیں‘ ہماری خیر ہے۔ مجھے اس کی باتوں میں سمجھداری تو نظر آتی لیکن پھر وہی ڈپریشن طاری ہو جاتا۔ میرے کزنز میری ان باتوں پر ہنستے اور مذاق اڑاتے۔
اچانک سپیکر پر اعلان ہوا۔ ریچھ اور کتوں کی لڑائی شروع ہو چکی تھی۔ مجمع میں دھکم پیل بڑھ گئی تھی۔ میں نے زندہ ریچھ نہ دیکھا تھا۔ سکول کی کتاب میں تصویر دیکھی تھی۔ آج زندہ دیکھنے کا شوق چرایا تھا۔ اچانک جام اقبال کی کسی پر نظر پڑی۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرائے۔ مجھے لگا‘ بندوبست ہو گیا ہے‘ لیکن جو طریقہ جام اقبال نے ڈھونڈا تھا اس پر اس وقت تو میں شدید حیران ہوا تھا لیکن اب برسوں بعد بیٹھا مسکرا رہا ہوں۔ (جاری)