پشاور سے آئے ہوئے ایک اخبار نویس کا سوال تھا: آج آپ نے اپنی امارت کی دوسری (پنج سالہ) ٹرم کا حلف اٹھایا۔ کیا جماعت نے آپ کی امارت کے گزشتہ پانچ سال کا گوشوارہ بھی مرتب کیا کہ اس دوران کیا کھویا، کیا پایا؟
جناب سراج الحق کا جواب تھا ''اس دوران جماعت اسلامی کے ارکان کی تعداد میں اضافہ ہوا (یہ 35 ہزار سے بڑھ کر 39 ہزار ہو گئی۔ ان میں تقریباً 5 ہزار خواتین ہیں) مختلف سطحوں پر جماعت اور اس کی برادر تنظیموں کی تعداد بھی بڑھی‘‘۔ ''لیکن ووٹروں کی تعداد تو کم ہوئی‘‘ بے لحاظ اخبار نویس جواب الجواب پر اتر آیا تھا۔ سراج الحق کا کہنا تھا: ووٹروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ گزشتہ عام انتخابات میں ہمارے حلقے میں جماعت کے ووٹ 47 ہزار تھے، جو اس بار 85 ہزار ہوگئے لیکن رزلٹ وہی انائونس ہوا جو پہلے سے ''طے شدہ‘‘ تھا۔
ایک اور چبھتا ہوا سوال تھا ''اِس تاثر کے بارے آپ کیا کہیں گے کہ جماعت کی انتخابی کارکردگی اس وقت اچھی رہی، جب ''فیصلہ کن عناصر‘‘ کا دستِ شفقت اس کی پشت پر تھا؟‘‘ کسی اشتعال یا برہمی کی بجائے ایک دلآویز سی مسکراہٹ کے ساتھ سراج الحق نے ماضی کا رُخ کیا: اکتوبر 2002ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی دینی جماعتوں کے انتخابی اتحاد ایم ایم اے کا حصہ تھی۔ (جس نے ''کتاب‘‘ کے انتخابی نشان کے ساتھ الیکشن میںحصہ لیا تھا) قومی اسمبلی میں ایم ایم اے 66 نشستوں کے ساتھ اپوزیشن کی سب سے بڑی ''جماعت‘‘ تھی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کا نمبر اس کے بعد تھا (دونوں کی لیڈرشپ جلا وطن تھی‘ نوازشریف کی مسلم لیگ جنرل مشرف کا اصل ہدف تھی، مدیرانِ جرائد اور سینئر اخبار نویسوں سے گفتگو میں جنرل کو نواز شریف کو اپنا دشمن نمبر ایک قرار دینے میں بھی کوئی تامل نہ ہوتا۔ مسلم لیگ کے بطن سے ہی قاف لیگ کی تخلیق ہوئی تھی) سراج الحق صاحب نے یاد دلایا کہ ایم ایم اے کو تب بھی ''مقتدرہ‘‘ کی چہیتی قرار دیا جاتا تھا۔ جنرل مشرف 17ویں ترمیم منظور کرانا چاہتے تھے، جو ایم ایم اے کی تائید کے بغیر ممکن نہ تھا۔ ایم ایم اے کوئی سال بھر اس میں مزاحم رہی اور دسمبر 2004ء تک وردی اتارنے کا وعدہ لے کر اس کی حمایت پر آمادہ ہوئی (مولانا شاہ احمد نورانی ایم ایم اے کے بانی صدر تھے، ان کی وفات کے بعد اب مولانا فضل الرحمن ان کے جانشین تھے۔ اس ترمیم نے صدر کو جنرل ضیاء الحق کی 7ویں ترمیم والے تمام اختیارات دوبارہ سونپ دیئے تھے۔ ان میں سروس چیفس اور گورنروں کے تقرر کے علاوہ 58/2B کے تحت قومی و صوبائی اسمبلیوں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کی برطرفی کا اختیار بھی شامل تھا۔ صوبائی اسمبلی اور صوبائی حکومت کی برطرفی کا اختیار، صدر کی ایڈوائس پر گورنر استعمال کرتا تھا۔ سینیٹر پروفیسر ساجد میر کی جمعیت اہل حدیث بھی ایم ایم اے کا حصہ تھی۔ ہمیں یاد ہے، 17ویں ترمیم کی منظوری کے بعد پروفیسر صاحب جدہ تشریف لائے، تو اس کالم نگار سے ایک انٹرویو میں انہوں نے اگلے سال وردی اتارنے کے ''وعدۂ فردا‘‘ پر، 17ویں ترمیم کی منظوری کو جمہوری عناصر کے لیے صریحاً خسارے کا سودا قرار دیا تھا‘ جس میں صدر کو تمام صوابدیدی اختیارات دے دیئے گئے‘ جس نے منتخب وزیر اعظم کو صدر کا تابع مہمل اور منتخب پارلیمنٹ کو ربڑ سٹیمپ بنا دیا تھا۔ نوازشریف نے اپنے دوسرے دور (1997ئ) میں اپوزیشن کے اتفاق رائے کے ساتھ 13ویں ترمیم کے ذریعے ضیا دور کی 7ویں ترمیم کے اختیارات ختم کرکے، 1973ء کے آئین کو حقیقی پارلیمانی روح کے مطابق بحال کر دیا تھا۔ 17ویں ترمیم کی منظوری کے بعد مشرف، وردی اتارنے کے وعدے سے منحرف ہو گئے اور وردی نومبر2007ء میں اتری، جس میں بنیادی کردار سیاسی جماعتوں کی بھرپور شرکت کے ساتھ، ''جسٹس موومنٹ‘‘ کا تھا۔ اکتوبر 2002ء کے انتخابات کے بعد ایم ایم اے نے خیبر پختونخوا میں عددی اکثریت کی بنا پر اپنی حکومت بنائی‘ جس میں وزارتِ اعلیٰ مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی کے حصے میں آئی (وزیر اعلیٰ اکرم درانی) جماعت اسلامی اس کولیشن میں دوسری بڑی پارٹنر تھی۔ سراج الحق صاحب کی وزارتِ خزانہ سمیت بعض اہم وزارتیں اس کے پاس تھیں۔ جماعت اسلامی نے (قاضی صاحب کی امارت میں) 2008ء کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔ 2013ء میں سید منور حسن امیر جماعت تھے۔ ایم ایم کی بحالی کی تجویز پر جناب سید کا جواب ہوتا: بحالی سے پہلے، اس کی بربادی کے ذمہ دار کا تعین کیا جائے۔ اگست 2014ء کی دھرنا مہم کے وقت سراج الحق امیر جماعت تھے (اور جماعت اسلامی کے پی کے حکومت میں تحریک انصاف کی اتحادی) لیکن سراج الحق نے دھرنا مہم کا حصہ بننے کی بجائے ''فریقین‘‘ میں مفاہمت کی راہ نکالنے کا فیصلہ کیا۔ رحمن ملک بھی، اس کارِ خیر میں سراج الحق صاحب کے ''جرگہ‘‘ کا حصہ تھے۔
جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں سراج الحق صاحب کی زیر قیادت جماعت اسلامی، دوبارہ ایم ایم اے کا حصہ تھی لیکن 2002ء کے برعکس اس بار انتخابی اتحاد کا یہ تجربہ جماعت کے لیے چنداں ثمر آور ثابت نہ ہوا۔ ایم ایم اے کے چودہ ایم این ایز میں تیرہ جے یو آئی کے ہیں اور صرف ایک جماعت اسلامی کا (کے پی کے اسمبلی میں بھی اس بار جماعت کا صرف ایک رکن ہے) سراج الحق صاحب ایم ایم اے کے لیے نیک تمنائیں رکھتے ہیں، لیکن ان کا کہنا تھا کہ جماعت نے آئندہ الیکشن اپنے پرچم تلے اور اپنے انتخابی نشان کے ساتھ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جماعت اسلامی کی 78 سالہ تاریخ میں سراج الحق جماعت کے پانچویں امیر ہیں۔ اگست 1941ء میں اسلامیہ پارک لاہور میں جماعت کے تاسیسی اجتماع میں 38 سالہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس کے اولین امیر منتخب ہوئے۔ برصغیر کی تقسیم کے ساتھ جماعت بھی تقسیم ہو گئی۔ سید مودودی اپنی بہترین آرزوئوں کے ساتھ پاکستان چلے آئے۔ یہاں مختلف اوقات میں سید مودودی اور ان کے رفقا مختلف آزمائشوں سے گزرے۔ 1953ء میں فوجی عدالت سے سزائے موت کے مستحق بھی قرار پائے (مولانا عبدالستار نیازی بھی اس ''اعزاز‘‘ کے سزاوار ٹھہرے تھے) لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کا دور جماعت اسلامی کے لیے بدترین تھا‘ جب جماعت خلاف قانون قرار پائی اور سید مودودی سمیت اس کی پوری قیادت حوالۂ زنداں ہوئی۔ بھٹو صاحب کے عوامی دور میں بھی دیگر سیاسی عناصر کے ساتھ جماعت اسلامی بھی زیر عتاب رہی) اسلامی نظام کیلئے آئینی و جمہوری جدوجہد، سید مودودی کی حکمت عملی کا بنیادی پتھر تھی۔ بنیادی انسانی حقوق کیلئے انہیں 1950ء کی دہائی میں کمیونسٹوں کے ساتھ اشتراک میں بھی تامل نہ تھا۔ فوجی اور سول آمریتوں کے خلاف سیاسی تحریکوں میں وہ لبرل اور سیکولر جماعتوں کے ہمرکاب بھی رہے۔ 1970ء کے انتخابی نتائج ان کی توقعات کے برعکس تھے، لیکن پنجاب میں بھٹو اور مشرقی پاکستان میں مجیب کے طوفان کے باوجود جماعت اسلامی نے اِدھر 15 لاکھ اور اُدھر 10 لاکھ ووٹ حاصل کئے۔ اگرچہ قومی اسمبلی میں اس کی نشستوں کی تعداد صرف چار تھی لیکن لاہور سمیت بعض حلقوں میں اس کے امیدوار دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ 1972ء سے 1987ء تک میاں طفیل محمد، 1987ء سے 2009ء تک قاضی حسین احمد، 2009ء سے 2014ء تک سید منور حسن امیر جماعت رہے۔ اب جناب سراج الحق صاحب دوبارہ امیر جماعت منتخب ہوئے ہیں۔
ایک دور تھا، جماعت کے ''ارکان‘‘ کی تعداد دو، اڑھائی ہزار سے زائد نہ تھی لیکن اس کے کارکنان ہزاروں اور ووٹر لاکھوں میں ہوتے اور معاشرے میں اس کا سیاسی وزن محسوس کیا جاتا۔ حکمران اسے نظر انداز کرنے کا رسک نہ لیتے۔ جماعت کو ''عوامی‘‘ بنانے کیلئے پاکستان اسلامک فرنٹ اور ''پاسبان‘‘ جیسے تجربات بھی کئے گئے۔ لیکن قاضی صاحب کے تمام تراخلاص کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔ 2002ء میں ایم ایم اے کا تجربہ کامیاب رہا تھا لیکن 2008ء کا بائیکاٹ پھر ریورس گیئر ثابت ہوا۔ آج جماعت اسلامی کہاں ہے؟ عشقِ بلا خیز کا قافلہ ٔ سخت جان‘‘ کون سی منزل میں ہے، کون سی وادی میں ہے؟ سنا ہے، سراج الحق صاحب کا دوسرا دورِ امارت جماعت کے تنظیمی ڈھانچے سے لے کر، اس کی سیاسی و دعوتی حکمت عملی تک بہت کچھ بدلنے کا نقطۂ آغاز ہو گا۔