تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     17-04-2019

مسئلہ اٹھارہویں ترمیم نہیں، کچھ اور ہے

تحریک انصاف کے پاس کچھ نہ کرنے کا نیا بہانہ اٹھارہویں ترمیم ہے۔ جب سے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم نے وفاق کو دیوالیہ کر دیا ہے تو ہر نکمّے وزیر کی باچھیں کھل گئی ہیں۔ اب اسلام آباد میں ہر شخص اٹھارہویں ترمیم کو اٹھتے بیٹھتے کوستا نظر آتا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرانے والوں کو اتنا بھی نہیں پتا کہ اس ترمیم نے ملک کے چاروں صوبوں کو مضبوط کیا ہے اور آج ان چار میں سے تین پر خود تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ اگر اس ترمیم سے وفاقی حکومت کمزور ہو گئی ہے تو ان تین صوبوں میں ہی کچھ کر کے دکھا دو جہاں آپ کی حکومتیں ہیں۔ چلیے یہ بھی مان لیا کہ تحریک انصاف وفاقی حکومت میں رہ کر جو کچھ کرنا چاہتی ہے اس کے لیے دستور اس کا ساتھ نہیں دیتا، لیکن سوال یہ ہے کہ دستور نے جہاں جہاں اختیار دیا ہے وہاں اس نے کون سا تیر مار لیا ہے۔ دستور کے شیڈول چار میں وفاقی حکومت کے جو فرائض لکھے ہیں کیا اس نے پورے کر لیے ہیں؟
اس میں صاف صاف لکھا ہے کہ ریلوے وفاق کے پاس ہو گی۔ یہ محکمہ کئی سالوں سے روزانہ کی بنیاد پر پاکستانیوں کا خون چوستا ہے۔ وہ قوم جسے قرض دینے کے لیے قرض لینا پڑتا ہے، وہ اس کا پہیہ چلانے کے لیے ہر سال سینتیس ارب روپے اپنا پیٹ کاٹ کر دیتی ہے۔ اس محکمے کے قادر الکلام وزیر ہر ماہ بوگیاں اکٹھی کر کے سواریاں ڈھونے والی ایک ٹرین کا افتتاح کر ڈالتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اس کے نقصانات میں کمی کا بندوبست کیسے ہو گا۔ یہ محکمہ روزانہ دو سو چالیس ٹرینیں چلاتا ہے گویا ہر ٹرین ہر روز چار لاکھ بائیس ہزار تین سو چوہتر روپے کا نقصان پہنچاتی ہے۔ روزانہ دس کروڑ روپے سے زیادہ نقصان کرنے والے اس محکمے کے وزیر باتدبیر کو آپ روزانہ ٹی وی پر دیکھتے ہیں، کبھی کسی نے ان کے دہنِ مبارک سے اپنے محکمے کے بارے میں سنجیدہ منصوبہ بندی کا کوئی ایک لفظ بھی سنا؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ 
اٹھارہویں ترمیم کے بعد بھی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) یعنی ٹیکس اکٹھا کرنے والا ادارہ ہمارے ایماندار وزیر اعظم کی نیک نیت ٹیم کے ماتحت ہے۔ آٹھ ماہ گزر گئے، بہترین قیادت ہمیں خبر دے رہی ہے کہ یہ ادارہ ہدف کے مطابق ٹیکس اکٹھا نہیں کر پا رہا۔ اس محکمے کو ٹھیک کرنا تحریک انصاف کے منشور کا اہم ترین نکتہ تھا۔ وزیر اعظم فرماتے ہیں، ''اگر ایف بی آر درست نہ ہوا تو ہم نیا ایف بی آر بنا لیں گے‘‘۔ چلیے یونہی سہی، کم از کم یہ تو بتائیے کہ آپ کے خوابوں کا ایف بی آر کیسا ہو گا؟ حالت یہ ہے کہ کسی کو سرے سے علم ہی نہیں کہ ٹیکس لگانا کہاں ہے اور اکٹھا کہاں سے کرنا ہے۔ معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے آپ ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے ہونے کے سوا کچھ نہیں کر پائے۔ یہ آپ نے ایف بی آر کو بتانا ہے کہ وہ ہر دکان اور ہر کاروبار میں ہونے والی خرید و فروخت کو ریکارڈ پر لائے۔ آپ نے ان ٹیکس چوروں کے خلاف مہم چلانی ہے جو مذہب کی آڑ لے کر اپنی دکانوں پر کریڈٹ کارڈ مشین نہیں لگاتے کہ ان کا کچا چٹھا بینک اور پھر ایف بی آر کے کھاتوں پر نہ آ جائے۔ چین اور انڈیا میں اگر موبائل فون ہر چیز کی ادائیگی کے لیے استعمال ہو سکتا ہے تو ہم ایسا کیوں نہیں کر رہے؟ یہ سب آپ نے سوچنا تھا، سوچنا ہے، اٹھارہویں ترمیم آپ کو کچھ نہیں کہے گی۔ 
انیس سو تہتر کے آئین کے مطابق آج بھی ہوائی سفر اور ہوائی جہازوں سے متعلق سب کچھ وفاقی حکومت کا اختیار ہے۔ اس معاملے کو دیکھ لیجیے۔ پی آئی اے پاکستان پر ہر مہینے تین ارب روپے کا بوجھ لاد دیتی ہے۔ جب بھی کسی حکومت نے اس کو ٹھیک کرنے یا بیچنے کی کوشش کی، اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے ایک طوفان اٹھا دیا۔ آخری کوشش کو ناکام بنانے میں تو تحریک انصاف نے بطور اپوزیشن جماعت قائدانہ کردار ادا کیا تھا۔ اب پچھلے آٹھ ماہ سے یہی جماعت اقتدار میں ہے اور پی آئی اے ٹھیک کرنے کے دعوے کی حیثیت یہ ہے کہ اس عرصے میں چوبیس ارب روپے ہماری خون پسینے کی کمائی میں سے اس عفریت کو کھلا دیے گئے ہیں۔ تسلیم کہ آٹھ ماہ میں پی آئی اے ٹھیک نہیں ہو سکتی لیکن ٹھیک ہونے کی راہ پر تو لائی جا سکتی تھی۔ وہ سارے منتر جو تحریک انصاف نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے چھپا رکھتے تھے اب کیوں نہیں پڑھے جاتے کہ ہمارا خون چوسنے والے پی آئی اے کے پرندوں کا کچھ علاج ہو سکے۔ یہ جادو چلانے سے تو اٹھارہویں ترمیم نے حکومت کو نہیں روک رکھا۔ 
اٹھارہویں ترمیم کے مطابق وفاقی حکومت کو کوئی منع نہیں کر سکتا کہ یہ پاکستان سٹیل ملز کو چلائے جو گزشتہ چار سال سے بند پڑی ہے۔ یادش بخیر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اس کی فروخت روک گئے تھے اور اس وقت سے لے کر آج تک ہمیں یہ مل چار سو اسی ارب روپے کا نقصان پہنچا چکی ہے۔ اس مل کو چلانے کے لیے جو ٹامک ٹوئیاں یہ حکومت مار رہی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے نام نہاد ماہرین کا ایک گروپ بنا رکھا ہے‘ جو پہلے دو ماہ کے لیے بنایا گیا تھا، پھر تین ماہ کی مزید مہلت دے دی گئی۔ اب کوئی نہیں جانتا کہ یہ گروپ کوئی قابل عمل منصوبہ بھی بنا پائے گا یا نہیں۔ معلوم نہیں کہ کب یہ منصوبہ بنے گا، کب اس پر عملدرآمد ہو گا اور کب سٹیل مل اس قابل ہو گی کہ ہماری گردنوں سے اس کے خسارے کا طوق اترے۔ کبھی کبھار تو دل چاہتا ہے کہ حکومت بس اب اسے بند کرنے کا اعلان کر دے، تاکہ ہم ایک ہی بار اس پر فاتحہ پڑھ لیں۔ 
یہ بات درست ہے کہ تعلیم اب صوبوں کا معاملہ ہے، وفاق نے یکساں معیار تعلیم کے لیے کردار ادا کرنا ہے۔ شفقت محمود بطور وزیرِ تعلیم اس کام کے نگران ہیں۔ ان کے پیشرو بلیغ الرحمن نے صوبوں کے ساتھ مل کر یکساں معیار اور یکساں نصاب پر کافی کام کر لیا تھا۔ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے اس نے سیاسی نفرت ہی اتنی پیدا کر دی ہے کہ سندھ حکومت تو اس کے ساتھ کوئی تعاون کرتی نظر نہیں آتی۔ اس لیے وفاقی سطح پر کوئی کام ہو یا نہ ہو یہ ابھی دور کی بات ہے۔ لیکن خیبر پختونخوا، پنجاب اور بلوچستان میں تو یہ کام ہو سکتا ہے ناں۔ اختیار بھی موجود ہے، طاقت بھی ہے تو پھر ان تین صوبوں میں چالیس قسم کے نصاب اور چار طرح کے نظامِ تعلیم کیوں رائج ہیں؟ پنجاب میں یکساں نظام کرنے کے لیے تحریک انصاف کو کس دستور نے روک رکھا ہے، خیبر پختونخوا میں کیا چیز اسے یہ قدم اٹھانے سے روکے ہوئے ہے؟ اٹھارہویں ترمیم نے جب صوبوں کو طاقتور بنایا ہے تو جناب تین صوبوں میں آپ ہی کی تو حکومت ہے، یہاں تو یہ کام کر گزریں۔ 
اس وقت وفاقی حکومت کا مسئلہ اٹھارہویں ترمیم نہیں بلکہ سمت کا نہ ہونا ہے۔ اس ترمیم پر کئی اعتراضات ہونے کے باوجود اب تو وفاقی حکومت کی نالائقی دیکھ کر یک گونہ اطمینان ہوتا ہے کہ اگر آج اس کے پاس اختیارات ہوتے تو شاید اس طرح کی حکومت سب کچھ برباد کر ڈالتی۔ وہ تو شکر ہوا کہ دستور میں اس ترمیم کے تحت اختیارات صوبوں کو منتقل ہو گئے اور وہ تعلیم، صحت، امن و امان اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے ذمہ دار قرار پائے‘ ورنہ یہ سارے کام موجودہ حکومت کے وزرا کے پاس ہوتے تو اس تباہی کا عالم کیا ہوتا جو کراچی تا خیبر پھیل چکی ہوتی۔ بخدا اب تو دل سے دعا نکلتی ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے صوبوں کو اختیارات منتقل کر دیے جن کی بنیاد پر آج بلوچستان میں جام کمال اور سندھ میں مراد علی شاہ کچھ کام کرتے نظر آتے ہیں‘ ورنہ اسلام آباد، لاہور اور پشاور میں جو سرکس لگی ہوئی ہے، اس کا نظارہ کوئٹہ اور کراچی والے بھی کرتے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے اختیارات میں کمی اپنی جگہ شاید ایک مسئلہ بھی ہے لیکن ان محدود اختیارات کے ساتھ ہی وفاق میں صاحبان تحریک انصاف جو ستم ڈھا رہے ہیں، انہیں دیکھ کر کوئی پاگل ہی اس کے خاتمے کے لیے ان کا ساتھ دے سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved