پوری کائنات اُصولوں کے تابع ہے۔ یہ اُصول از خود مرتب نہیں ہوگئے‘ بلکہ اس کے خالق اور رب نے اپنی صنّاعی یقینی بنانے کے ساتھ اس کے برقرار رکھنے کا بھی اہتمام کیا ہے۔ ہماری دنیا سمیت پوری کائنات کا کوئی بھی معاملہ خالق و رب کے طے کردہ اُصولوں اور قاعدوں سے مُبرّیٰ نہیں۔ اِن اُصولوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کو نتائج بھی بھگتنا پڑتے ہیں۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ چار و ناچار کائنات کے اُصولوں ہی کے مطابق زندگی بسر کرنا پڑتی ہے۔
ہم جس ڈھنگ سے زندگی بسر کر رہے ہیں وہ کسی بھی اعتبار سے اطمینان بخش ہے نہ قابلِ رشک۔ غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ہم زندگی بھر بہت سی چھوٹی باتوںکو یکسر نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ اور پھر اِس کا خمیازہ بھی بھگتتے رہتے ہیں۔
عجلت پسندی ہر دور کے انسان کے مزاج کا خاصہ رہا ہے۔ قرآن میں اللہ نے انسان کو جلد باز اور ناشکرا قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر دور کا انسان جلد باز اور ناشکرا رہا ہے۔ آج کا انسان ؛البتہ تھوڑا زیادہ عجلت پسند دکھائی دیتا ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ اُس کے ذہن پر غیر معمولی دباؤ ہے اور اِس دباؤ کے آگے وہ ہتھیار ڈالتا جارہا ہے۔ آج کا انسان چاہتا ہے کہ جو کچھ پوری زندگی میں ملنا ہے وہ ایک ہی ساعت میں مل جائے۔
ایسا کیوں ہے؟ بات کچھ یوں ہے کہ ہر دور کا انسان زندگی بسر کرنے یعنی کمانے کے لیے کوئی نہ کوئی ہنر سیکھتا ہے۔ کسی نہ کسی شعبے میں غیر معمولی مہارت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ تاکہ زیادہ سے زیادہ کمانا ممکن ہوسکے اور زندگی مزے سے گزرے۔ یہ سب ناگزیر ہے کیونکہ دنیا اُسی کو کچھ دیتی ہے جو کچھ کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ انسان اگر کسی شعبے میں مہارت رکھتا ہو تو اُس شعبے میں اُسے کام ملتا ہے‘ وہ محنت کرتا ہے‘ خوب کماتا ہے اور یوں قابلِ رشک انداز سے زندگی بسر کرتا ہے۔ یہی پوری دنیا کا عمومی طریق ہے اس لیے کسی بھی اعتبار سے حیرت انگیز ہے‘ نہ قابلِ اعتراض۔
یہ سب تو ٹھیک ہے‘ مگر زندگی بسر کرنے کا ہنر بھی تو سیکھنا پڑتا ہے۔ ہم سب اس دنیا میں آنے کے بعد سے آخری سانس لینے تک زندہ رہتے ہیں‘ یعنی جیتے ہیں ‘مگر کس طور جینا ہے یہ جاننے اور سیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ہمیں زندگی بھر‘ یعنی مرتے دم تک قدم قدم پر الجھنوں کا سامنا رہتا ہے۔ مسائل ہمارا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔ کسی نہ کسی طرح کا دباؤ ہمارے ذہن ہی نہیں‘ بلکہ پورے وجود پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا رہتا ہے مگر ہم اس حوالے سے باشعور ہونے کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ہم زیادہ سے زیادہ کمانا چاہتے ہیں ‘مگر یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ زیادہ کمانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے‘ اُسے ہم احسن طریقے سے بروئے کار لائیں ‘یعنی اپنی محنت کی کمائی کا نعم البدل تلاش کریں۔
ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ ہم بہت کچھ بہت تیزی سے حاصل کرنے کے لیے سرگرداں رہتے ہیں۔ کبھی کبھی‘ حالات کی مہربانی سے‘ ایسا کرنا ممکن ہوتا ہے‘ مگر عمومی سطح پر ہر کام ایک طے شدہ رفتار ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ ہر معاملہ ایک طے شدہ کورس آف ایکشن ہی نہیں بلکہ ٹائم فریم بھی مانگتا ہے۔ اس حوالے سے اُصولوں کو نظر انداز کرنا ہمارے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ بعض معاملات میں اگر طے شدہ طریق کو نظر انداز کیا جائے اور غیر معمولی عجلت کا مظاہرہ کیا جائے تو نتیجہ توقعات کے عین مطابق نہیں نکلتا۔ مثلاً اگر کسی چیز کو ڈھنگ سے پکانے کے لیے تین یا چار گھنٹے درکار ہوں تو اُسے پریشر کُکر میں محض ایک گھنٹے میں پکایا جاسکتا ہے۔ یہ تو ممکن ہے ‘مگر یہ ممکن نہیں کہ لذت اور غذائیت ہماری مرضی کی ہو۔
ہر معاملے میں فوری فائدہ دیکھنے کی ذہنیت انسان کو بیشتر معاملات میں محض خرابی سے دوچار کرتی ہے۔ کسی بھی معاملے میں فوری نتائج کے حصول کی خواہش جب غیر معمولی شدت اختیار کرتی ہے تو معاملات بگڑتے ہی چلے جاتے ہیں۔ قدرت کے طے کردہ اُصولوں کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ بنتا کام بھی بگڑ جاتا ہے۔ ہم زندگی بھر یہی غلطی دہراتے رہتے ہیں ‘مگر اپنی سوچ کو تبدیل کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔
زندگی بسر کرنا ایک باضابطہ ہنر ہے جو الگ سے سیکھنا پڑتا ہے۔ یہ ہنر کسی ادارے میں نہیں سکھایا جاتا بلکہ ہمیں خود سیکھنا پڑتا ہے۔ ہاں‘ اِس حوالے سے ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔ ماہرین بھی موجود ہیں‘ جن کے مشوروں کی روشنی میں ہم اپنے شب و روز بہتر بناکر زندگی کا معیار بلند کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے ہم اپنے دین سے ہدایات پاسکتے ہیں اور دیگر ذرائع سے ملنے والی دانش بھی ہمارے کام آسکتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم عمومی سطح پر کچھ سیکھنے اور پانے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ بعض معاملات میں ہمیں اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ الجھن اور خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا‘ مگر اس کے باوجود ہم اپنے جذبات پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں۔ ایسا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ ہم متعلقہ تربیت حاصل کرنے سے گریز کرتے رہتے ہیں۔
زندگی کس طور بسر کرنی چاہیے یہ بات بہت سے اہلِ مہارت و مشقّت کو دیکھ کر سیکھی جاسکتی ہے۔ کسانوں ہی کو لیجیے۔ وہ کسی بھی فصل کے لیے زمین تیار کرتے ہیں۔ پھر کھاد ڈال کر بیج بوتے ہیں اور وقفے وقفے سے پانی دیتے ہیں۔ کسانوں کے لیے سب سے ضروری ہے تحمل۔ انہیں فصل کے پکنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اور اِس دوران باقاعدگی سے خیال رکھنا پڑتا ہے کہ فصل کو کیڑے نہ لگیں یا مویشی نقصان نہ پہنچائیں۔ پانی بھی ایک ساتھ نہیں دیا جاسکتا ‘بلکہ وقفے وقفے سے‘ ضرورت کے مطابق‘ دینا ہوتا ہے۔ اگر کسان فوری نتائج کے حصول کی ذہنیت پروان چڑھائے تو کام ہی نہ کر پائے۔ اور یوں ہر فصل کا بیڑا غرق ہوکر رہ جائے۔
فوری نتائج کے حصول کی ذہنیت ہی کا یہ ''کمال‘‘ ہے کہ آج ہم بیشتر معاملات میں انتہائی عجلت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کام بگاڑ بیٹھتے ہیں۔ کسی کو اگر مشورہ دیجیے کہ بچے کو مطالعے کی طرف مائل کیجیے‘ کچھ نہ کچھ پڑھتے رہنے کی عادت ڈالیے تو جواب ملتا ہے ‘اس سے کیا ملے گا! بعض معاملات میں یہ سمجھانا انتہائی دشوار ثابت ہوتا ہے کہ ایک خاص مدت کے بعد ہی نتائج سامنے آنے لگیں گے۔ مطالعے کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے؛ اگر کوئی چھوٹی عمر سے پڑھتا آئے تو مطالعہ اُس کی شخصیت کی تشکیل و تہذیب کرتا رہتا ہے۔ پچیس اور تیس سال کی عمر کے دوران سوچ میں پختگی آتی ہے۔ یہ پختگی بیشتر معاملات کو آسان بناتی ہے۔ جو غیر معمولی حد تک مطالعہ کرتے آئے ہوں‘ وہ زندگی کے ہر اہم معاملے میں خوب سوچ بچار کے بعد کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔ مطالعہ کسی ملازمت کا نام نہیں کہ انسان چند کتابیں پڑھے اور اُن کا معاوضہ پائے۔ مطالعے سے فکری سانچے اور ڈھانچے میںجو پختگی پیدا ہوتی ہے ‘وہ مرتے دم تک ثمرات سے نوازتی رہتی ہے۔
معیاری زندگی ہم سے تحمل اور بُرد باری چاہتی ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ محنت کرنے کے بعد ہمیں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں ؛اگر نتائج یقینی بنانے کے حوالے سے غیر ضروری عجلت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے ‘تو معاملات ایسے بگڑتے ہیں کہ ہاتھ آتی ہوئی چیز بھی ہاتھ نہیں آتی۔