تحریر : ڈاکٹر انوار احمد تاریخ اشاعت     25-04-2013

چند اچھے لوگوں سے ملاقات

ہمارے ہاں بد گمان لوگ رہتے ہیںتو خوش خیالوں کی بھی کمی نہیں۔ خوش باش تو خیر پاکستان کے ہر خطے میں ہیں جو لوڈشیڈنگ کی پابندیٔ وقت‘ نرگس سیٹھی کی ’’چھٹی‘‘ اوررحمان ملک کے عمرے میں بھی بشاشت کے پہلو تلاش کر لیتے ہیں۔ ایسی طبیعتوں اور مزاجوں کے اندازِ بیان میں ایک معصومانہ مبالغہ توہو سکتا ہے مگر ان کی نیّت نیک ہی ہوتی ہے۔آپ ان کی محفل میں چلے جائیں تو بریکنگ نیوز کے وہ دھماکے بھی بھول جاتے ہیں جن میں پہلے بارُود سے بھرے دو ٹرکوں کے پکڑے جانے کا ذکر ہوتا ہے،پھر کسی قدرافسردگی سے بتایا جاتا ہے کہ یہ ٹرک اکبری منڈی کے ایک تاجر کے ہاں گندھک اتارنے آئے تھے۔ایسی محفلوں میں جاکر مجھے بے اختیار محسن نقوی یاد آتا ہے جس کی فخر بلوچ،حافظ ظفر اقبال،اصغر ندیم سید اور اے بی اشرف کے ساتھ محفل میں تاریخ و تہذیب کی تشکیلِ نو کے ابواب کھلتے اور ہم سب کو احساس ہوتا کہ ہمارے عقیدے کو دینِ فطرت کیوں کہتے ہیں؟ اس سب کے باوجود ضیاء الحق کے دور کی طوالت اور ریا کاری کی افزودگی کے سبب ہم سب کی ’مذہبی ‘لوگوں سے بر گشتگی میں اضافہ ہوا۔ مگر گزشتہ ہفتے دو مختلف سرکاری سکولوں کے بچوں کے لیے دو تین مذہبی افراد کے ایثار نے اس طبقے کے بارے میں مجھ ایسے متعصب کو بھی خوش گمان بنا دیا ہے۔ایک تو زکریا یونیورسٹی سے ’اقبال کے تصوراتِ فنونِ لطیف‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والی ڈاکٹر ارشد خانم نے مسلم ہائی سکول کے بچوں کے لیے بانگِ درا کو فرہنگ سمیت ایڈٹ کر کے ایک خوبصورت تحفے کا روپ دیا ہے اور اس کے دیباچے میں لکھا ہے ’’ہمارے ہاں اس بات پر نوحہ خوانی تو بہت ہوتی ہے کہ بچوں کی ذہنی کشادگی اور جمالیاتی تربیت کے لیے مناسب کتب نہیں،وسیع القلب استاد نہیں اور روادار معاشرہ نہیں؛ تاہم میرا خیال ہے کہ اقبال اور کلامِ اقبال کی صورت میں ہمارے پاس ایک ملِّی سرمایہ ہے جو ایک طرف آپ کو ناامیدی سے بچاتا ہے،دوسرے آخری سانس تک متحرک اور با عمل رکھتا ہے کہ انسان اپنے ممکناتِ ذات یاجوہرِ حیات سے آشنا ہو کر درسِ خودی کی معنویت سے آگاہ ہو جائے اور سب سے بڑھ کر یہ مشرقی ادبیات و اقدار کی محرمِ راز اردو زبان میں محسوس کرنے کی صلاحیت سے عمر بھر محروم نہیں ہوتا اور ہمارے حاکموں کے برعکس اپنوں سے ایک مضبوط رشتہ قائم رہتا ہے۔ چنانچہ ہم نے فی الوقت بچوں کے بستے کے لیے جوتین کتابیں تیار کی ہیں،ان میں بنیادی اہمیت حکیمِ مشرق کے پہلے اردو مجموعے ’بانگِ درا‘ کو حاصل ہے۔بچوں اور شاید ان کے استادوں کی سہولت کے لیے اس میں مشکل الفاظ کے معانی کے لیے ہر نظم ،غزل اور قطعے کی ایک فرہنگ بھی تیار کی گئی ہے۔مجھے زندگی میں اپنے استا دوں کی شفقت اور شاگردوں کی بہت محبت ملی، مگر ایک خلش ہے جو میرے دل سے نہیں جاتی۔ میرے ایک معصوم بھائی کو بعض سفاک لوگوں نے اغوا کر کے اسے ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا تھا۔اب جب کہ میَں نے اپنے ایک استاد کو اپنی مادرِ علمی مسلم ہائی سکول میں ہر ہفتے جاتے، چھٹی جماعت کو پڑھاتے اور ان کے مطالعے کے لیے اضافی جتن کرتے دیکھا تو اک دم سے مجھے خیال آیا کہ مجھے بھی اپنے بھائی جیسی ان گنت معصوم جانوں کے بستوں کے لیے کچھ تحفے تیار کرنے چاہئیں‘‘۔ اسی طرح استنبول میں مقیم ایک پاکستانی ڈاکٹرندیم خاور نے گورنمنٹ بخاری پبلک سکول ولایت آباد کے تیس ننھے بچوں کی کلاس کے لیے کمپیوٹر،پرنٹر اور دیگر سہولتیں فراہم کر دی ہیں اور اس گئے گذرے دور میں عبدالسلام بھٹہ، محمد ساجد،عمیر نثار، حامد رشید،محمد عارف،محمد نعیم اور سہیل ارباب جیسے استادوں سے ملاقات ہوئی جو اپنی عبادات کو انسانیت کی خدمت کے بغیر نا مکمل خیال کرتے ہیں۔ سفید ریش کمپیوٹر پروگرامر اس کلاس کے بچوں کے والدین کی غربت کا ذکر کرتے ہوئے جب آب دیدہ ہوئے تو مجھے ان کے والدِ گرامی یاد آئے جو ریلوے میں ملازم تھے اور ایک جرمن خاتون کو قبولِ اسلام اور شاید بعد کے مراحل کے لیے رائے ونڈ لے جانے پر مصر تھے اور بڑی مشکل سے ہم جیسے چھ سات مسافروں نے انہیں اپنا ارادہ ملتوی کرنے پر آمادہ کیا تھا،مگر تب نہیں جانتا تھا کہ انہی کا بیٹا فضیلتوں میں اتنا آگے نکل جائے گا۔ یہی نہیں انہی دنوںایک سندھی دوست سے ملاقات نے بھی مجھے سرشار کر رکھا ہے، جن کے بارے میں بہت پہلے جب معلوم ہوا تھا کہ انہیں بلاول بھٹو کا اتالیق بنایا گیا ہے تومیَں نے اپنے ایک اور دوست کے انٹر نیٹ اخبار میں کالم لکھ کے حسبِ عادت چند مشورے دینے کی کوشش کی تھی مگر تب انہوں نے ایسی کسی ذمہ داری کا اقرار نہیں کیا تھا مگر ملتان کی ایک ثقافتی شام کے زیرِ اثر انہوں نے ہم ایسے جیالوں کو پژمردگی سے بچانے کے لیے بتایاکہ انہوں نے غیر رسمی طور پر بلاول کے ساتھ کافی وقت گذارا ہے،وہ اپنی ماں کا بیٹا ہے،مطالعے کا شوق رکھتا ہے اور اپنے موجودہ انکلوں کے بارے میں کم و بیش وہی رائے رکھتا ہے جو اس کی شہید ماں کی اپنے انکلوں کے بارے میں تھی۔ مجھے کچھ کچھ سندھیوں کی یادداشت کا اندازہ ہے،اس لیے میَں نے اپنے اس دوست سے نہیں پوچھا کہ کیا بلاول کو اپنی ماں کے وہ آنسو یاد ہیں جب ایک جلتی دوپہر میںسکھر کی ایک عدالت کے باہر کے پلاٹ میں بے نظیر اس کی انگلی تھامے، آصفہ کو گود میں اٹھائے تھک کر بیٹھ گئی تھی اور سیف الرحمن کی دہشت سے بعض عزت مآب افرادکے رویے سے دل برداشتہ ہو کر اپنی پریس کانفرنس میں رونا شروع کر دیا تھا؟ تب مجھ ایسا ملتانی بھی رو پڑا تھا جو محسن نقوی کی اشک آور کوششوں کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved