تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     18-04-2019

اتوار سے اتوار تک … (1)

یہ قریب گیارہ بارہ سال پرانی بات ہوگی۔ باوجود اس کے کہ میری یادداشت بہت اچھی نہیں مجھے اس روز کے اس واقعے کی ساری جزئیات اچھی طرح یاد ہیں۔ وہ اتوار کا دن تھا اور میں رات گئے کہیں سے سفر کرکے واپس آیا تھا۔ رات دیر سے سویا تھا اور ارادہ تھا کہ صبح دیر تک سوتا رہوں گا۔ اتوار والے دن میں ویسے بھی تھوڑا دیر سے اٹھتا ہوں لیکن اس دن تو باقاعدہ دیر سے اٹھنے کا ارادہ تھا‘ لیکن صرف ارادہ کر لینے سے کیا ہوتا ہے؟ سو اس ارادے کا بھی یہی حشر ہوا۔ صبح دروازے کی گھنٹی بجی۔ ابھی اٹھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ گھنٹی دوبارہ بجی۔ اس بار گھنٹی بجانے والے نے شاید دل میں یہ ارادہ کر لیا تھا کہ اتوار کو دیر تک سونے والے کو اٹھا کر ہی دم لینا ہے۔ میں اٹھا اور دروازے کی طرف چل پڑا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ صبح ہی صبح اٹھنے پر دل میں بڑا غصہ تھا اور ظاہر ہے آنے والے پر ہی تھا مگر اس کمبخت دروازے کی گھنٹی کا کیا کرتا؟ دروازہ کھولا تو سامنے ایک اجنبی کھڑا تھا۔ مجھے اب تو دل میں اور بھی غصہ آیا کہ نہ جان نہ پہچان اور اتوار کو صبح ہی صبح آن دروازہ کھڑکایا ہے۔ خیر! میں نے بمشکل اپنے لہجے میں پیدا ہونے والی تلخی پر قابو پایا اور اس شخص سے پوچھا: جی فرمائیں؟ اس نے آگے سے مسکرا کر کہا: مجھے ندیم گجر نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ یہ سنتے ہی میری ساری بدمزگی اڑن چھو ہو گئی۔ ندیم گجر کے بھیجے گئے شخص کی مہمانداری اور دلداری سے بھلا کس طرح منہ موڑا جا سکتا تھا؟ سو میں نے اسے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ وہ شخص میرے پیچھے پیچھے گھر کے اندر آیا۔ میں نے اسے ڈرائنگ روم میں بٹھانے کے لیے گھر کے اندر آنے کا کہا مگر اس نے کہا کہ وہ باہر لان میں بچھی کرسیوں پر بیٹھے گا۔
ندیم گجر میرا لڑکپن کا دوست ہے اور دوست بھی کیا؟ یوں سمجھیں کہ بھائیوں جیسا ہے۔ اور یہ دوستی کی دوسری نسل ہے۔ ندیم کے والد چچا مجید خان مرحوم میرے ابا جی مرحوم کے کلاس فیلو تھے۔ گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری سکول میں وہ چھٹی سے لیکر دسویں کلاس تک ہم جماعت تھے اور پکے دوست بھی۔ نہ مجھے اس بات کا علم تھا اور نہ ہی ندیم گجر کو اس پرانے رشتے کا علم تھا۔ ایک دن ابا جی نے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ندیم کو دیکھا تو پوچھا کہ مجید خان تمہارا کیا لگتا ہے؟ ندیم نے کہا: وہ میرے والد ہیں۔ ابا جی نے آگے بڑھ کر ندیم کو گلے لگایا اور کہنے لگے: تم ایک سو فیصد اپنے والد کی کاپی ہو۔ وہ جب تمہاری عمر کا تھا تو بالکل تمہارے جیسا تھا۔ پھر اس کے والد کے بارے میں پوچھا اور سلام بھجوایا۔ ندیم کے ابا جی جب چک عبداللہ سے واپس آئے تو ابا جی انہیں ملنے گئے۔ اس زمانے میں خود اپنے والد صاحب سے ذرا بچ بچا کر رہا جاتا تھا کجا کہ دوست کے والد صاحب ہوں۔ اس واقعے کے بعد ندیم کے ابا جی سے تعلقات میں بہتری آ گئی۔ یہی حال ندیم گجر کا میرے ابا جی سے باہمی تعلقات کا تھا۔ اب آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ ندیم سے میری دوستی کس قسم کی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ندیم گجر کا نام سنتے ہی اتوار کی صبح جلد نیند کھلنے کی ساری تلخی ہوا ہو گئی۔ میں نے آنے والے کو لان میں کرسی پر بٹھایا اور اندر جا کر اپنی اہلیہ کو کہا کہ باہر ندیم کا مہمان آیا ہے‘ لسی کا بندوبست کرو۔ اس نے اصرار کیا کہ صبح کا وقت ہے اس سے ناشتے کا پوچھیں۔ میں نے کہا: اچھا ناشتہ بنا دو۔ یہ کہہ کر میں دوبارہ باہر آ گیا۔ اب میں نے غور کیا تو دیکھا کہ لان میں رکھی میز پر ایک تہہ کی ہوئی پٹ سن کی بوری پڑی تھی۔ مجھے آتا دیکھ کر اس نے میز پر اس بوری کو کھولا۔ اندر تہہ کی ہوئی چیتے کی تازہ کھال تھی۔ اس نے کھال اٹھا کر نیچے گھاس پر پھیلا دی۔ کھال دو یا زیادہ سے زیادہ تین چار دن پرانی تھی۔ اس کو نمک لگا ہوا تھا اور اندر کی جانب سے اچھی طرح صاف کی ہوئی تھی۔ اگلی بائیں ٹانگ سے بالشت پھر اوپر چھنگلی انگلی کی موٹائی کے پانچ چھ سوراخ تھے۔ یہ بارہ بور کی بندوق سے چلائے گئے ایل جی کے کارتوس کے زخم تھے۔ یہ گلدار یعنی Leopard کی کھال تھی‘ جسے عرف عام میں یہاں چیتا کہا جاتا ہے؛ تاہم یہ چیتے کی کھال نہیں تھی۔ چیتے کو انگریزی میں Cheetah ہی کہا جاتا ہے اور وہ پاکستان میں پایا ہی نہیں جاتا۔ پاکستان میں مارگلہ اور مری ہلز میں Leopard یعنی گلدار یا تیندوا پایا جاتا ہے اور سلسلہ کوہ قراقرم میں بلندی پر برفانی چیتا یعنی Snow Leopard پایا جاتا ہے۔ یہ تیندوے کی کھال تھی جو کبھی کبھار مری اور گلیات میں اپنی جھلک دکھاتا رہتا ہے۔ میں نے خود دو تین بار اسے ڈونگا گلی اور خیرا گلی کے پاس دیکھا ہوا تھا۔
ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے اس خوبصورت اور ختم ہوتے ہوئے جانور کی کھال دیکھ کر از حد افسوس ہوا۔ اور صرف افسوس ہی نہیں بلکہ شدید غصہ بھی آیا۔ اسے کسی بے رحم شکاری نے اپنی بارہ بور کی بندوق سے نشانہ بنایا تھا۔ تیزی سے ختم ہوتی جانوروں کی یہ نسل کبھی کبھار نیچے آ کر پالتو جانوروں کو نشانہ بناتی رہتی ہے لیکن مجموعی طور پر یہ انسانوں اور پالتو جانوروں کے لیے بے ضرر ہے؛ تاہم بندوق بردار ہر شخص جو بزعم خود شکاری بنا پھرتا ہے شکار کی اخلاقیات کی الف بے سے بھی واقف نہیں اور سامنے آنے والے ہر جانور کو بیدردی سے شکار کرنے کو ہی شکاری ہونے کی دلیل گردانتا ہے۔ پاکستان میں جنگلی حیات کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ یہ چیتا بھی ایسے ہی کسی شکاری کا نشانہ بنا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں اس پر کیا رد عمل دوں؟
میرے چہرے پر تاسف اور بدمزگی کے آثار دیکھ کر وہ کہنے لگا۔ سر جی! یہ میں نے شکار نہیں کیا۔ نتھیا گلی کے قریب کسی اناڑی نے اسے شکار کیا ہے۔ مجھے علم ہے کہ اس کا شکار غیر قانونی ہے اور ویسے بھی یہ نسل پاکستان میں ختم ہو رہی ہے‘ اس کا شکار اگر غیر قانونی نہ ہو تو بھی اس کا شکار نہیں کرنا چاہئے۔ دراصل یہ کھال میرے ایک دوست نے خریدی تھی اور وہ اسے آگے بیچنا چاہتا تھا۔ مجھے ندیم نے بتایا کہ آپ شکار کے شوقین ہیں اور آپ کو ایسی چیزوں سے دلچسپی ہے‘ تو میں نے یہ کھال اپنے اس دوست سے آپ کے واسطے مانگ لی اور آپ کے پاس لے آیا ہوں۔ اگر آپ کو پسند ہو تو آپ لے لیں۔ ویسے تو اس کی قیمت لاکھ روپے بھی کم ہے لیکن ضرورت کی وجہ سے آپ کو یہ کھال صرف چالیس ہزار میں دے دوں گا۔ اس کی عالمی منڈی میں قیمت چار پانچ ہزار ڈالر سے کم نہیں۔ (تب ڈالر شاید 65 روپے کے لگ بھگ تھا) چالیس ہزار روپے میں تو سمجھیں یہ بالکل مفت ہے۔
میں نے کہا: آپ کے لیے ناشتہ لے آئوں۔ یہ کہہ کر میں اندر گیا اور باورچی خانے سے ٹرے میں لگا ناشتہ باہر لے آیا۔ میں نے اسے کہا کہ وہ ناشتہ کرے‘ میں ابھی واپس آتا ہوں۔ اندر جا کر میں نے ندیم کو فون ملایا۔ وہ چک عبداللہ اپنی زمینوں پر گیا ہوا تھا اور وہاں کبھی کبھار موبائل فون کے سگنلز کا مسئلہ آ جاتا ہے۔ تب شاید یہی مسئلہ تھا۔ فون مل ہی نہیں رہا تھا۔ میں نے چار پانچ کوشش کی۔ بالآخر فون مل گیا۔ ندیم سے میں نے پوچھا کہ اس نے کسی شخص کو میرے پاس چیتے کی کھال دے کر بھیجا ہے؟ ندیم نے حیرانی سے پوچھا: کس چیتے کی کھال؟ میں نے کہا: نتھیا گلی کے پاس بارہ بور کی بندوق سے مارا گیا چیتا۔ ندیم نے دوبارہ اسی حیرانی سے کہا کہ وہ تو کسی کھال کے بارے میں نہیں جانتا اور نہ ہی اس نے کسی کو میرے پاس بھیجا ہے۔ میں نے فون بند کیا اور اپنے ایک اور دوست کو فون کیا جو کچھ عرصہ قبل پنجاب میں گیم وارڈن رہا تھا۔ ندیم کے نام سے قائم مروت کا پردہ اب ختم ہو چکا تھا اور مجھے اس چیتے کے شکار کرنے پر جو افسوس اور غصہ تھا وہ دوبارہ عود کر آ چکا تھا اور میں اس کھال کے سپلائر کے ذریعے اصل شکاری تک پہنچ کر اسے قانون کے دائرے میں لانے کا ارادہ کر چکا تھا۔ اتوار کا دن تھا اور اس دوست کا فون بند تھا۔ وہ جی او آر لاہور میں رہائش پذیر تھا۔ میں نے اس کے گھر کا نمبر ڈائل کیا۔ اس کے ملازم نے اٹھایا اور کہا کہ صاحب سو رہے ہیں۔ میں نے کہا: صاحب کو میرا نام بتائو اور کہو کہ مجھ سے بات کریں۔ وہ کہنے لگا: سر جی! صاحب رات اسلام آباد سے دیر سے آئے تھے اور مجھے تاکید کی تھی کہ انہیں جلدی نہ اٹھائوں۔ میں نے فون بند کر دیا۔ ظاہر ہے ملازم نے صاحب کا حکم ماننا تھا نہ کہ میرا۔
میں باہر آیا تو دیکھا‘ ناشتہ میز پر پڑا ہے اور وہ شخص کھال اور بوری سمیت غائب تھا۔ یہ اس کی چھٹی حس کا کمال تھا۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ کہیں نہ کہیں کوئی گڑ بڑ ہو رہی ہے۔ سو وہ ناشتہ چھوڑ چھاڑ کر چیتے کی کھال بوری میں ڈال کر چمپت ہو چکا تھا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved