تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     25-04-2013

ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا

موسم انسانی مزاج پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہ بھی بجا کہ پانچواں موسم، جو دل کا موسم ہوتاہے، وہ ہر موسم پر چھا جاتا ہے‘ مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ قدرت کے موسم جواپنے وقت پر آتے جاتے ہیں انسانی مزاج پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ سردیوں میں سرشام ہی سڑکیں ویران ہوجائیں، کھڑکیوں پر پردے گرا دیے جائیں‘ افراد خانہ آنگن سے کمروں کا رخ کرلیں‘ کمروں میں سردی سے دبک کر بیٹھ جائیں تو ایسے موسم میں دل میں اداسی سی اتر آتی ہے۔ اسی طرح بہار کا آغاز… جہاں خوب صورت، رنگ رنگ کے پھولوں سے منظر کو خوب صورت بناتا ہے وہیں کچھ لوگ حساس لوگوں میں بہار کی آمد سے ہلکے ڈپریشن کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور شاعروں نے اپنے شاعری میں عاشقوں کی ایسی کیفیت کو کئی طرح سے بیان کیا ہے: دل عشاق کی خبر لینا پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں یا پھر کچھ کرو فکر مجھ دیوانے کی دھوم ہے پھر بہار آنے کی یہ صرف شاعرانہ احساس نہیں بلکہ جدید نفسیات کی سائنس نے بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہے کہ بہار آنے پر ذہنی دبائو کے مریضوں کی بیماری کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ دراصل موسمی ذہنی تنائو یا Seasonal Depression کے مریض ہوتے ہیں۔ اس کیفیت کو طبِ نفسیات میں Seasonal affective disorder (SAD) کہا جاتا ہے۔ موسم کے ٹھہرائو کے ساتھ ذہنی تنائو میں بھی کمی آنے لگتی ہے جب جسم اس تبدیلی سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ موسموں کا ہماری نفسیات پر صرف بیماری کی صورت ہی میں اثر نہیں ہوتا بلکہ نفسیات دان کہتے ہیں کہ موسم کی تبدیلی انسان کی عادات پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ مثلاً سردی آنے پر بھوک میں اضافہ ہوجاتا ہے اور نیند بڑھ جاتی ہے جبکہ گرمیوں کی آمد کے ساتھ بے خوابی کی شکایت ہوجاتی ہے اور بھوک میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح بارشوں کا موسم بھی مزاج میں خوشگوار تبدیلی لاتا ہے۔ سردی کی بارشیں اداس کرتی ہیں تو گرمی کی بارش پورے ماحول میں خوشی کی لہر دوڑا دیتی ہے۔ ظاہر ہے‘ انسان اس سے متاثر ہوئے بنا کیسے رہ سکتا ہے۔ ان ملکوں میں جہاں موسم گرما طویل ہوتا ہے، گرمی کی شدت مزاجوں کو چڑچڑا بھی کر دیتی ہے۔ یہی بات مشہور برطانوی ناول نگار ای ایم فوسٹر نے بھی اپنے نازول Passage to India میں تحریر کی۔ فوسٹر متحدہ برصغیر میں کافی عرصہ رہا۔ وہ یہاں کے طویل موسم گرما کی شدت سے خوب واقف تھا۔ وہ اپنے ناول میں لکھتا ہے کہ اگست اور جولائی کے حبس زدہ موسم میں یہاں کے لوگوں کا مزاج چڑچڑا ہوجاتا ہے۔ فوسٹر کی بات سو فیصد درست ہے کہ گرمی کی شدت میں لوگ اپنے آپ سے بیزار دکھائی دیتے ہیں مگر پھر بھی اس نے تو ان بھلے وقتوں کی بات کی جب نہ تو گاڑیوں کے بے تحاشا استعمال سے فضا دھواں آلود تھی نہ ہی گلوبل وارمنگ سے قدرتی موسموں کا مزاج اس قدر برہم ہوا تھا۔ اس وقت لوگ ہماری طرح لوڈشیڈنگ کے عذاب سے بھی نہیں گزرتے تھے۔ آبادی بھی کم تھی اور لوگ ائیرکنڈیشنڈ ماحول کے عادی نہ تھے۔ فضا میں تپش بھی قابل برداشت تھی۔ ان دنوں ہم سب غضب کے موسم سے گزر رہے ہیں جس نے لوگوں کو اپنے آپ سے بیزار کر دیا ہے۔ لوڈشیڈنگ کی اذیت نے لوگوں کو صحیح معنوں میں نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ گھریلو خواتین، طالب علم، دفاتر میں کام کرنے والے مردو وخواتین، ننھے بچے، بزرگ شہری، سبھی اس عذاب کا شکار ہیں۔ دن بھر‘ ہر ایک گھنٹے کی بجلی کے بعد دو گھنٹے بجلی غائب ہوتی ہے۔ کاروبار حیات حقیقی معنوں میں رک جاتا ہے۔ مارکیٹوں میں لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے حکمرانوں کو کوستے ہوئے بجلی کا انتظار کرتے نظر آتے ہیں۔ رات کے اوقات میں بار بار بجلی جانے سے لوگ بے خوابی کے مریض بننے لگے ہیں۔ صبح وقت پر دفتروں میں پہنچنا مشکل ہے۔ طالب علم ایسے ماحول میں اپنی پڑھائی پر توجہ نہیں دے سکتے۔ ایک طرف لوڈشیڈنگ اور دوسری طرف ڈینگی مچھر کا خطرہ ہر وقت سر پر منڈلاتا ہے۔ تنگ گلیوں اور چھوٹے چھوٹے مکانوں میں رہائش پذیر لوگوں کی اذیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے جہاں مکان پر مکان چڑھا ہوا ہو اور چھتیں ایک دوسرے سے گلے مل رہی ہوں۔ وہاں آنکھ بھر آسمان دیکھنا اور تازہ ہوا کا ایک جھونکا میسر آنا مشکل ہے۔ ایسے میں لوگ کس طرح حبس زدہ کمروں اور گھپ اندھیرے میں رات گزارتے ہوں گے؟ مامتا کا امتحان الگ ہے کہ ننھے بچوں کو مچھروں اور گرمی سے بچانے کے لیے مائیں رات رات بھر ہاتھ سے پنکھا جھلتی ہیں۔ رات آنکھوں میں کٹ جاتی ہے اور پھر ایک تپش زدہ دن بغیر بجلی کے گزارنا پڑتا ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو اپنے گھروں میں جنریٹر اور یو پی ایس لگوا کر اس مسئلے کا کچھ تدارک کرسکتے ہیں۔ بجلی ایک گھنٹہ آنے کے بعد تین گھنٹے غائب رہے گی تو یو پی ایس کیسے چارج ہوگا۔ بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ لوگوں کے مزاج اور نفسیات کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت بھی تباہ کررہی ہے۔ لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کرنے والوںمیں صنعتی یونٹوں کے مالکان اوران میں کام کرنے والے ملازمین ہمیشہ آگے رہے ہیں کیونکہ اس عذاب سے انہیں اپنے روزگار کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ ایک معاصر انگریزی اخبار میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق بجلی کی بندش سے سینکڑوں صنعتی یونٹ بند ہونے سے صرف سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کے اضلاع میں پانچ لاکھ صنعتی مزدوروں میں سے دو لاکھ دیہاڑی دار مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں۔ سیالکوٹ جو پاکستان کا قابل فخر صنعتی شہر گردانا جاتا ہے‘ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے وہاں کم و بیش پانچ سو چھوٹے اور درمیانے درجے صنعتی یونٹ بند ہوچکے ہیں۔ لاکھوں مزدوروں کو روزگار دینے والے ان صنعتی یونٹوں کی بندش سے صرف گھروں کے چولہے ہی ٹھنڈے نہیں پڑے بلکہ ہماری ایکسپورٹ پر بھی برا اثر پڑا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک ایک بار پھر انتخابات سے گزرنے والا ہے‘ عوام کو وعدوں اور دعوئوں کے لالی پاپ دیتے ہوئے مختلف جماعتوں کے امیدوار میدان میں ہیں۔ الیکشن کی گہما گہمی ہے۔ روایتی سیاستدان ایسے موسم سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جب ان کے نام کے نعروں سے فضا گونجتی ہے تو ان کی انائیں مزید پھول جاتی ہیں۔ بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرنے والے، ائرکنڈیشنڈ ماحول کے عادی یہ سیاستدان عوامی مسائل سے اس وقت تک آگاہ نہیں ہوسکتے جب تک انہیں بھی چند راتیں ایسے عوامی گھروں میں گزارنے پر مجبور نہ کیا جائے جہاں بجلی بار بار بند ہو، ماحول حبس زدہ ہو، اندھیرا ہو اور مچھروں کی بھنبھناہٹ ہو۔ شاید تب ان کے دلوں میں عوامی مسائل کا احساس پیدا ہو۔ مگر ایسا شاید ناممکن ہے کیونکہ یہ عوام کا درد رکھنے والے وہ عوامی رہنما ہیں جن کی جرابوں سے لے کر پانی تک باہر کے ملکوں سے آتا ہے۔ صرف ان کے نعرے پاکستانی ہیں۔ ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لادوا نہ تھے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved