تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     19-04-2019

اتحاد بین المجرمین

100 سال پہلے جلیانوالہ باغ کا جنرل ریجنلڈ ایڈورڈ ہیری ڈائر ہو یا سامراجی دور کے پنجاب کا آخری گورنر جنرل Sir Michael Francis O'Dwyer‘ 30 سال پہلے کے متحدہ سوڈان کا کرنل عمرالبشیر یا پھر غریب پاکستان کی لٹ کے مال پر لندن‘ دبئی‘ فرانس‘ امریکہ اور جدہ میں محل بنانے والے ''نار خور‘‘ امیر زادے۔ ان سب کے درمیان ایک تاریخی Evil Nexus قدرِ مشترک ہے‘ یعنی اتحاد بین المجرمین۔ جدید نیشنز سٹیٹس کی تاریخ بتاتی ہے‘ ریاستی مجرموں کی 4 قسمیں ہیں۔ پہلے‘ ماورائے سرحدات مجرم۔ دوسرے‘ سٹریٹ کرائم والے گینگ۔ تیسرے‘ دشمن ممالک جنہیں ڈپلومیسی کی زبان میں Alien enemy Countries کہتے ہیں۔ چوتھے‘ سب سے مکروہ دھندہ کرنے والے از قسم کینسر‘ اکنامک کرائم‘ وائٹ کالر کرائم اور منی لانڈرنگ کی انڈر ورلڈ چلانے والے بے رحم ڈاکو ہیں۔ پہلے 3قسم کے ملزموں کا فعال ریاستیں آسانی سے مقابلہ کرسکتی ہیں۔نیشنل بارڈرکنٹرول سٹریٹجی کے ذریعے(Beyond Borders)دشمنوں کو روکا جاسکتا ہے۔ دوسرے قانون نافذ کرنے والی کوئیک رسپانس سٹریٹ فورس اور دردِدل رکھنے والے سماج میںاس قسم کے جرائم کاخاتمہ نہ ہوتب بھی اُن پر موثر کنٹرول قائم کیا جاسکتا ہے۔تیسری قسم کے مجرم پاکستان پر براہِ راست جنگ مسلط کرنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ہاں‘ مگر کچھ ٹولے‘ گروہ‘ فرقے‘ کریمنل سنڈیکیٹ اور قابلِ فروخت مواطن ان کی ''پراکسی جنگ‘‘لڑ سکتے ہیں۔ تازہ جنگوں کے اس میدان میں تھرڈجنریشن وار سب سے خطرناک ہتھیارسمجھا جارہا ہے‘لیکن سفید کالروالے بظاہر معزز معاشی قاتل پر ہاتھ ڈالناآسان نہیں ہوتا۔الکاپون(1899ئ)سے 2019ء تک‘ یہ مجرم اکیلے نہیںہوتے۔ان کی وارداتیں اتحادبین المجرمین کے شیطانی چکر کے ذریعے آگے بڑھتی ہیں۔قانون ساز سے لے کر قانون نافذ کرنے والے تک۔ فیصلہ ساز سے نفاذِ قانون کے ذمہ داروں تک۔قابلِ فروخت سیاسی نمبرداروں سے اثرورسوخ والے سرمایہ کاروں تک ان کی گہری جڑیںپا ئی جاتی ہیں۔اداروں میں کرائے کے مخبراس کے علاوہ۔اس لیے اکنامک کرائم مافیا کو پکڑنا اتنا ہی آسان کام ہے‘ جتنا آسمانی بجلی سے ائیر کنڈیشنڈ چلانا یا کپڑے استری کرنا۔اب آئیے اُس مجرمانہ اتحاد کی طرف جس کاشروع میں ذکر آیا ہے۔جلیانوالہ باغ میںآج سے ایک 100سال پہلے کوئی گروہی جلسہ تھا نہ ہی مذہبی اجتماع۔
جب کہ دوسری جانب(Governor and Company of Merchants of London trading with the East Indies.)کوئی ریاست تھی‘ نہ ہی گلوبل ایمپائر‘بلکہ یہ سابق فوجیوں‘قسمت آزمانے کے شوقین نوابوں اور معاشی ہٹ مین کی ذہنیت رکھنے والے سرمایہ داروں کا ایک مجرمانہ اتحاد تھا۔جو نا صرف برصغیر پاک و ہند‘ بلکہ چین سے جزائرانڈیمان تک کاروباری راستوں‘بندرگاہوں‘ریشم اور ململ کے کپڑوں‘سونے‘جوہرات سے لے کر کوہِ نور ہیرے تک جیسے غیر ملکی اثاثوں کولوٹنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ہوّنق چہرے والا بغلولی حلیے کا جنرل ڈائر اکنامِک ھِٹ مینوں کا ایک معمولی سا گماشتہ تھا۔کوئی فاتحِ عالم نہیں ‘جس نے کسی جنگ کے دوران مظالم کے پہاڑ ڈھائے ہوں۔آج سے ایک سو سال پہلے یونین جیک لہرانے کی بجائے لرزنے لگا تھا۔ہندوستان سمیت دنیابھر میں19ویں صدی کے لوگ لُٹیروں کو پہچاننا شروع ہو گئے تھے۔بالکل ویسے ہی جیسے پانامہ لیکس کے بعد ایک ایک کرکے دنیا کے کرپٹ حکمران زمیں بوس ہورہے ہیں۔لوٹ مارکرنے والے ٹولے کبھی صوبائی عصبیت‘کبھی علاقائی تعصب‘کبھی گروہی مفادات اور کہیں ذات پات کے پیچھے چھپ کردراصل اتحاد بین المجرمین کی سکروٹنی سے جان بچانا چاہتے ہیں۔ان عناصرکوکوئی انقلاب برپا نہیں کرنا‘نہ ہی پارلیمنٹ کے اندر ‘نہ ہی ملکی نظام میں۔
اگلے روز چیف جسٹس آف پاکستان جناب آصف سعید خان کھوسہ صاحب نے بڑی دردمندی سے اس منظرنامے کاایک شرمناک پہلوطشت ازبام کیا۔جسٹس آصف سعید خان کھوسہ صاحب نے کہا :انصاف کا شعبہ پارلیمنٹ کی ترجیح نہیں۔چیف جسٹس صاحب کے اس بیان میں غلط کیاہے؟پارلیمنٹ کے لیے بے شک یہ بات رسوائی کی ہے‘ لیکن ہے تو سچ ‘بلکہ 100فی صد سچ۔
چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ صاحب کا نشاندہی کردہ دوسراالمیہ بھی اول وآخر سچ ہے۔اور وہ یہ کہ پارلیمنٹ کو دوبار‘10مرتبہ نہیںبلکہ 80/90کا وشیں بھی جو ڈیشل ریفامز کے لیے قا نون سازی پر آ مادہ نہ کر سکیں ۔ اب پتا نہیں انصاف کے سب سے بڑے گھر سے نکلا ہوا ایک کال اٹینشن نو ٹس پارلیمنٹ کو جگانے کے کام آسکتا ہے ؟
موجودہ ملکی نظا م میں پبلک اکائونٹس اور سرکاری فنڈز پر مامور دو واچ ڈاگ اہم ہیں ۔ پہلا فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی ( 1975ء ) اور دوسرا قومی ادارہِ احتساب (1999 ئ) ۔ یہ بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ان دونوں اداروں کے سربراہ آ لِ شریف کے تیسرے دورِ اقتدار میں لگائے گئے۔ سا تھ یہ نکتہ بھی قا بلِ توجہ ہے کہ اس وقت احتساب کے جتنے بھی مقدمے چل رہے ہیں ان کا آ غاز نواز شریف کی آخری حکو مت کے عرصے میں ہی ہو ا ۔آئیے اب چلتے ہیںاس تناظر میں سب سے دلچسپ حسنِ اتفاق کی جانب۔ان میں سے کراچی کا فالودے والا اور لاہور کا پا پڑ والادنیا بھر میں مشہور ہیں ‘جن کی وجہ شہرت بے نامی اکائو نٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے اربوں روپے کی بر آمدگی ہے۔دوسرا اتفاق یہ کہ فالودے والے کے اکائونٹس سے دھل دھلا کر اربوں روپے سیدھے ایک خاندان کے کھاتوں میں گئے ۔فاصلہ سینکڑوں میل کا تھا‘ مگر طریقہ واردات ایک جیسا‘ بلکہ برادرانہ ؛چنا نچہ لاہوریے پا پڑ فروش کے لیے کِک بیک کمیشن اور منی لانڈرنگ کی کمائی لاہوری بادشاہ شریف خاندان کے حصے میں آئے۔اس سے بھی بڑا حسنِ اتفاق یوں ہے کہ ملک میں کئی سو رجسٹرڈ سیاسی پا رٹیاں ‘1000 کے قریب منتخب ارکا نِ اسمبلی ۔درجنوں چیمبر آف کامرس۔انجمنِ تاجران ‘بار ایسوسی ایشنز ‘ڈاکٹرز ‘انجینئرز اور پروفیسرز کے ایک اکائونٹ میں ایک ٹیڈی پیسہ(شہبازشریف کے بقول ایک دھیلا) بھی نہیں ڈالا گیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے ‘منی لا نڈرنگ کرنے والے جانتے ہیں ‘کسی تعلیم یافتہ فعال طبقے کے شخص کے اکائونٹ میں جو ٹرانزیکشن بھی ہو گی وہ جلداکائونٹ ہولڈر کے نوٹس میں آئے گی‘ مگر فالودے والا اور پا پڑ والا جیسے خدا کی بستی کے مکین ‘بینک اکائونٹ کا جھنجٹ کہاں پال سکتے ہیں ۔
اب آئیے اتحاد بین المجرمین کی سٹوری میں تازہ ترین ٹوئسٹ کی جانب ۔آپ یقینا یہ جان کر حیران نہیں ہونگے کہ دبئی کی2کمپنیاں اور 2عدد منی ایکسچینج والے ہماری صو بائی خود مختاری جیسے حساس مو ضوع سے آگا ہ نکلے ۔معلوم نہیںانہیں کس نے بتایا کہ ماضی قریب میں لاہور اور لا ڑکانہ سے علیحدہ علیحدہ سلوک کی شکایت آیاکرتی تھی۔ایک پر مہربان اور دوسرے پہ نا مہرباں والی شکایت۔اس مسئلے کا حل دبئی سے نکل آیا۔ان کمپنیوں نے جہاں ایک طرف اومنی گروپ کے اکائونٹس میں رقم بھیجی‘ وہیں ان کمپنیوں نے آلِ شریف سیزن 2اور سیزن3 کے اکا ئونٹس کو بھی سر سبزو شاداب کر دیا۔قا رئین وکالت نامہ کو یہاں پہنچ کر اپوزیشن کی 2بڑی پارٹیوں کا دردِ مشترک آسانی سے سمجھ آ گیا ہو گا۔وہی درد ‘جسے ایک پارٹی 18ویں ترمیم پر حملہ اور دوسر ی جماعت اسے چادر اور چاردیواری پر چھاپہ قرار دے رہی ہے ۔فوجداری مقدمات کی پریکٹس کرنے والے وکیل اور ٹرائل کورٹ کے جج صاحبان اس حقیقت سے پورے آشنا ہیں کہ بڑے بڑے جا بر اور ظالم مجرم اپنی باری آنے پر اندر سے'' پِدّی‘‘ بر آمد ہو تے ہیں ۔پڑوسی ملک میں فخریہ طور پر گجرات کا قصاب کہلا نے والادوباتوں میں ڈھیر ہو گیا ۔
مافیازکتنے بھی طاقتور کیوں نہ ہوں‘مافیا ہی ہوتے ہیں‘ نظام نہیں۔لیڈرنظام بدل سکتے ہیں ‘کوئی مافیا چیف نظام تبدیل نہیںکرسکتا۔اتحاد بین المجرمین کی طاقت کا سر چشمہ عوام نہیں‘بلکہ گندے مال کو منی لانڈری میں دھوکربنائے گئے اثاثے ہیں۔اسی لیے کسی کا چین لوکل تہہ خانوں میں اور کسی کاسکون لندن کے شبستانوں میں پوشیدہ ہے۔ع
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کُھلا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved