خواب ہیں اور وعدے ہیں۔ شاعری ہے یہ زندگی نہیں۔ سپنا ہے یہ راہِ عمل نہیں۔خود فریبی سی خود فریبی ہے۔
میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک/ آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی
اگر کوئی عمران خان کے بغض میں مبتلا ہے۔ اگر یہ سوچتا ہے کہ ملک جائے بھاڑ میں، اس آدمی کو ناکام ہونا چاہئے، تو یہ ایک دوسری بات ہے۔ جس کی ترجیح ملک و ملّت ہے۔ 22 کروڑ انسانوں کا مستقبل جسے عزیز ہے۔ عالمِ اسلام کے ادبار پہ جس کا دل دکھتا ہے۔ اسے تو یہ آرزو نہیں پالنی چاہئے۔ نفرت سے، منفی اندازِ فکر سے بستیاں جنگل ہو جاتی ہیں۔ راستوں اور دلوں پہ تاریکی اترتی ہے۔
اللہ اسے کامیاب کرے۔ درست اور بروقت فیصلے صادر کرنے کی توفیق عطا کرے، مگر یہ ہوگا کیسے؟
ابھی ابھی تحریک انصاف کے ایک نہایت ہی مخلص کارکن عرفان شیخ کا فون موصول ہوا۔ برسوں سے جانتا ہوں۔ خیر خواہ ہیں، ایثار کیش ہیں۔ پارٹی یا حکومت میں کسی عہدے کے طلب گار نہیں۔ با اصرار انہوں نے پوچھا: باقی تو خیر لیکن ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو کیوں؟
ناچیز نے بہت غور کیا، کوئی دلیل تلاش نہ کر سکا۔ وہ تمام ''اوصافِ حمیدہ ‘‘ان میں موجود ہیں، جن کی بنا پر، ادوارِ گزشتہ کی کپتان مذمت کرتا ہے۔ کوئی ''کارنامہ‘‘ ایسا نہیں، جو وہ انجام دے سکتی ہوں اور انجام نہ دیا ہو۔ ایک کے بعد دوسری جماعت بدلی۔ بظاہر اس کے سوا کوئی جواز نہ تھا کہ اب پرانی پارٹی میں، آنجناب کے لیے مزید امکانات کارفرما نہ تھے۔ الیکشن ہار گئیں، اس کے بعد کبھی نیم دلی اور کبھی خوش دلی سے، کبھی کبھار ٹی وی پر عمران خان کی وکالت کی ۔ صلاحیت بھی ایسی کوئی نہیں، جس کی داد دی جا سکے۔ اگر محنتی اور پر جوش ہیں تو اپنے لیے۔ ابلاغ کے قومی اداروں اور اہم شخصیات سے حسنِ تعلق کا اہتمام فرما سکتی ہیں اور نہ زبان و بیان پہ گرفت کہ گہرا تاثر اجاگر ہو۔
اب قیاس ہی ممکن ہے۔ ہوش مند اخبار نویس کہتے ہیں، وزیراعظم سیکرٹریٹ میں براجمان گروہ کو اطلاعات کا ایسا مشیر چاہئے ، جو انہیں اور ان کی ترجیحات کو ملحوظ رکھّے۔ بعض تو کچھ کے نام بھی لیتے ہیں۔ ذاتی نیاز مند جو ایسے نیاز مند بھی نہیں۔ ادھر ادھر جھانکتے بھی رہتے ہیں۔ وفاداری کا یقین دلاتے ہیں مگر ایسے وفادار بھی ہیں۔ موقع ملنے پر اپنے لیڈر کی غیبت کرتے ہیں بلکہ بعض تو بد زبانی اور الزام تراشی بھی۔ خفیہ طور پر ہر دربار میں پذیرائی کے تمنائی رہے۔ بار پایا تو شاد رہے، وگرنہ دوسرے دروازے پہ جا دستک دی۔ وہ نہیں کہ
جب بھی ابروئے درِ یار نے ارشاد کیا
جس بیاباں میں بھی ہم ہوں گے چلے آئیں گے
در کھلا دیکھا تو شاید تمہیں پھر دیکھ سکیں
بند ہوگا تو صدا دے کے چلے جائیں گے
وہ بھی نہیں غالبؔ نے جنہیں شادمانی سے یاد کیا تھا؎
وفاداری بشرطِ استواری اصلِ ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
ایک وصف محترمہ کا یہ ہے کہ دربار میں ''رڑکتی‘‘ نہیں۔ افسوس کہ اس لفظ کا کوئی اردو ترجمہ نہیں۔
اب ایک دوسرے آدمی کو دیکھئے۔ اس کا نام ڈاکٹر امجد ثاقب ہے۔ ایک ایک سیڑھی چڑھتے، ممتاز اور مقبول افسر تھے۔ مصائب اور مشکلات کی ماری مخلوق کی محبت ہمیشہ سے دل میں تھی۔ دو عشرے قبل ایک چھوٹے سے تجربے نے مہمیز دی۔ مواخاتِ مدینہ کی یاد سے ایک خیال دل میں پھوٹا۔ شاندار منصب سے، امکانات سے ہاٹھ اٹھایا۔ زندگی نذر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس تصّور نے قلب میں اجالا کیا کہ پروردگار کی بارگاہ میں پہنچوں تو کوئی متاع کیسے میں ہو۔ رئوف الرحیم کی بارگاہ میں پیش کرنے کو کوئی جواز۔
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو ،خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
پلٹ کے پھر نہ دیکھا۔ یکسوئی ایسی کہ آنکھ نہیں، دیکھنے والوں کا دماغ بھی دنگ رہ جاتا ہے۔ اخلاق ایسا کہ سبحان اللہ، نظم و نسق کا سلیقہ اس قدر کہ اور بھی سبحان اللہ۔ اعتبار اتنا پایا ہے کہ کئی خوش حال، خوش نیت لوگوں نے کسی بھی وقت، کچھ بھی طلب کرنے کا اختیار دے رکھا ہے۔ تین ملین پاکستانیوں کو اسّی ارب کے غیر سودی قرضے دیئے۔ اٹھارہ لاکھ خاندانوں کو ڈھنگ کا لباس پہنایا۔ شہرِ لاہور میں تیسری جنس کے ہمیشہ سے ٹھکرائے ہوئوں کے لیے باوقار ملازمتوں کا بندوبست کیا، وظائف دیئے۔ ان کے سر پہ ہاتھ رکھا۔
ریا نہ دعویٰ، کبھی ان پہ انگلی نہ اٹھی مگر کپتان کی حکومت کو ان پہ اعتبار نہیں۔
شہباز شریف کی حکومت کئی ارب روپے ہر سال انہیں دیا کرتی۔ جیسا کہ ان کا مزاج تھا، اشارے کنایے ہوتے رہے، کہ کچھ داد بھی دیجئے، کوئی حرفِ تحسین، ایک ذرا سی تشہیر۔ اپنے کام میں ڈاکٹر صاحب مگن رہے۔ سر اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ اس کے باوجود ان کا اکرام ملحوظ رکھّا گیا۔
پنجاب حکومت کا روپیہ بانٹنے کے لیے تھوڑے سے کارکن بھرتی کر رکھّے ہیں۔ کپتان کی حکومت نے ان کی تنخواہیں روک دیں۔ ڈاکٹر صاحب حیران، یا رب یہ ماجرا کیا ہے۔ ایک سرکاری شخصیت سے خاکسار نے رابطہ کیا، بات سمجھنے کی جو صلاحیت رکھتے ہیں۔ جواب میں جو کچھ انہوں نے کہا، اب تک اس پہ حیران ہوں۔ کہا کہ ایک اعتراض ہے۔ قرض پہنچانے کا 14 فیصد وہ وصول کرتے ہیں۔ اس سے کہیں کم پہ خود حکومت اہتمام کر سکتی ہے۔ عرض کرنے کی جسارت نہ کی کہ ''اخوّت‘‘ تو روپیہ واپس لے کر سرکاری خزانے میں جمع کراتی ہے۔ آپ کیسے کریں گے؟ فوراً ہی ڈاکٹر صاحب سے بات کی۔ دوسرا کوئی ہوتا تو بگڑتا، ناراض ہوتا، اپنی اور اپنے ساتھیوں کی پاک دامنی کی بات کرتا۔ ہمیشہ کے شائستہ انداز میں فقط یہ کہا: جی نہیں، صرف سات فیصد ۔ ایک اعتبار سے پانچ فیصد کہ ادائیگی اٹھارہ ماہ میں ہوتی ہے۔
بے روزگاری کے سیلاب میں ہزاروں نوکریاں اس اہتمام سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس طرف دھیان کسی کا نہیں۔ڈاکٹر صاحب کا دل دکھا۔ ان کے نیاز مندوں کا بھی کہ کس پہ الزام، کن سے بے نیازی؟ کن سے کٹتے ہو؟ کن سے جڑتے ہو؟ صدمہ یہ بھی ہے کہ پوری بات ٹی وی پر بیان کر دینے کے باوجود، اب تک ایک بے مہر سکوت ہے، ایک سفّاک سناٹا۔
ڈاکٹر صاحب کے حسنِ عمل میں ربّ کریم اضافہ کر دے۔ عمران خان کو حسنِ فکر کی توفیق بخشے۔ جیتا رہا تو شاید ان دونوں کے طویل خاکے لکھوں۔یہ طالبِ علم نہیں تو شاید بلال الرشید یا کوئی اور لکھّے۔ کون زندہ رہنے والی داستاں ہے، خلق نے جو بھلا دی ہو۔آدم کی اولاد فریب کھا سکتی ہے، تاریخ نہیں۔
سچ پوچھئے تو اسد عمر کا معاملہ سمجھ میں آیا نہیں۔ ان کے ساتھیوں کا بھی نہیں۔ وزیر خزانہ کی ترجیحات سے، اندازِ فکر سے اگر اختلاف تھا تو چند ہفتے قبل ہی فیصلہ کر لیا ہوتا یا کم از کم بجٹ پیش کرنے کا موقعہ دیا ہوتا۔ اس کے بعد سلیقہ مندی سے الوداع کہا جاتا۔ رہے غلام سرور خان، شہریار آفریدی اور فواد چوہدری۔ پہلی وزارتوں میں کوئی معرکہ اگر سر نہ کر سکے تو اب کیا کریں گے۔ جہاں تک عامر کیانی کا تعلق ہے، موصوف سے حسنِ ظن کا مظاہرہ خان صاحب ہی فرما سکتے تھے۔
اعظم سواتی اگر خطاکار نہ تھے تو کیوں رسوا کیا ۔ ڈٹ کر ان کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ خطا کار ہیں تو اب یہ انعام کیسا؟پانی یہیں مرتا ہے۔ اپنی برگزیدگی اور عظمت کا احساس۔ ''خبط‘‘ لکھتا مگر مجھے اب بھی مرّوت آ لیتی ہے۔
عثمان بزدار کا اب بھی وہ دفاع کرتے ہیں، کب تک کریں گے؟ اخبار نویسوں سے ناخوش ہیں۔ اس پہ غور نہیں کہ ہر امید پانے والے نے راستہ جدا کر لیا۔ ایک بات وزیراعظم کی درست ہے، سابق حکمرانوں کی چیرہ دستیوں نے ملک اور معاشرے کو تہہ و بالا کیا۔ سوال تو یہ ہے کہ آپ نے کیا کیا؟
خواب ہیں اور وعدے ہیں۔ شاعری ہے یہ زندگی نہیں۔ سپنا ہے یہ راہِ عمل نہیں۔خود فریبی سی خود فریبی ہے۔
میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک/ آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی